میر تقی میر نے کہا تھا: دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے میر تقی میر ویسے تو اردو کی پوری دنیا کے شاعر ہیں،مگران کا مسکن دہلی تھا۔وہاں ان کے دل کو سوز بھی حاصل تھا اور سکون بھی میسر ۔دہلی تاریخ کے اوراق میں اب تک بکھری ہوئی ہے۔ اس میںکون آیا،کون واپس گیا اورکون کون وہاں بس گیا؟اس سوال کا مکمل جواب تو اس تاریخ کے پاس بھی نہیں ہے، جو اب تک رقم ہو سکی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہلی کی تاریخ صرف بادشاہوں اور محلاتی سازشوں تک محدود نہیں ہے۔ دہلی تو میر تقی میر اور مرزا غالب کی شاعری کا وہ تسلسل ہے جو اب تک کسی نہ کسی روپ میں اپنا درشن کرواتا ہے۔ خوشونت سنگھ مجھے بہت عزیز ہیں۔ان کی تحریروں کو میں نے محبت سے پڑھا ہے مگر جب میں نے ان کا ناول ’’دلی‘‘ پڑھا تو مجھے افسوس ہوا۔ دہلی ایک خوبصورت ناول ہونے کے باوجود ادھورا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا سبب یہ ہو کہ دلی کے لیے ایک ناول کافی نہیں۔ ایک ناول میں کوئی ناول نگار پورے دلی کو نہیں سما سکتا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ دلی دو دھاری تلوار کے مانند ہے۔ دلی تضادات کا مجموعہ ہے۔ دلی میں ایک طرح کی سپردگی بھی ہے اور بغاوت بھی ہے۔ دلی میں اس وقت جس بغاوت کی آگ جل رہی ہے وہ بغاوت کسانوں کی ہے۔ وہ کسان جن کی اکثریت ان سکھوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ دو ماہ سے مودی حکومت کے خلاف پرامن مزاحمت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ایک ہم ہیںکہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے مرزا غالب نے یہ شعر تو کسی اور ہی کیفیت میں لکھا تھا مگر حقیقت یہ شعر ان سکھوں پر پورا آتا ہے جو اب تک مزاحمت میں مصروف ہیں۔ وہ بھارت کی آبادی کا معمولی حصہ ہیں مگر ان کا کردار غیر معمولی ہے۔ دنیا میں اور بھی اقوام ہیں۔ دنیا کی قومیں تبدیلی کے مراحل سے گذرتی رہی ہیں مگر سکھ قوم نے اب تک اپنے جذبے اور اپنی محنت کو نہیں چھوڑا۔ یہ دنیا بھلے اکیسویں صدی میں سفر کر رہی ہے مگر سکھ لوگوں کے سروں پر اب تک وہی پگڑی ہے جو ان کے سروں پر گرونانک نے رکھی تھی۔ سکھ قوم نے اپنے گرو کی ہر دور میں لاج رکھی ہے۔ اس وقت بھی وہ کسانوں کے حقوق کے لیے جس طرح مودی حکومت سے نبرد آزما ہیں ان کا وہ جذبہ کشمیریوں کے بعد بھارت میں بغاوت کی سب سے عظیم مثال ہے۔ سکھوں پر سوچتے ہوئے مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سکھوں نے اپنے ہرے بھرے کھیتوں کے ساتھ اپنے گرد وارے اور اپنے گرو کی سمادھی تک چھوڑی اور وہ سرحد کے اس پار چلے گئے مگر یہ سچ ہے کہ اپنی غیرت اور اپنی بغاوت ساتھ لے گئے۔ پنجاب کی اس قوم میں جو جذبہ ہے برصغیر میں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ وہ سکھ قوم کی غیرت ہے جس نے بھارت میں ہندو اکثریت کی غلامی سے صاف انکار کیا ہے اور وہ اپنے انکار پر عملی طور پر قائم ہیں۔مودی حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ مودی حکومت نے تشدد کے حربے بھی استعمال کیے مگر بھارتی پنجاب سے چلنے والے قافلے ہر رکاوٹ عبور کرتے ہوئے بالآخر نہ صرف دلی کے دروازے پر دستک دینے میں کامیاب ہوئے بلکہ گذشتہ روز انہوںنے دلی میں داخل ہوکر دکھایا اور وہ نہ صرف دلی میں داخل ہوئے مگر بھارتی حکومت نے جس لال قلعے کو اپنی ریاست کی طاقت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے اس لال قلعے پر لگے ہوئے ترنگے کو اتار کر سکھ احتجاجیوں نے اپنا احتجاجی پرچم لہرا کر دکھایا۔ مودی حکومت کسانوں کے سامنے کب گھٹنے ٹیکتی ہے؟ یہ سوال الگ ہے۔ اس وقت اہم بات یہ ہے کہ دلی کے لال قلعے پر سکھ کسانوں نے اپنی جدوجہد کا پرچم لہرا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ان کی پرامن اور ثابت قدم جدوجہد کامیاب ہوئی ہے۔ سکھ کسان اخلاقی طور پر فاتح ہو چکے ہیں۔ وہ سکھ کسان جن کے ساتھ پوری دنیا کے انسان دوست لوگوں کی بھرپور ہمدردیاں ہیں۔ پوری دنیا کے باشعور لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سکھ کسان حق اور انصاف پر ہیں۔ مودی حکومت کسان مخالف قوانین بنا کر سکھ کسانوں کو نچوڑنا چاہتی ہے ۔مودی حکومت کا خیال تھا کہ کسان دو چار دن احتجاج کریں گے اور بعد میں تھک ہار کر گھروں کو لوٹ جائیں گے مگر انہوں نے جس عزم کا اعلان کیا ہے وہ اپنے اس عزم پر عملی طور پر قائم دائم ہیں۔ پاکستان سے سکھوں کی الفت اور پاکستان کی سکھوں سے محبت ہندو راج کو ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے۔ بھارت کے حکمران شروع سے سمجھتے ہیں کہ سکھ پاکستان کی سرزمین کے نہ صرف اپنے مذہب بلکہ اپنی زباں اور ثقافت کی وجہ سے بھی بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔ پاکستان کے پنجاب اور بھارتی پنجاب میں اگرچہ سخت سرحد ہے مگر ان دونوں پنجابوں میں ایک زباں اور ایک ثقافت اس پل کا کردارادا کرتی رہی ہے جس کو عبور کرکے تاریخ کی محبت آپس میں الجھنیں ختم کرکے سلجھاؤ پیدا کرتی رہی ہے۔ اس محبت کے خلاف بھارتی حکمرانوں نے سازشوں کے جال بنے ہیں ۔ اس وقت بھی بھارتی میڈیا سکھوں کے دل میں پاکستان کے لیے نفرت بھرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے مگر سکھ قوم کے دل میں اپنی تاریخی ورثے کے لیے اس قدر محبت ہے کہ کوئی سازش اس کو ختم نہیں کر پائی ہے۔ وہ محبت لازوال رشتے میںڈھلتی رہی ہے۔ دلی کے لال قلعے پر جس لمحے سکھ کسانوں نے اپنے فتح کا پرچم لہرایا اس وقت دلی کے احتجاجی کسانوں کے لبوں پر جو گیت تھے وہ گیت پاکستانی موسیقاروں اور گلوکاروں کے تھے۔ گیت کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے۔ وہ رشتہ اس وقت سکھ قوم کے دل میں سرسبز ہے۔ سرسبز ہے ؛ ان کے کھیتوں کے مانند اور ان کے اس جذبے کی طرح جو دو ماہ گذرنے کے باوجود اب تک نہیں تھکا۔ مودی حکومت کچھ بھی کہے مگر سکھ کسان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر بھارت میں کسانوں کی اکثریت ہندو ہوتی تو مودی حکومت ان کے خلاف قوانین نہیں بناتی۔ سکھ جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کو اپنے بنیادی حقوق آسانی سے نہیں ملیں گے۔ اس لیے انہوں نے جدوجہد کا راستہ اپنایا ہے۔ اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ٹھوکر مار کر وہ آگے بڑھے ہیں۔ انہوں نے نفسیاتی طور پر مودی حکومت کو مات کردیا ہے۔ مودی حکومت اپنی شکست کا اعتراف کب کرتی ہے؟ دنیا اس پل کا درشن کرنے کے لیے منتظر ہے۔