یہ کیسی پوسٹ لگائی گئی ہے کہ نوٹ کو ہاتھ لگانے کے بعد اسے اچھی طرح صابن سے دھوئیں پھر تفصیل میں کیا کچھ نہیں لکھا گیا کہ نوٹ کس کس ہاتھ میں جاتے اور کون کون سے جراثیم یہ اٹھاتے ہوئے آپ کے پاس آتے ہیں۔ میں تو پوسٹ پڑھ کر حیران رہ گیا کہ لوگ تو ایسے ہیں جو ہاتھ دھو کر نوٹ کو چھوتے ہیں۔ ہاتھ دھو کر نوٹوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور بعض تو نوٹوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ یہ تو نہایت مشکل کام ہے کہ نوٹ کو چھو کر جراثیم کش صابن استعمال کریں۔ یہ بات ہو تو کاروباری لوگ تو سارا دن ہاتھ ہی دھوتے رہیں اور راتوں کو نہاتے رہیں کہ وہ نوٹوں کی تجوریاں تو گھر جا کر کھولتے ہیں اور بڑے اور چھوٹے نوٹ الگ الگ کرتے ہیں۔ مجھے اچانک بہاولپور کا وہ ٹھگ یاد آیا جو جعلی چیک بنوا کر بینک سے پیسے نکلواتا تھا۔ جب پکڑا گیا تو انویسٹی گیشن ٹیم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے گھر سے ایک ڈرم پرانے نوٹوں کا ملا اور پتہ چلا کہ چور صاحب بہت نفیس طبع ہیں اور وہ پرانے نوٹ اس ڈرم میں پھینک دیتے ہیں۔ نوٹوں کو چھونے کے بعد کس کا دل ہاتھ دھونے کو کرتا ہے۔ یہی نوٹ تو سب کو عزیز ہیں کہ انہی سے ووٹ بنتے ہیں۔ پھر دوسری بات یہ کہ اس پر قائد اعظم کی تصویر ہے اور اس کے اندر مضمر تعمیر بھی ہے مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ریحانہ یاسمین نے ایک ہزار کے نوٹ کی آب بیتی لکھی تھی کہ وہ کن کن لوگوں کے پاس گھومتا رہا اسے کتنی بار رشوت میں دیا گیا اور کتنی بار غلط مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ اب تو ایک ہزار روپے کے نوٹ کی اوقات ہی کیا۔ اب تو پانچ ہزار کے نوٹ کی کوئی وقعت نہیں۔ خاص طور پر سیاستدان اور صاحبان حیثیت تو چاہتے ہیں کہ پچاس ہزار یا لاکھ کا نوٹ ہو کہ ان کا بریفک کیس دوسرے نوٹوں کے لئے چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ سندھ میں تو ایک صاحب کو خزانہ ہی اٹھا کر گھر لے کے جانا پڑ گیا لیجیے ایک بھولا بسرا شعر یاد آ گیا: اب تماشہ نہیں دیکھا جاتا نوٹ پھینکو کہ مداری جائے میں بھی کیا ہوں سوشل میڈیا پر پوسٹ دیکھ کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ گیا یہ پوسٹیں ہوتی دلچسپ ہیں ابھی ایک پوسٹ فردوس عاشق اعوان کے حوالے سے لگی ہوئی ہے کہ صحت یاب ہونے کے بعد ان کا پہلا بیان یہ تھا’’مال مفت دل بے رحم‘‘ اب بتائیے کوئی کہے تو کیا کہے کہ اس بیان کے کیا مضمرات ہیں کیونکہ یہ دل ہی کا تو معاملہ ہے غالب نے بھی تو کہا تھا: دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں ویسے بظاہر نہیں لگتا کہ فردوس عاشق اعوان اتنی کمزور دل ہیں کہ جب وہ بولتی ہیں تو دشمنوں کا پتا پانی ہونے لگتا ہے جو بھی ہے اللہ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے مگر ان کا پہلا بیان بہرحال محل نظر ہے۔ اس پر کئی گرہیں لگائی جا سکتی ہیں ایسے ہی جیسے رومی کنجاہی کے مندرجہ ذیل مصرع پر: حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی آپ اس کے ساتھ کوئی بھی مصرع لگا کر دیکھ لیں: مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو ’’حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی‘‘ میدان اب کے مارا ہے عمران خان نے ’’حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی‘‘ فردوس آ گئی ہے جو فواد کی جگہ ’’حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی‘‘ میرے معزز قارئین آپ بھی سوچتے ہونگے کہ آخرمیں کیا لکھتا جا رہا ہوں ۔ جی میں وہیں کچھ لکھ رہا ہوں جو آپ پڑھ رہے ہیں۔ واقعتاً ہمیں تو کچھ فرق نظر نہیں آ رہا۔ اسی طرح نان ایشوز پر سیاست ہو رہی ہے۔ اس بات پر جھگڑا کہ نواز شریف کو ان کے گھر کا کھانا نہیں کھانے دینا اور اس بات پر مریم نواز نے دھمکی لگا دی ہے کہ وہ بھوک ہڑتال کر دیں گی۔ عوام کو مہنگائی نے تارے دکھا رکھے ہیں اور غریب خودکشیاں کرنے کا سوچ رہے ہیں کہ انہیں مرنے کے لئے زہر بھی دستیاب نہیں مگر ایک سطح ہے کہ جہاں حکومت چاہتی ہے کہ نواز شریف کا کھانا وہ دیں اور مریم نواز کی ضد ہے کہ کھانا گھر سے آئے گا۔ وہی جو کہا جاتا ہے کہ سب رج کھان دیاں مستیاں نیں۔ ویسے انصاف کی بات ہے کہ آخر نواز شریف کو جیل سے کھانا کھلانے کی کیا مصیبت ہے یہاں بھی دل کا معاملہ ہے۔ کہیں فردوس عاشق اعوان نے ’’مال مفت دل بے رحم‘‘ میاں صاحب کے لئے تو نہیں کہا۔ بہرحال دونوں کو امیروں کی بیماری ہے ایسے ہی جیسے سیاستدان غریبوں کی بیماریاں ہیں۔ ویسے تو نواز شریف نے بھی دل بہت استعمال کیا ہے اور شہباز شریف نے تو دل کی ہر مراد پائی ہے۔ میر یاد آئے: مریض عشق پر رحمت خدا کی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی حالی نے تو ہماری پسند کا شعر کہا تھا: ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی دل چاہتا نہ ہو تودعا میں اثر کہاں مگر کبھی یہ بھی کہنا پڑتا ہے’’نہ دعا ہی میں اثر ہے نہ دوا دی جائے‘‘ بات کدھر کی کدھر نکل گئی۔ نکل بھی گئی تو بندہ کیا کر سکتا ہے۔ حکومتی معاملات بھی تو اسی طرح ان کے ہاتھ سے نکلے چلے جا رہے ہیں اور ان کی ساری توانائیاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو دشنام دینے میں صرف ہو رہی ہیں اب نواز اور زرداری کے دوروں کا تذکرہ شروع ہو گیا ہے چار پانچ ماہ اس میں لگ جائیں گے یہ تین ارب روپے کی بات ہے مگر حکومت کو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی۔ وہ جو اربوں روپے باہر پڑے تھے ان کی ہوا بھی کسی کو نہیں لگی۔ لگتا ہے ایک بے سود سا کام ہو رہا ہے۔ لگتا ہے کہ عوام کو امیدیں لگائے رکھنے کا سب منصوبہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ سارے کام آپ بھی وہی کر رہے ہیں جو وہ کیا کرتے تھے سردست آئی ایم ایف والا معاملہ تو اور بھی نازک ہو گیاہے۔کوئی سرکس لگتاہے یا کوئی ڈرامہ جس میں ڈائیلاگ ہی ڈائیلاگ ہیں کہانی ہے ہی نہیں۔ کردار بھی سارے مستعار لئے گئے ہیں جو مکالموں میں آمیزش کرتے ہیں تو ہنسی آنے لگتی ہے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: بات کوئی نہ سہاری جائے زندگی کیسے گزاری جائے