زمانہ طالب علمی میں اگر ایک جانب اپنے ساتھ یہ ظلم کیا تھا کہ اسباق میں سوائے ان کتب کے کسی کتاب کے سبق میں دلچسپی نہ لی جو اپنے والد سے پڑھیں تو دوسری جانب اسی زمانے میں دو اچھے کام بھی کئے۔ ایک یہ کہ فلمیں دبا کر دیکھیں۔ اور دوسرا یہ کہ ناولز اور غیر نصابی کتب بے شمار پڑھ ڈالیں۔ قریب تھا کہ "مغربی لنڈا" بیچنے والا لبرل بن جاتا مگر خدا کی شان کہ جب درس نظامی سے فارغ ہو کر اپنے حصے کے گل کھلانے کو عملی زندگی سے روبرو ہونے کو تھا تو مطالعے کے سفر کے دوران پہلی بار ابوالکلام سے سامنا ہوگیا، اور یہ بیس برس کی عمر تھی۔ گمراہی کے دروازے پر دستک دینے ہی والا تھا کہ ابوالکلام نے گویا ہاتھ پکڑ کر پوچھا "او میاں ؟ یہ کیا کرنے لگے ہو ؟" اور میں چونک کر رک گیا۔ آج غور کرتا ہوں تو المیہ یہ تھا کہ درس نظامی سے میں پوری طرح اکتا چکا تھا۔ چنانچہ ایسے میں ابوالکلام پہلا شخص تھا جس نے مجھے "دین ایک دلچسپ چیز" کی صورت دکھا دیا۔ زاہد تنگ نظر تو ابوالکلام کے ستار کو "مفتی" کی نظر سے دیکھتا ہے لیکن وہ کیا جانے کہ یہ ابوالکلام کا ستار ہی تھا جو مجھے دین کی طرف واپس لایا تھا۔ دین کی جانب سنجیدگی سے پلٹنے کے اس سفر میں جب ایک شام استاد مکرم حضرت مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ کی خدمت میں مغرب کی نماز سے کچھ قبل یہ شعر پیش کیا کون کہتا ہے جگر ایسی عبادت ہے حرام آؤ سجدہ کریں اللہ کو میخانے میں تو دریافت فرمایا "پوری غزل آتی ہے ؟" اثبات میں جواب دیا تو سنانے کی فرمائش کردی۔ میں نے پوری غزل سنادی اور جب سنا چکا تو ان سے اپنی بے تکلفی کے اظہار کے لئے گویا چھیڑتے ہوئے عرض کیا "استاذ جی ! یہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی کلاسکس میں سے ہے۔ آپ کبھی میرے گھر تشریف لائے گا تو آپ کو سنواؤں گا" میرے استاد نے مجھے ڈانٹتے ہوئے یہ کہہ کر مجلس سے نہیں نکال دیا کہ "نکل جا گستاخ ! ہماری مجلس کو غنا کے ذکر سے ناپاک کرتا ہے !" بلکہ مسکراتے ہوئے یوں گویا ہوئے "تم ٹھیک کہتے ہوگے، عطاء اللہ نے واقعی اچھی گائی ہوگی لیکن مہدی حسن سے اچھی نہ گائی ہوگی" اب یہاں ایک اہم کڑی اور جوڑنے دیجئے۔ میرے والد مولانا محمد عالم رحمہ اللہ ایک بے مثال مدرس تھے۔ انہیں واضع نے وضع ہی تدریس کے لئے کیا تھا۔ ان کی تدریس کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ اس میں قدم قدم پر بطور مثال لطائف کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اور یہ لطائف 95 فیصد فحش ہی ہوا کرتے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ کنز الدقائق، سلم العلوم اور میبذی کے اسباق میں میں بھی کلاس میں موجود رہا لیکن وہ اس کی بالکل پروا نہ کرتے۔ اور یہ ہرگز نہ سوچتے کہ بیٹے کی موجودگی میں یہ لطائف استعمال نہ ہوں۔ ان کے لئے میں کلاس میں صرف شاگرد تھا، بیٹا وہ کلاس کے باہر تھا۔ ایک بار میں نے گھر پر ان سے ان لطائف کے حوالے سے پوچھا تو فرمانے لگے "میری نظر پوری کلاس پر ہوتی ہے۔ میں کسی طالب علم کو غائب دماغ پاؤں تو اسے ٹوک کر شرمندہ نہیں کرتا، بلکہ اسی لمحے لطیفہ داغ دیتا ہوں۔ لطیفہ مجلس یا کلاس کو زندہ رکھنے کے لئے سب سے موزوں چیز ہے، لوگ حاضر دماغ رہتے ہیں" چنانچہ فلم بینی، ناولز اور باقی غیر نصابی مطالعہ، ابولکلام آزاد کی فکر، مفتی نظام الدین شامزئی کی صحبت اور میرے والد مولانا محمد عالم کے تدریسی لطائف کے عناصر جب میرے دل و دماغ کی لنگری میں یکجا ہوئے تو مجھے سمجھ آگیا کہ دین ایک بور جنس ہرگز نہیں۔ اسے خشک داعیوں، زاہد تنگ نظر اور بیسویں صدی کے دوران گاجر مولی کی طرح اگ آنے والے نامہ نہاد مفتیوں نے بنایا ہے۔ چنانچہ مذکورہ عناصر ترکیبی کی مدد سے ہی میں یہ بھی سمجھ گیا کہ دعوت دین کو دلچسپ اور اس قدر لطیف کیسے بنایا جا سکتا ہے کہ سننے یا پڑھنے والے کو خبر بھی نہ ہو پائے کہ اسے بہت ہی غیر محسوس تبدیلی سے گزارا جا رہا ہے اور وہ دھیرے دھیرے تبدیل ہوتا چلا جائے۔ اگر میری درخواست کسی داعی کے لئے کوئی اہمیت رکھتی ہے تو دعوت دین کے باب میں میری گزارش ان سے یہ ہوگی کہ آپ لوگوں کی وضع قطع بدلنے پر محنت کرتے ہیں۔ ان کی وضع قطع نہیں مزاج بدلنے کی محنت کیجئے۔ مزاج دین کا بن گیا تو سب کچھ بدل جائے گا۔ اور مزاج نہ بدلا تو کسی کی ٹوپی یا داڑھی سے دھوکے میں مت رہنا، یہ کسی بھی وقت اتر سکتی ہے۔ دین کا اپنا ایک مزاج ہے اور یقین جانئے وہ مزاج "خشک" ہرگز نہیں۔ لوگ دین پر تب تک نہیں آئیں گے جب تک آپ انہیں دین دلچسپ بنا کر نہ دکھا دیں گے۔ لوگ فلمیں کیوں دیکھتے ہیں ؟ کیونکہ وہ دلچسپ ہیں۔ لوگ ناولز کیوں پڑھتے ہیں ؟ کیونکہ وہ دلچسپ ہیں۔ مولویوں میں ابوالکلام آزاد کو انفرادیت کیوں حاصل ہے ؟ کیونکہ وہ دلچسپ ہیں۔ سو اپنی دعوت کو دلچسپ بنائے ورنہ شیطان کے ڈرواوے تو ملک کی لاکھوں مساجد میں ہر جمعے کو دئے جاتے ہیں، فرق پڑا ہے اور نہ ہی پڑے گا !