یہ تصور ہی کتنا ہولناک اور خوفناک ہے کہ بھڑکتی ہوئی آگ‘ بھاگتی ہوئی ٹرین‘ نیچے گہری کھائی اور نوکیلی پہاڑیاں‘ ایسے میں جلتے ہوئے انسان اور بچوں کو سینے سے چمٹائے ہوئی مائیں۔ بہنوں کو بچاتے ہوئے بھائی مگر سب کے سب بے بس‘ بے آسرا‘ کچھ سنائی دے رہا ہے، انسانوں کی عرش تک بلند ہوتی چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے اور کچھ دکھائی دے رہا ہے تو وہ لپکتے ہوئے شعلوں کی یلغار دکھائی دے رہی ہے۔ بعداز خرابی بسیار لیاقت آباد کے قریب تیز گام رکتی ہے تو اس وقت تک آتشزدگی سے 74زندہ انسان‘ جی ہاں ہنستے مسکراتے سوتے جاگتے بالکل ہم جیسے انسان جل کر کوئلہ بن چکے ہوتے ہیں اور 40سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے اکثر کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ اتنی بڑی ٹریجڈی کے بعد تو ذمہ دار انسان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ وہ غم کے مارے نڈھال ہو جاتا ہے وہ دردوالم کی تصویر بن جاتا ہے۔ غم کی شدت سے اس کے منہ سے بات نہیں نکلتی اور وہ اتنا ہی کہہ پاتا ہے کہ ہم اتنی بڑی ٹریجڈی پر سراپا درد و غم ہیں۔ مجھے الفاظ نہیں مل رہے کہ میں اس خوفناک حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے پیاروں کے ساتھ کیسے اظہار تعزیت کروں اور انہیں کیسے دلاسا دوں مگر یہاں اس حادثے کے میڈیا فرینڈلی ذمہ دار کے روایتی لب و لہجے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے ریلوے کے وزیر نے آگ بھڑکنے کی ذمہ داری تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے مسافروں کے گیس کے چولہوں اور سلنڈروں پر ڈال دی۔یہ تو غمزدوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔ ملتان پہنچنے والے مسافروں نے بڑے وثوق سے کہا ہے کہ یہ حادثہ ریلوے کی غفلت سے ہوا اور شارٹ سرکٹ اس کا اصل سبب ہے۔ قارئین کو یاد آ گیا ہو گا کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا‘ شیخ رشید احمد کو ریلوے کی وزارت پر متمکن ہوئے تقریباً سوا سال ہوا ہے اس دوران ریلوے کے تقریباً90حادثات ہو چکے ہیں۔ جن میں سے 9انتہائی خوفناک حادثے تھے ان حادثات میں درجنوں مسافر ہلاک ہوئے تھے۔ ریلوے افسران نے جولائی میں قومی اسمبلی میں حوادث کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مختلف ریل گاڑیوں آگ لگنے کے 12واقعات ہوئے جن میں سے 4واقعات تو صرف گاڑیوں کی ڈائننگ کاروں میں پیش آئے۔ ریلوے ذرائع کا کہنا یہ ہے کہ آتشزدگی کے اکثر واقعات شارٹ سرکٹ کی بناء پر پیش آئے ۔ لیاقت آباد کے تازہ ترین تیز گام حادثے کے بعض عینی شاہدین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رات سے ہی بوگی نمبر 12میں جلنے کی بو آ رہی تھی۔سپارک سے متعلق انتظامیہ کو آگاہ کیا لیکن کچھ نہ کیا گیا۔بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ رشید احمد نے تبلیغی مسافروں کو گیس والے چولہے اور سلنڈروں کی خصوصی طور پر اجازت دلوائی تھی۔ اگر یہ سچ ہے تو شیخ رشید پر دوہری ذمہ داری عائد اس لئے ہوتی ہے کہ شیخ صاحب ہلاکتوں کے ذمہ دار اور جوابدہ ہیں ایک غیر جانبدارانہ انکوائری کو یقینی بنانے کے لئے شیخ رشید فی الفور مستعفی ہوں۔ اس اجازت کے علاوہ بھی بڑے بڑے ریلوے اسٹیشنوں پر نصب شدہ سیکنر کام نہیں کرتے۔ تیز گام حادثے کے عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرین کی زنجیر ناکارہ اور آگ بجھانے کے آلات بھی غائب تھے۔ شیخ رشید احمد میڈیا کے مرد میدان ہیں۔ ہر وقت میڈیا میں ’’ان‘‘ رہنا اور ٹی وی اسکرینوں پر جگمگانا ان کا شوق بھی ہے‘ مشغلہ بھی ہے اور سیاسی حکمت عملی بھی ہے۔ ان کی ایک سالہ کارکردگی سے عیاں ہے کہ وہ ریلوے کی مستقل بنیادوں پر ترقی اور بہتری سے انہیں کوئی زیادہ سروکار نہیں۔ وہ ریلوے کے فورم سے بھی سیاسی بریکنگ نیوزدیتے رہتے ہیں اور ریلوے کے لئے بھی ان خیالی منصوبہ کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں جس کی تنصیب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ریلوے کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط نہیں بنا لیا جاتا۔ ریلوے کے اصل مسائل ہیں ٹوٹے اور کانپتے ہوئے ریلوے ٹریک‘ مناسب دیکھ بھال کے بغیر خطرناک ریلوے کراسنگ، گاڑیوں کے اندر ٹیکنیکل اور انتظامی سکیورٹی کا کوئی مناسب و جدید سسٹم۔ اس کے علاوہ گاڑیوںمیں کوئی ایسا خودکار نظام نہیں کہ گاڑی کے کس حصے میں آگ لگنے پر یا کوئی اور ایمرجنسی ہو تو فی الفور ایک خودکار نظام کی بدولت الارم بج جائے۔ آزادی سے 18سال قبل شوکت تھانوی نے ’’سودیشی ریل‘‘ کے عنوان سے ایک طویل افسانہ یامختصر ناول لکھا جسے عالمی ادب میں شاہکار تسلیم کیا گیا۔ اس کلاسیکی شاہکار سے ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں جب آزادی کے بعد مسافر لکھنو سے کانپور جانے کے لئے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے کر کمپارٹمنٹ میں پہنچا تو وہاں پہلے سے بہت سے تھرڈ کلاس کے مسافر براجمان تھے بیچارے سیکنڈ کلاس مسافر نے جب کہا کہ آپ اپنی تھرڈ کلاس میں جائیں تو انہوں نے کہا تمہیں معلوم نہیں اب ہمیں آزادی مل چکی ہے اس لئے اب کوئی کلاس نہیں‘ سب برابر جس کا جہاں دل چاہے وہاں بیٹھے۔ بڑی دیر تک جب گاڑی نہ چلی تو مسافر نے پلیٹ فارم پر کھڑے گارڈ سے پوچھا کہ گاڑی اتنی لیٹ کیوں ہو گئی ہے اس نے کہا جی ! آپ کو کاہے کی جلدی ہے۔ ڈرائیور شہر سے کوئلہ لینے گیا ہوا جب وہ آئے گا تو کوئلہ انجن میں ڈالا جائے گا پھربھاپ بنے گی تب انجن چھک چھک کرتا چل پڑے گا۔ اس طرح کے سودیشی ریل شاہکار آج بھی ریلوے کی کارکردگی دیکھ کر اور افسانے کی تخلیق کے 90برس بعد بھی ہو بہو درست ثابت ہو رہے ہیں۔ جوں جوں دنیا آگے بڑھتی جا رہی ہے توں توں دنیا میں ریلوے کی ہی نہیں ہر شعبے کی کوالٹی خوب سے خوب تر ہوتی جا رہی ہے ایک ہم ہیں کہ ہمارے ہاں ہر شے کی کوالٹی بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں پاکستان ریلوے کی کارکردگی مثالی نہ سہی مگر آج کی نسبت بہت بہتر تھی۔ پھر 1972ء میں ذوالفقار بھٹو کا عوامی دور آ گیا۔ اس دورکا غیر علانیہ سلوگن یہی تھا: جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو 1950ء کی دہائی سے لے کر اب تک بیورو کریسی‘ سیاست دانوں اور مقتدر حلقوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اختیارات کے لئے رسہ کشی جارہی ہے۔ قومیں مسلسل تعلیم و تربیت اور ڈسپلن سے باشعور اور پابند قانون بنتی ہیں۔ مگر یہاں کسی کے پاس اس ’’کار فضول‘‘ کے لئے کوئی وقت نہیں۔ تیز گام حادثے سے دل بہت افسردہ ہے مگر اس سے بڑی دل گرفتگی یہ ہے کہ دور دور تک اصلاح کی کوئی امید اور کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔