انتخابی مہم کے دوران عآپ کے کارکنان محلوں و بستیوں میں گھوم گھوم کر یہی عوام کو بتاتے پھر رہے تھے کہ اگر واپس دس ہزار روپے بجلی کا بل دینا ہے تو بے شک بی جے پی کو ووٹ دینا۔عآ پ کا ایک اور بڑا کارنامہ سرکاری اسکولوں کی بہتری تھی۔ کہاں وہ پانچ سال پہلے کے سرکاری اسکول، جہاں ٹاٹ پر بچے پڑھتے تھے اور کئی اسکولوں میں تو ٹاٹ اور بلیک بورڈ تک ناپید تھے۔ اب ہر سرکاری اسکول میں پرائیوٹ اسکولوں کی طرز پر کرسی بنچ ، ڈیجیٹل بورڈ اور کمپیوٹرز فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ گو کہ مڈل اور اپر کلاس ابھی بھی پرائیوٹ اسکولوں کو ترجیح دیتی ہے،مگر پچھلے دو تین سالوں سے جسطرح انفراسٹرکچر کی بہتری کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولوں کے رزلٹ میں بھی بہتری آئی ہے، شاید وہ دن دور نہیں جب مڈل کلاس میں پھر بچوں کو سرکاری اسکولوں میں ایڈمیشن کیلئے بھیجے گا۔ اسی طرح ہر محلہ میں کلینک کھولنا جہاں مفت پرائمری طبی سہولیات میسر ہیں، کی وجہ سے بھی عوام نے راحت کا سانس لیا۔ اس سے اسپتالوں پر کافی بوجھ کم ہوگیا۔ راشن ڈپو پر راشن لینے کیلئے اب آپ کے فون پر ایس ایم ایس آتا ہے کہ کب اور کس وقت راشن لینے کیلئے آنا ہے۔ اس سے راشن کی دکانوں کے باہر قطاروں کا سلسلہ بند ہوگیا۔ آپ فون یا انٹرنیٹ پر اپنا راشن بھی بک کراسکتے ہیں۔ حکومت دہلی کے پاس پولیس نہ ہی زمیں کے حقوق ہیں ۔ یہ حکومت دیگر ریاستی حکومتی کی طرز پر اپنی مرضی کے افسر بھی مقررنہیں کرسکتی۔دہلی حکومت کے پاس محض بجلی ، پانی ، تعلیم اور صحت کے شعبے ہیں اور ان ہی شعبوں میں اس نے انقلاب برپا کیا ۔ بقول تجزیہ کار سیکت دتہ ’’بھارت میں لوگ بھول گئے تھے کہ سیاست کا مقصد گورننس، صحت عامہ، تعلیم اور سرکاری سروسز کی فراہمی کو آسان بنا ناہوتا ہے۔ اس کا مطلب تو اب فرقہ بندی، ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا اور اکثریتی طبقہ میں خوف کا ماحول پیدا کرکے ان سے ووٹ لینا ہی رہ گیا تھا ۔عآپ نے دہلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے بتایا کہ کارکردگی کی بنیاد پر بھی ووٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں جو سہولیات نصیب ہوئی، ان کا دہلی والوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اپنے قیام کے محض ایک سال بعد ہی دالحکومت دہلی کے صوبائی انتخابات میں عوام نے آپ کو مسند اقتدار تک پہنچادیا۔مجھے یاد ہے کہ اس دوران مجھے دہلی کے صوبائی سیکرٹریٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ گیٹ کے باہر حسب توقع لمبی لائن دیکھ کر میں پریس کارڈ دکھا کر لائن کراس کرنے کا سوچ ہی رہاتھا کہ قطار میں مجھے وزیر صحت ستندر جین اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے نظر آئے۔ نوزائیدہ عآپ پارٹی نے سیکریٹریٹ کا حلیہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی کیجریوال کا فرمان تھا کہ کوئی رکن اسمبلی یا وزیر کار پر لال بتی استعمال نہیں کریگا۔ اگر ان کے پاس ذاتی مکان ہو ا تو انہیں سرکاری رہائش گاہ نہیں دی جائے گی۔ محلہ کمیٹی کو فیصلہ سازی کااختیار دینے کے لیے سوراج ایکٹ وضع کیا گیا۔ بجلی کمپنیوں کے حسابات کی جانچ کی گئی، ایف ڈی آئی کو خوردہ بازار میں ممنو ع قر ار دیا گیا، جس سے تاجروں کو راحت ملی۔ یومیہ مفت سات سو لیٹر پینے کا پانی فراہم کیا گیا۔کیجریوال نے پولیس سکیورٹی لینے سے بھی انکار کردیا۔اس پر مرکزی ارباب اقتدار نے ڈارمہ رچایا کہ انڈین مجاہدین نامی تنظیم جسے مسلم اور سیکولر حلقے انٹلیجنس ایجنسیوں کی تخلیق قرار دیتے ہیں،کیجریوال کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس کا خودِکیجریوال نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ کرپٹ نظام کے حامل اسے 'انارکی‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ کئی نیوز چینلز نے تو دہلی کے عوام کو خوب کوسا کہ ان کو قومی ایشوز اور قومی سلامتی اور پاکستان سے کوئی مطلب نہیں ہے، اور وہ بس مفت خوری کے عادی ہیں۔ ایک نیوز اینکر نے تو یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ کل اگر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی بھارت کے ووٹروں کو فری بیزیعنی مفت سروسزدینے کا وعدہ کرتی ہے، تو مفت خور ووٹر ان کو بھی ووٹ دیں گے۔آپ نے دہلی کا اقتدار سنبھالنے کے بعد جس سادگی اور پاک و صاف سیاست کا مظاہرہ کیا اور عوام سے کئے گئے کئی وعدوں کو بڑی حد تک پورا کیا، اس نے پورے ملک کے عام آدمی کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ متوسط طبقہ کو بھی کافی متاثر تو کیا ہے مگر قومی سیاست میں ابھی آپ کی منزل کٹھن اور بہت دور ہے۔ آپ کی کامیابی دراصل جنوبی ایشیا میں سیاسی ، سماجی اور اقتصادی بیداری کی ایک چھوٹی سی علامت ہے۔ ان ممالک میں آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخا بی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں امرا (Oligarchy)کا جو طبقہ معرض وجود میں آیاہے، اس نے ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاہے۔ جس کا پروردہ موجودہ حکمران طبقہ ہے۔ قومی سطح پر یہ طبقہ آپ کیلئے سخت چیلنج پیش کریگا، جس سے پٹنا اس کے بس میں نہیں ہوگا۔آپ کی کامیابی اور کارکردگی میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کیلئے بھی ایک بہت بڑا سبق ہے ۔ ان کو ان تمام عوامل کا مطالعہ کرکے اپنی اسٹریجی اپنانی چاہئے، کیونکہ کم و بیش وہ بھی ان ہی وعدوں کے سہارے اقتدار میں آئے، جن کو لیکر اروند کیجریوال سیاست میں کود پڑے تھے۔ آخر وہ کون سے عوامل ہیں ، جن کی وجہ سے ہزارہا مشکلات اور مودی حکومت کی اڑچنوں کے باوجود کیجریوال کی کارکردگی پر سب عش عش کر رہے ہیں اور عمران خان بسیار کوشش کے باوجود کسی بھی شعبہ میں پیش رفت دکھا نہیں پا رہے ہیں۔عمران خان کو اسکا جواب ڈھونڈکر جلدہی عملی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔