آج کچھ دلچسپ باتوں کا بیاں ہو جائے۔ اولین بات یہ کہ معروف شاعر ڈاکٹر تیمور حسن تیمور کا فون آیا کہ کچھ کریں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ کہنے لگا کہ اس کی الیکشن ڈیوٹی لگ گئی ہے میں نے نہایت تعجب سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ کیونکہ تیمور بینائی سے محروم ہے۔ کہنے لگا کہ شاید انہیںنظر نہیں آتا۔ میری ہنسی نکل گئی۔ پوچھنے لگا کہ کیا کروں؟ میں نے مشورہ دیا کہ ان سے کہو کہ میں ڈیوٹی دے دوں گا مگر آپ یہ نہ کہیے گا کہ پولنگ سٹیشن پر انّی پڑ گئی ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ آر او صاحب پرنسپل کی بات بھی نہیں مانے کہ وہ مجھے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر تصدیق کریں گے۔ میں نے اسے بتایا کہ سرکاری محکموں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک شخص کے بارے میں غلط رپورٹ ہو گیا کہ وہ وفات پا چکا ہے۔ وہ شخص خود محکمے کے پاس گیا کہ یہ غلط رپورٹ ہوا ہے۔ محکمے والوں نے کہا کہ بھائی جان! آپ ہمارے کمپیوٹر ریکارڈ میں مر چکے ہیں۔ آپ اپنی کوئی رپورٹ پیش کریں یا سرٹیفکیٹ جس سے آپ کے زندہ ہونے کی تصدیق ہو سکے۔ آخر تیمور کو جاناپڑا اور آر او نے معذرت کی کہ اس کا نام لسٹ میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ غالباً اس الیکشن میں افراتفری زیادہ اس لیے انہوں نے جلدی میں اے جی آفس سے ملازمین کی فہرستیں لے لی ہیں جس سے اندھے اور معذور تو کیا کچھ رفتگاں کی بھی ڈیوٹیاں لگ گئی ہیں۔ ذمہ دار تو ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کچھ برس پہلے جب قربانی کے بکروں پر شہر میں داخل ہونے پر ٹیکس لگا تو ایک جگہ عملے نے بکروں کے ساتھ دو گدھوں پر بھی ٹیکس لگا دیا۔ بیوپاری چیختا ہی رہ گیا مگر عملہ نہیں مانا کہ گدھے بکروں کے ساتھ ہی آئے ہیں۔ ویسے گدھوں سے زیادہ قربانی کون دیتا ہے۔ نہ صبح دیکھتا ہے نہ شام ریڑھی میں جتا رہتا ہے۔ قربانی پر نہ سہی مگر اچھے اچھے ہوٹلوں میں یہ ذبح بھی ہو چکا ہے۔ اور اس کے گوشت کے اثرات لوگوں پر دیکھے بھی گئے ہیں۔ دوسری دلچسپ خبر یہ تھی کہ میرا نے کہا ہے کہ اس کے لیے اعزاز ہو گا کہ اس کا نکاح مفتی عبدالقوی پڑھائیں۔ پہلی مرتبہ مجھے قوی صاحب پر رشک آیا۔ میرا کی خواہش خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ عبدالقوی صاحب صرف نکاح پڑھاتے ہی نہیں، اچھا رشتہ ہو تو خود بھی پڑھ لیتے ہیں۔ قندیل بلوچ نے مفتی صاحب کی شہرت کو زیادہ چار چاند لگائے۔ اس سے پہلے ان کی شہرت ان کے ایک مؤقف کی وجہ سے ہوئی کہ ایک بیوی اور کئی نکاح کیے جا سکتے ہیں۔ یقینا ایک وقت میں چار ہی ہونگے۔ مفتی صاحب کی لمبی لاٹری اس وقت نکلی جب انہیں عمران خان نے اپنا مذہبی مشیر بنا لیا ہے۔ خدا خیر کرے۔ تیسری خبرعامر لیاقت کی ہے کہ انہوں نے بھی کراچی میں پی ٹی آئی کی کمپین میں جان ڈالدی ہے۔ لوگ کہتے رہیں مگر یہ شخص جینئس ہے۔ کچھ نہ کچھ اختراع کرتا رہتا ہے۔ کل میں نے انہیں ایک جگہ دیگ پکاتے ہوئے دیکھا، وہ حلیم کو گھوٹ رہے تھے۔ مجھے الطاف حسین کی حلیم یاد آ گئی جو وہ لندن میں آنے والے ہر مہمان کو کھلاتے تھے۔ رات ہی عامر لیاقت ایک موٹر سائیکل پر ایک موٹر سائیکل فلیٹ لے کر کمپین کو نکلے۔ سیاست میں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی تقریباً سب رنگ قسم کی پارٹی بن چکی ہے۔ طرح طرح کے لوگ۔ ایک ورائٹی ہے۔ میں تو اسے لشکری پارٹی بھی کہہ سکتا ہوں۔ اس لیے کہ یہ اردو زبانیں کی طرح ہے جو لشکری زبان کہلاتی ہے کہ اس میں کئی زبان مکس ہوئیں تو یہ وجود میں آئی۔ اس طرح پی ٹی آئی میں ہر جماعت کا بندہ در آیا ہے۔ تیسری دلچسپ بات ہمیں جناب میاں نعیم نے بتائی۔ وہ تھی مسنگ پرسنز کے حوالے سے۔ ان کے کسی دوست کو غلط فہمی کی بنا پر ایجنسی نے اٹھا لیا جس پر متعلقہ تھانوں میں اس کی رپورٹ وغیرہ لکھوائی گئی۔ تھوڑے ہی دنوں بعد جو بھی ایجنسی تھی اس نے تفتیش کے بعد انہیں کسی جگہ ڈراپ کر دیا۔ کوئی تشدد تک نہیں کیا لیکن رہائی کے بعد ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا کہ جو موصوف پکڑے گئے تھے ان کے 16بچے ہیں ایک بیوی سے 12اور دوسری سے 4بچوں کی تعداد کے باعث سب کی نظروں میں آ گئے اور تحقیق ہونے لگی کہ اتنے بچوں کو پالنے کے لیے ان کی ذریعہ آمدنی کیا ہے۔ یہ زحمت ان کے لیے رحمت اس وقت بنی جب موصوف کی بیگم کی برادری نے انہیں ایک پلاٹ گفٹ کر دیا۔ جہاں تک بچوں کی تعداد کا معاملہ ہے تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ایک شاعر ہیں جن کے ماشاء اللہ کچھ عرصہ قبل 28 بچے تھے۔ دو بیگمات۔ دلچسپ بات وہ یہ بتاتے کہ رشتہ داروں میں انہیں بارات پر بلاتے تو آدھی بارات ان کے پوتے پوتیوں کی ہوتی۔ جس کی تعداد اب 71سے کہیں تجاوز کر چکی ہو گی۔ ان کی بہبود آبادی والوں کے ساتھ اکثر ٹھنی رہتی تھی۔ ایک دفعہ کسی معاملے میں گرفتار ہوئے تو انہوں نے ایک اخبار میں خبر لگوانے کے لیے بھیجی کہ انہیں حق زوجیت ادا کرنے سے روک رکھا ہے اور یہ بہبود آبادی والوں کی ان کے خلاف سازش ہے۔ بہر حال کثیرالاولاد ہونا ہے تو فخر کی بات۔ ہماری اپنی کالونی میں ایک خان صاحب جن کی عمر 98سال ہے۔ جب ان کی آل اولاد باہر نکلتی ہے تو محلے کی ٹریفک رک جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کالم یہیں تمام کر دیتے ہیں مگر ایک تازہ ترین غزل کے شعر آپ کی حسنِ بصارت کی نذر: خواب اپنا قرین کا تھا ہی نہیں وہ ستارہ جبیں کا تھا ہی نہیں بے یقینی کی بات کیا کرتے مسئلہ یہ یقیں کا تھا ہی نہیں آسماں سے مجھے اتارا گیا یعنی میں تو زمیں کا تھا ہی نہیں آنے والا بھی جانے والا تھا یہ مکاں تو مکیں کا تھا ہی نہیں ایک نظر کرم ہوئی مجھ پر ورنہ میں تو کہیں کا تھا ہی نہیں