پروفیسر شوکت مغل کا شمار ملک کے نامور قلمکاروں میں ہوتا ہے، سرائیکی اردو اور انگریزی زبانوں میں ان کی اب تک 60سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں، بہت سی کتابوں کو اعزازات اور ایوارڈ بھی مل چکے ہیں ، موصوف علیل ہیں ، اہل وطن سے دعائے صحت کی اپیل کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سرائیکی لسانیات پر ان کے کام کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، سرائیکی ’’ آکھانْ ‘‘ کی تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں ، ہر جلد میں پانچ ہزار سرائیکی ضرب الامثال شامل ہیں ، چوتھی جلد پر کام جاری ہے، یہ پاکستان کی کسی بھی دوسری زبان سے ضرب الامثال کا بہت بڑا ذخیرہ ہے ، اس کے علاوہ اردو سرائیکی لغت، سرائیکی محاورے ، سرائیکی اردو مترادفات ، اردو میں سرائیکی زبان کے انمٹ نقوش ، قدیم اردو کی لغت اور سرائیکی زبان ، سرائیکی آوازاں دی کہانی، کنایہ تے قرینہ ، ملتانی کہانیاں ، سرائیکی مصادر ، سرائیکی نامہ ، ملتان دیاں واراں ( صدارتی ایوارڈ یافتہ ) اور اس طرح کی دوسری اہم کتابیںمنظر عام پر آ چکی ہیں ، جامع سرائیکی لغت ( سات جلدیں ) پر کام جاری ہے ، اس کے علاوہ ایک اہم کتاب ’’اصطلاحات پیشہ واران ‘‘ ایک ہزار صفحے کی یہ کتاب اتنی بڑی ہے جسے پاکستانی ہی نہیں بر صغیر جنوبی ایشیا کی تمام زبانوں میں ممتاز اور نمایاں حیثیت حاصل رہے گی لیکن آج میرا یہ موضوع نہیں ہے، میں پروفیسر شوکت مغل کے ایک سفرنامے کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں اور اس سفر نامے کا نام ’’ دلی ڈھائی کوہ ‘‘ ہے ۔ کسی بھی زبان میں سفر نامے کی مسلمہ حیثیت سے انکار ممکن نہیں لیکن افسوس ہے کہ سرائیکی میں سفرنامے بہت لکھے گئے، ممتاز احمد ڈاہر ، مزار خان، ابن کلیم محض چند ایک نام ہیں جنہوں نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی ، ایک عرصہ بعد سرائیکی وسیب کے معروف لکھاری پروفیسر شوکت مغل نے اہم موضوع پر قلم اٹھایا اور ہندوستان کا سفر نامہ لکھ کر گھر بیٹھے سرائیکی قارئین کو ہندوستان کی سیر کرا دی اور انہیں اپنی جنم بھومی سے بچھڑنے والوں سے ملوادیا ۔ سرائیکی زبان میں ایک کہاوت زبان زد عام ہے کہ ’’ عاشقیں بدھیاں کمراں ، تھئی دلی ڈھائی کوہ اے ‘‘ ، اسی کہاوت کو خواجہ فرید ؒ نے بھی اپنے کلام میں استعمال کیا ہے، یہ کہاوت آس ، امید اور ہمت کا بہت بڑا استعارہ ہے، یہ انسان کو با ہمت اور حوصلہ مند بنانے کا درس ہے ، انسان کو با ہمت بنانے کے حوالے سے اس سے بڑی ضرب المثل میں نے کسی بھی زبان میں نہیں دیکھی،میں سمجھتا ہوں کہ ’’ دلی ڈھائی کوہ ‘‘ پروفیسر شوکت مغل نے اپنے سفر نامے کو پسندیدہ ، خوبصورت ، سہل اور با معنی نام دیکر اس کی اہمت کو دو چند کر دیا ہے ۔ تقسیم کے بعد بہت بڑی آبادی کو ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے ہندوستان جانا پڑا، دوسرے علاقوں کی طرح سرائیکی وسیب سے سرائیکی بولنے والے لاکھوں لوگ انڈیا گئے، انڈیا جانے کے بعد ان کو پاکستان آنے کے ویزے نہ مل سکے، پاکستان کے سرائیکی انڈیا کے اپنے ہم زبانوں سے رابطے نہ رکھ سکے، اس حوالے سے دونوں ملکوں کے سرائیکی بولنے والوں کو ایک دوسرے کو دیکھنے اور ایک دوسرے کے بارے جاننے کی بہت تمنا تھی، سرائیکی وسیب کے کروڑوں انسانوں کی تمنا پروفیسر شوکت مغل کی کتاب ’’ دلی ڈھائی کوہ ‘‘ کے حوالے سے کافی حد تک پوری ہوئی ہے اور سرائیکی وسیب کے قارئین کو جانکار ی اور علم میں اضافہ ہوا ہے ۔ ’’ دلی ڈھائی کوہ ‘‘ مختصر مگر جامع کتاب ہے، کتاب کا آغازہی اس چٹھی سے ہوتا ہے جو میزبان کی طرف سے ’’ بلاوے ‘‘ کے طور پر لکھی گئی، چٹھی ملنے کے بعد مشاورت ، تیاری ، پاسپورٹ، ویزا، لاہور میں قیام ، دوستی بس کے ٹکٹ، ٹکٹ پر درج ہدایات، دوستی بس کا کرایہ، دوستی بس سے روانگی ، راستے میں قیام، دہلی کی سرائیکیوں کی طرف سے آؤ بھگت، دلی میں رہائش ، طعام ، تقریبات میں شرکت، آگرہ ، اجمیر شریف کی زیارت ، غرض کوئی ایسی بات نہیں جسکا کتاب میں ذکر نہ ہو، کتاب کا ایک ایک صفحہ اور ایک ایک سطر قاری کیلئے اتنی دلچسپی کا موجب ہے کہ کوئی شخص اسے دیکھنے کیلئے اٹھا لے تو وہ اسے پڑھے بغیر نہیں رہتا، انہی خصوصیات کی بناء پر ’’ دلی ڈھائی کوہ ‘‘ کو بہترین کتاب کا شرف حاصل ہے ۔ تقسیم سے پہلے جو لوگ یہاں رہتے تھے ، ان کی زبان بھی تھی اور ثقافت بھی، وہ اپنی زبان میں ادب بھی تخلیق کرتے اور شاعری کی بہترین اصناف سخن بھی ان کے ہاں موجود تھیں، اپنے ادب اور تخلیق کے ذریعے وہ جو کچھ کہتے وہ بھی کسی فکر اور کسی سوچ کے تابع ہوتا تھا، مگر تقسیم کے ’’ غدر ‘‘ میں جہاں بہت کچھ ضائع ہوا وہاں سرائیکی ادب بھی ضائع ہوا، انڈیا جانیوالی بوڑھوں کی ایک کھیپ جو کہ سٹھ ، ستر یا اسی سال کے بوڑھوںپر مشتمل تھی یا تو سفری صعوبتوں کی نذرہو گئے یا پھر عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے چند ہی سالوں میں ایک ایک کر کے مر گئے، باقی جو پیچھے بچے انہیں روزگار کے غم نے مار دیا ، اسی لیے وہ اپنے ادبی سرمائے کو محفوظ نہ رکھ سکے اور بہت کچھ ضائع ہو گیا ۔ ایک آدھ فیصد جو کہیں بوسیدہ کاغذوں کے ٹکڑوں میں بچ سکا تھا اسے آج کی نئی ہندوستانی سرائیکی نسل پڑھنے سے قاصر ہے کہ وہاں اردو رسم الخط ’’ شاہ مکھی‘‘ متروک ہو چکا ہے اور اب ہندوستان میں سب کچھ دیوناگری رسم الخط میں ہے، ان سخت مشکل حالات کے باوجود پروفیسر شوکت مغل نے اپنے سفر نامے میں سرائیکی بولنے والے ہندووں کے سرائیکی نمونہ کلام اس کتاب میں شامل کئے جو کہ سرائیکی زبان اور ادب کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ، ان کی نظم ’’ ملتانی مندری ‘‘ نظم ’’ ڈرانْیاں دا جھیڑا ‘‘ ، نظم ’’ سس نونہہ دا جھیڑا ‘‘ ، نظم سب کجھ کر ڈکھیلندے پیسہ ‘‘ ، نظم ’’ غافل سیٹھ تے نمک حرام نوکر ‘‘ اور سب سے اہم یہ کہ نظم ’’ ڈینْ غلامی‘‘ بہت اہم ہے، نظم ’’ ڈینْ غلامی ‘‘ انگریز سامراج کے خلاف ایک شاہکار مزاحمتی نظم ہے ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بدیسی حکمرانوں کے بارے میں سرائیکی وسیب میں رہنے والے ہندو ، مسلم ایک طرح سے سوچتے تھے، کتاب میں ان نظموں کی موجودگی نے اسے بہترین حوالے کی کتاب بنا دیا ہے اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں اور ریسرچ سکالروں کیلئے تحقیق کا ایک نیا باب کھول دیا ہے ۔