’’گزشتہ سے پیوستہ ‘‘دلی کی چوتھی مسجد’’نیلی مسجد حوض خاص‘‘ کہلاتی ہے۔ مسجد کی دائیں طرف ایک بہت بڑا پیپل کا درخت ہے ، جس پرہندو مورتیاں رکھ دیتے ہیں اور فساد برپاکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسجدمیں پانی کے انتظام کی اجازت نہیں ہے۔دلی کی پانچویں مسجد’’مخدوم شاہ مسجد مئے فیر حوض خاص‘‘ایک بڑے پارک کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ مسجدبے حرمتی کے باعث کافی اضطراری حالت میں ہے، یہاںجب نماز پڑھنے کی بات کی جاتی ، تو داروغان کاکہناہوتا کہ جی جناب یہ ہمارے پیٹ کا سوال ہے ، ہم قطعی نماز پڑھنے نہیں دیں گے۔، لیکن مسجد کے کنارے واقع ایک درخت کے پاس بت نصب کردیا گیا ہے اور جس کو پوجنے کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس مسجد کو رہائش گاہ اور منبر کو حمام کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ مسجد کے درودیوارپرجگہ جگہ لکھے اللہ اور قرآنی آیتوں مٹانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ ،عمارت کافی خستہ ہوچکی ہے ، فرش ٹوٹا پڑا ہے، پلاستر جھڑ رہے ہیں۔ہندوغنڈے سر شام مسجد کے صحن میں کرکٹ کھیلتے ہیں۔ دلی کی پانچویں مسجد’’مسجد موٹھ‘‘ہے ۔ یہ لب سڑک واقع ہے اور بہت بڑی مسجد ہے۔ اس کے آس پاس پاکستانی غیر مسلم شرنارتھی’’پاکستان سے گئے ہوئے ہندو‘‘ آباد ہیں۔ مسجدمیںپہلے نماز اداہوتی تھی، لیکن مسلم کش فساد کے نتیجے میں اس پر شرپسندوں نے تالا لگا دیا۔ عدالت کے فیصلے کے باوجود نماز پر پابندی ہے۔ جب بھی مسلمان نماز پڑھنے کے لئے اس مسجد کی طرف آتے ہیں ، تو مقامی لوگ پتھرائو شروع کردیتے ہیں اور نماز پڑھنے نہیں دیتے، جس کے نتیجے میں مسجدمکمل طورپر بند ہے ۔صرف سیاحت کے لئے ہرروز صبح گیارہ بجے سے پانچ بجے شام تک یہ مسجد کھلی رہتی ہے۔ اس دوران سیاحوں اور مقامی ہندواس مسجد کی بے حرمتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور تعینات گارڈ کچھ بھی نہیں کہتا ۔دلی کی چھٹی مسجد’’بیگم پوری مسجد‘‘کہلاتی ہے۔یہ دلی کے بیگم پور گائوں سے ملحق مالویہ نگر میں واقع ہے،مسجد ہندوجواریوں کی آماج گاہ بن چکی ہے اورمسجدمیںجگہ جگہ تاش کے پتے بکھریے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ مسجد کی حفاظت اور بے حرمتی سے بچانے کے لیے کوئی معقول و غیر معقول انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ حصوں کی دیواریں اور چھت انتہائی مخدوش حالت میں ہیں۔دلی کی ساتویں مسجد’’مسجد کالو سرائے‘‘ہے۔ یہ مسجد پوری طرح سے ہندئووں کی رہائش گاہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے مسجد پر تقریبا نصف درجن سے زائد لوگوں کے گھر آباد ہو چکے ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ یہاں کئی برسوں سے رہ رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مسجد ہی نہیں ہے۔ اس قسم کی تعمیرات نہیں تھی لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کے سبب ایسا ہوا ہے آثار قدیمہ ہونے کے باوجود مسجد کی حالت بدل دی گئی ہے ۔مسجد کے دوسرے حصے کو لکڑیاں اور کوڑا کرکٹ رکھنے کا گودام بنالیا ہے۔دلی کی آٹھویںمسجد’’رضیہ سلطانہ مسجد، مہرولی‘‘کہلاتی ہے۔اس مسجد کے احاطے میں رائوجاں کی باولی موجود ہے ۔ منبرو محراب صحیح سالم حالت میں ہیں۔ دیواروں پر عجیب و غریب فن کاری کے نقشے اور قرآنی آیات تحریر ہیں۔ ہندوغنڈے مسجد کے اندرونی حصے میں تاش کھیل رہے ہیںجبکہ جواری، شرابی سوئے پڑے ہیں۔تقریبا پندرہ بیس سال پہلے اس میں آگ لگائی گئی ، جس کے بنا پر کالی کالی ہوگئی ہے۔مسجدکے درودیوارپرکندہ عربی عبارتوں کو رگڑ کر مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ دلی کی نویں مسجد’’جمالی کمالی مسجد مہرولی‘‘ کہلاتی ہے۔یہ مسجد بھی ساجدین کی راہ تک رہی ہے۔ اپنی آرائش و زیبائش ،شان و شوکت، لطافت و نفاست کے لحاظ سے فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہے ۔مسجد میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی کہ جس سے مسجد کا تقدس پامال ہو رہا ہو۔مسجد میں صفائی ستھرائی کے نظام کودیکھ کرجب آپ مسجد میں نماز ادا کرناچاہیں تو محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے تعینات ہندوچوکیدار نے نماز ادا کرنے سے روک دیتا۔کیوںکہ سرکار کی طرف سے آڈر ملا ہے کہ یہاں نماز ادا کرنا ممنوع ہے ۔ یہ یقینامحکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے مساجداور مسلمانوں پر ایک ظلم اور زیادتی ہے اور افسوس کی بات ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی زیادتی کی بنا پر نہ صرف جمالی کمالی مسجد بلکہ اس جیسی دیگر تاریخی اور قدیمی مساجد غیر آباد ہیں اور ساجدین کی منتظرہیں۔ اس مسجد کے ارد گرد بہت بڑی جگہ ہے ، جو تقریبا ویران اور خراب ہے ۔ پچھلے سال کچھ غیور مسلمانوں نے قانونی کارروائی کے بغیر کھول کر نماز پڑھنے کی کوشش کی، لیکن دلی سرکار نے اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر اسے قفل بند کردیا ۔ ابھی اس میں نماز اذان کچھ بھی نہیں ہوتی۔ یہ مسجد مسلمانوں کے غیرت ایمانی کو للکار رہی ہے اور پکار رہی ہے کہ ہے کوئی ! جو مجھے آباد کرے ۔ دلی کی دسویںمسجد’’ مسجد مہرولی‘‘مسجد جمالی کمالی سے نصف کلومیٹر جنوب میں یہ مسجد واقعہ ہے۔ مسجد کا ایک مینار محکمہ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب اپنا وجود کھو چکا ہے ۔ اس مسجد میں بھی نماز کی ادائیگی پرپابندی عائدہے ۔نمازیوں سے مسجد آباد نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ گندی اور مخدوش ہوتی جارہی ہے۔ صحن کے تہہ خانہ میں کوڑا کباڑ اور شراب کی بوتلیں ملیں۔ سیاح بے روک ٹوک جوتے چپل پہن کر ہی گھومتے پھرتے ہیں۔ راجیش کمار نامی گارڈ تعینات ہے ، لیکن یہ کسی کو بھی مسجد کی بے حرمتی سے منع نہیں کرتا، لیکن نماز سے ضرور روکتا ہے۔دلی کی گیارویں مسجد’’افسر نامہ گنبد والی مسجد‘‘یہ مسجدہمایوں کے مقبرہ بستی حضرت نظام الدین بستی کی یادگار ہے ۔مسجد کی عمارت کافی بوسیدہ ہوچکی ہے۔ مسجد کے پارک کی چہاردیواری کے اندر ناجائز جوڑے عشق فرمائی میں مصروف نظر آئے۔یہاں صرف جمعہ نمازکی ادائیگی کی اجازت ہے باقی پنجہ گانہ نمازکی نہیں۔ دلی کی بارہویں مسجدہمایوں کے مقبرہ سے متصل مسجد عیسی خاںمسجدبھی ہے ۔ مسجد کی حالت بے حد خستہ ہے ۔ مسجد کے باہر ایک کنواں ہے جس میں گندگی بھری پڑی ہے۔مسجدسے متصل عیسی خان کی قبر ہے عیسی خان شیر شاہ سوری کے کورٹ کا آدمی تھا، جن کے لیے زندگی میں ہی یہ مقبرہ اور مسجد تعمیر کرادی گئی تھی۔ یہ مسجدبھی غیر آباد ہے اوریہاں بھی نماز پر پابندی ہے۔مسجد انتہائی خوب صورت ہے، تاہم زمانے کے خرد برد کی شکار ہورہی ہے۔ (جاری)