مجھ سا کوئی جہاں میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو خوابوں سی دلنواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو یہ سارا نفسیات کا کھیل ہے۔ اسی نفسیات کی بدولت حکمران عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ انہیں ایسے خواب دکھاتے ہیں جو انہیں سونے نہیں دیتے وہ خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیں مگر وائے تقدیر کہ ان کے خواب تشنہ تعبیر رہتے ہیں۔ صرف سیاستدان ہی نہیں طالع آزما بھی اسی قسم کا وعدہ کر کے آتے ہیں اور پھر ان کے چند روز کئی سالوں پر پھیل جاتے ہیں اور وہ عوام کی گردن پر سوار رہتے ہیں۔ میں جو باتیں کر رہا ہوں یہ سب روٹین کی باتیں ہیں جو اکثر میرے کالم نگار دوست روزانہ کرتے ہیںاور بعض تو روزانہ ایک ہی کالم لکھتے ہیں۔ ایک تخلیق کار کے لئے کم از کم جگالی کرنا بہت مشکل۔ شکیب نے کہا تھا: شکیب اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے ہم اس سے ہٹ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے انیس نے کہا تھا ’’اک پھول کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘میں سمجھتا ہوں کہ ایسی تخلیق سے بھی لوگ تھک جاتے ہیں وہ پھول بھی نیا نیا دیکھنا چاہتے ہیں اور خوشبو بھی الگ الگ۔ ظاہر سب لوگ منٹو بھی نہیں ہو سکتے کہ خالی قرطاس پر ایک لائن لکھیں اور پھر اس سے افسانہ بنا دیں۔ سب راجندر سنگھ بیدی بھی نہیں کہ جو چاہے اپنے آپ کو کہیں اور پھر تمثیل بنا دیں۔ یہ ہے تو لطف کی بات کہ آپ اپنے قاری کو ان دیکھے جزیروں میں لے جائیں جیسے کہ امریکہ کے ’’جزائر ہوائی‘‘ ہیں کہ جہاں آپ باہر سے کوئی چیز اندر نہیں لے جا سکتے کہ وہاں کے ماحول کو مکمل فطری رکھا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے دوست وحید نسیم وہاں کے منظر آنکھوں میں اٹھا لاتے تھے اور پھر انہیں کتابی صورت میں بیان کر دیا۔ ایسا منظر بھی کیا منظر ہے کہ پورا چاند ہو پہاڑ ہوں اور شاعری تنہائی میں صرف ہوا آپ کو لمس کر رہی ہے: وہ تنہائی تھی پیڑوں کی وہ خاموشی تھی سڑکوں کی ردائے شب سے اکثر میں ستارے چنتا رہتا تھا آپ یقین کریں کہ میں لکھنا تو چاہتا تھا عمران خان کے دورہ چین پر کہ ایک مرتبہ پھر خوابی سی کیفیت پیدا ہوئے جا رہی ہے۔ سچی بات تو یہ اکثر لوگ پاکستان کی فلاح چاہتے ہیں کہ بہت کچھ دیکھ چکے ہیں۔ ظاہر اس عشق میں کچھ آزمائش اور نقصان بھی ہو گا۔ تبدیلی کا ہم مذاق تو اڑاتے ہیں کہ مہنگائی کے ہاتھوں ہم بھی تنگ ہیں مگر ایک لمحے کے لئے خیال آتا کہ ’’انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی‘‘ چلیئے لوگوں کے خدشات بھی دور ہو رہے ہیں اب ایسا نہیں کہ کہیں’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ غالباً حکومت کی نظرثانی ماحول کو یکسر بدل دیا ہے اور ہم دوسروں کے رویے بھی دیکھ چکے ہیں۔ بہت دیر تک استحصالی قوتوں کے زیر بار نہیں رہا جا سکتا۔ خان صاحب نے بڑے اعتماد اور امید سے کہا ہے کہ ہماری چین سے شراکت داری ہے اور پھر میرے خیال میں یاری بھی ہے اور اسی میں ساری سرشاری بھی ہے۔ وگرنہ بحری بیڑوں کی عیاری ہم بھگت چکے۔ بہرحال چین کے ساتھ ہماری دلداری ان کی ہماری نازبرداری کوئی نئی بات نہیں حکومت کے اس اقدام سے اپوزیشن کے پاس بھی کوئی ایشو نہیں رہا۔ کبھی ہم نے کہا تھا: فرصت ہمیں ملی تو کبھی لیں گے سر سے کام اک در بنانا چاہیے دیوار چین میں اور اس غزل کا مطلع بھی آپ کو موجودہ تناظر میں لطف دے گا کہ ہماری دوستی جو ہمالیہ سے بلند‘ سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ایسے ہی نہیں: اک دل بنا رہا ہوں میں دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں یہ ذہن میں رکھیے کہ محبوب پاکستان ہی ٹھہرتا ہے۔ یہ اڑی بھی کرتا ہے۔ ناز و نخرہ بھی۔ اب جو کھل کر ایجاب قبول ہوا ہے تو بات بنتی نظر آ رہی ہے۔ چلیے اب ہم ذرا اپنا موضوع تبدیل کرتے ہیں کہ قارئین کی دلچسپی کے لئے کسی دلچسپ موضوع پر بات کرتے ہیں۔ چلیے یہ تو چودھری نثارہیں جن کا فرمانا ہے کہ نہ حلف لیا نہ لوں گا‘ بندہ پوچھے آپ نے الیکشن ہی کیوں لڑا تھا اب آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جو مجھے وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے ہیں وہی جواب دیں گے۔ یہ تونثار چودھری بھی سمجھتے ہیں کہ وہ وسیم اکرم پلس کا رول ادا نہیں کر سکتے اور نہ ہی خان صاحب چودھری نثار سے عثمان بزدار کا جیسا کام لے سکتے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنس پر میں نے قطعہ بھی کہا تھا اور اس سے زیادہ جامع تبصرہ بتائیے کیا ہو گا: کائیں کائیں کائیں آئو کھچڑی پکائیں لیکن دال اور چاول آئیں بائیں شائیں چلیے چھوڑے چودھری صاحب کو ایک اور دلچسپ خبر بیان چیئرمین پی پی کا پڑھیے کہ اردو پر عبور نہ ہونے پر ’’خان صاحب سمجھتی ہے‘‘ کہا ہے بلاول صاحب عبور تو چھوڑیو پٹھانوں کو تو اردو پر قابو بھی نہیں۔ خاں نے بھی صاحبہ شاید اسی وجہ سے کہا تھا۔ میرا دوست خبیب خان کہا کرتا تھا’’شاہ جی‘‘ ہمارے لئے سب سے بڑا مشکل یہ ہے کہ مذکر کونسی ہے اور مونث کون سا ہے‘‘ مذکر کو مؤنث بنانا پشاور میں بہت عام ہے۔ ویسے صاحبہ والے معاملہ کو پیپلز پارٹی نے اچھال کر ثابت کیا کہ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘ صاحبہ اپنی جگہ خوش کہ اس کا نام بلاول کے ساتھ آیا۔ نقاد غلط کہہ رہے ہیں کہ موجودہ سیاست میں ابتذال آ گیا ہے۔ ایسی بات نہیں یہ سیاست کا حسن ہے اس میں ادب آداب کی بات عیب سمجھی جاتی ہے۔ جیسے فلموں میں پڑھا لکھا بندہ نہیں چلتا۔ احمد عقیل روبی کو زیادہ پڑھا لکھا ہونے کے باعث فلم نہیں ملتی تھی اور فلمساز ان کی قدر کرنے اور ان کے بیگ میں بیس پچیس ہزار ویسے ہی ڈال دیتے کہ فلم لکھنے کا مت سوچیں۔ کوئی سیاستدان فیر بونگیاں مارے گا۔ لکھنے والوں کے لئے وہی کارآمد ہے میرا خیال ہے اب ایک شعر لکھ کر کالم ختم کر دیا جائے۔ شعر ہے آصف شفیع کا: میرے اعدا سے کہو حد سے تجاوز نہ کریں یہ نہ ہو مجھ کو بھی تلوار اٹھانی پڑ جائے