پھر بیسویں صدی کی شاعری میں تو جا بجا یہی دل بَلیوں اُچھل رہا ہے۔ سَو سال کے عرصے میں ہمارے رنگا رنگ شاعروں نے دل پھینکنے اور رکھنے کے کیا کیا جتن کیے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں۔ ناصر کاظمی جدید اُردو غزل کا بڑا نفیس تعارف ہے۔ شاید ہی کوئی غزل کا دلدادہ ہو، ناصر کا کوئی نہ کوئی شعر جس کے دل میں دھڑکن بن کر نہ دھڑکتا ہو۔ ذرا دیکھیے کہ ناصر نے اس عضوِ خودسَر کے تاروںکو کس کس انداز سے چھیڑا ہے: دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا وہ تِری یاد تھی، اب یاد آیا حالِ دل ہم بھی سناتے لیکن جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا دل تو میرا اداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں تُو بھی دل سے اُتر نہ جائے کہیں فیض بھی اس عہد کا وہ شاعر ہے کہ جس نے ترقی پسندی کی لاج بھی رکھی اور شاعری کی آبرو کا سودا بھی نہیں کیا۔ اس نظم میں ان کا دل کے ساتھ ورتارا دیکھیے: مِرے دل مِرے مسافر/ ہوا پھر سے حکم صادر/ کہ وطن بدر ہوں ہم تم / دیں گلی گلی صدائیں/ کریں رُخ نگر نگر کا / کہ سراغ کوئی پائیں/ کسی یارِ نامہ بر کا/ ہر اک اجنبی سے پوچھیں/ جو پتا تھا اپنے گھر کا/ سرِ کوئے ناشنایاں / ہمیں دن سے رات کرنا/ کبھی اِس سے بات کرنا/ کبھی اُس سے بات کرنا عرفان صدیقی اور منظر بھوپالی بھارت میں جدید اُردو غزل کا نہایت معتبر حوالہ ہیں۔ انھوں نے نئی غزل کو اسلوب اور موضوعات، دونوں حوالوں سے توانائی بخشی ہے، منظر تو اپنی شاعری کو حالات کا مرثیہ کہتے ہیں۔ دونوں کا اس موضوع پر ایک ایک شعر پیش ہے: توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دل داری کی اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی (عرفان صدیقی) ہمارے دل پہ جو زخموں کا باب لکھا ہے اسی میں وقت کا سارا حساب لکھا ہے (منظر بھوپالی) پاکستان کے جدید شعرا نے بھی اس موضوع کو ہمیشہ دل پہ لیا ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ اس دو حرفی عضو پہ انھوں نے نئے نئے مضامین کی کیا کیا عمارات کھڑی کی ہیں: انھیں خط لکھا کہ دل مضطرب ہے، جواب اُن کا آیا محبت نہ کرتے تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا، بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے (قمر جلالوی) دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے (عدم) داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے لوگ اپنے دیے جلانے لگے (باقی صدیقی) توڑ کر دیکھ لیا آئینہ دل تُو نے تیری صورت کے سوا اور بتا کیا نکلا؟ (مظفر وارثی) اور اس دل میں کیا رکھا ہے تیرا ہی درد چھُپا رکھا ہے چیر کے دیکھو دل میرا تو تیرا ہی نام لکھا رکھا ہے (پرکاش مہرا) پھر دل کی اسی دنیا میں ہماری شاعرات بھی کسی سے پیچھے نہیں، اس موضوع کو گرفت میں لینے کے اُن کے انداز بھی دیکھیے: لو! مَیں آنکھیں بند کیے لیتی ہوں، اب تم رخصت ہو دل تو جانے کیا کہتا ہے، لیکن دل کا کہنا کیا! (پروین شاکر) دل کی گہرائی سے بس اِک سچا لفظ ہجر کا حصہ ڈھونے کی مزدوری ہو (یاسمین حمید) شب کے آنگن میں جب شام گرنے لگی کون تھا دل میں؟ جس نے کہا روشنی (نوشی گیلانی) اب تو شنید ہے کہ محکمہ صحت نے ایک ارب سے زائد رقم دل کے علاج کے لیے چونتیس ہزار سٹنٹ خریدنے کے لیے وقف کر دی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارا جعل ساز مسیحا حسبِ عادت زیادہ قیمت کے لینے کے باوجود سستے والے ناکارہ سٹنٹ ڈالے گا، جس کے بعد مریض بے چارہ چھت پہ چڑھ کے گاتا پھرے گا: سٹنٹ باز سجنا نے سپیشلسٹ بلما نے اتنی مہنگی لگائی ڈوز کہ دل ہوا بو کاٹا اس سے ہٹ کے دیکھیں تو ہماری مِلّی شاعری بھی ’ دل دل پاکستان ‘ جیسی دلبری و دل داری بھری پڑی ہے۔ پھر فلم نگر کا قافلہ تو دل کے بغیر ایک قدم آگے بڑھاتا دکھائی نہیں دیتا۔ دل، دلبر اور دل لگی، جیسی درجنوں فلمیں باکس آفس پہ ہٹ ہوئیں۔ گیتوں میںکہیں سے آواز آتی ہے: اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں؟ کہیں سے نوحہ بلند ہوتا ہے: اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا… کہیں سے خبر ملتی ہے:دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے… کہیںسے خوش خبری سنائی دیتی ہے: دل لگی میں ایسی دل کو لگی کہ دل کھو گیا… کہیں اس انا داری کا اظہار ہو رہا ہے کہ: دل والا دُکھڑا نئیں کسے نوں سنائی دا… کہیں دریافت کیا جا رہا ہے: اساں تیرے دل وچ رہنا کرایہ دَس مُنڈیا … کہیں یہ شکوہ سر اٹھا رہا ہے کہ: دل دیاں لگیاں جانے ناں… کہیںسے اس وقوعے کی اطلاع ملتی ہے کہ: دل والے دُلہنیا لے جائیں گے… غرض یہ کہ دل کی دنیا شاعری میں بھی بڑی رنگین اور حسین ہے۔ یہ دیکھ کے حیرت ہوتی ہے کہ ان لفظی طلسم کاروں نے اس آلۂ پُرفتن پر کس کس انداز سے ہاتھ ڈالا ہے۔چلتے چلتے اسی موضوع پر ہماری ایک غزل کے بھی تین اشعار ملاحظہ کرتے جائیے: مکانِ جسم پہ اس دل کی دستکیں بھی سنو! خوشی سے رقص میں ہے یا رہائی چاہتا ہے یہ میرا دل تو مِرے پاؤں پڑ گیا کل شام یہ مجھ سے بڑھ کے تِرے ہاں رسائی چاہتا ہے ہے مختصر کہ مِرا دل اداس رہتا ہے وفا کے قحط میں یہ دل رُبائی چاہتا ہے