اٹھارہویں ترمیم مرکزیت کے خاتمے کے لیے تھی۔ مرکزیت ، تب تک ، ایک مرض کے طور پر سامنے آچکی تھی جس کا خاتمہ قومی اتفاق اور یکجہتی کے لیے از حد ضروری قرار دیا جا چکا تھا۔ مشرف دور جس کو مقامی حکومتوں کے سنہرے دور کے طور پر جانا جاتا ہے وہیں پر ' صوبے مضبوط ، مرکز مضبوط کا نعرہ بھی اسی سے وابستہ ہے۔ اٹھارویں ترمیم کی صورت میں جب اس تصور کو صوبائی خود مختاری کی شکل ملی تو یہ اصول بھی طے پایا تھا کہ اگر نئے صوبے نہیں بنانے تو سیاسی اور مالی طور پر خود مختار مقامی حکومتیں اس امر کی ضمانت ہوں گی کہ اختیارات اور وسائل صوبائی دارلحکومتوں میں ہی نہ اٹک جائیں ۔ اٹھارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی نے آئین کے شق وار جائزے میں ایک اور اصول کی پاسداری بھی کی تھی : آئین کی مذہبی خصوصیت کو بھی نہیں چھیڑا گیا تھا۔ ملک کی لبر ل اور ترقی پسند پارٹیوں نے پارلیمان کی بالا دستی ، چار قومیتی وفاق اور صوبائی خود مختاری پر ہی صبر کر لیا تھا۔ یوں میثاق جمہوریت سے چلی سیاسی بھائی چارے کی روایت اٹھارویں ترمیم پر ختم ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ بالترتیت سندھ اور پنجاب میں مستحکم ہی نہیں ہوئیں بلکہ باری باری وفاق پر بھی حکومت کی۔ دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو حصہ بقدر جسہ ملا تو احتساب کا معاملہ ثانوی حیثیت اختیار کرگیا۔ ایک طرف کرپشن نے ملکی معیشت کو تباہی تک پہنچادیا تو دوسری طرف وسائل کی منصفانہ تقسیم کے راستے یعنی مقامی حکومتوں کو صوبوں نے دیوار سے لگادیا۔ قصہ مختصر عدم مرکزیت بس اتنی ہی ختم ہوئی ہے کہ اختیارات و وسائل اسلام آباد سے لاہور، پشاور ، کوئٹہ اور کراچی منتقل ہوگئے ہیں۔ پورا پاکستان ان شہروں پر دیدے گاڑے بیٹھا ہے کہ کب اٹھارویں ترمیم کے ثمرات ملک کے گلی کوچوں تک پہنچیں گے۔ تحریک انصاف سے امیدیں تھیں لیکن بارآور نہیں ہوئیں۔ یہ پارٹی بھی اپنے پیشرووں کے راستے پر گامزن ہو چکی ہے حالانکہ عالمی ترقیاتی اہداف کی تکمیل کا، جو سب کے سب قومی اہداف گردانے جا چکے ہیں ان کے حصول کا واحد راستہ سیاسی اور مالی طور پر خود مختار حکومتیں ہیں جنہیں آئینی تحفظ حاصل ہے۔ جس طرح اس کے پیشرو حکومتوں نے عالمی ترقیاتی اہداف (بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق) پر بری طرح ناکام ہوئی تھی، مقامی حکومتوں کو ناکارہ اور اپاہج رکھ کر، موجودہ حکومت بھی اس منزل کو کھو چکی ہے۔ نہ صرف اس کی اپنی ساکھ داو پر لگی ہوئی ہے بلکہ جمہوریت کی بھی۔ یوں کسی بھی سیاسی پارٹی کو مقامی حکومتوں کے نظام میں دلچسپی نہیں۔ مسلسل روڑے اٹکائے جارہے ہیں، مسلسل آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ نہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہے اور نہ عدالتں لوگوں کی بنیادی حق کا اطلاق کروانے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ تیسری سطح کے نظام حکومت کے نفاذ میں ناکامی ان تمام امراض کو سامنے لائی ہے جن سے قومی یکجہتی خطرے میں پڑتی ہے اور سیاست نفاق کا شکار ہوتی ہے۔ صوبائی فنانس کمیشن کے نہ ہونے سے وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں ہو پاتی۔لوگوں کو بنیادی سہولیات نہیں ملتیں تو کہاں کی سیاست اور کونسی جمہوریت۔ سیاسی پارٹیوں کے پاس نظریاتی کارکن نہیں مفاد پرست ہوتے ہیں۔ نہ اقدار نہ روایات۔ کارکردگی نہ ہوتو فریب ، دھونس اور دھاندلی سے ووٹ لیے جاتے ہیں۔ صوبائیت، فرقہ پرستی اور نسل پرستی جیسی وبائیں جنم لیتی ہیں۔ غربت اور بیماری کے تناظر میں جرائم اور تشدد کے رحجانات بڑھتے ہیں تو امن وامان( پائدار ترقی کی بنیاد ) پر ضرب لگتی ہے۔ نئے صوبوں کے مطالبے، جس کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی تھی، کے پیچھے بھی خود مختار مقامی حکومتوں کا عدم قیام ہے اگرچہ نئے وفاقی یونٹ مقامی حکومتوں کا نعم البدل نہیں ہیں۔ مقامی حکومتوں کے نہ ہونے کا م مطلب یہ ہے کہ ہم کنویں کے مینڈک بن گئے ہیں۔ ہماری ساری توانائیاں تضادات پیدا کرنے اور پھر انہیں ختم کرنے پر صرف ہو رہی ہیں۔ ہم طالبان اور فراری پیدا کرتے ہیں اور پھر ان کے خلاف فوجی کاروائیاں کرتے ہیں۔ وسائل ہونے کی باجود ہم بھوک اور بیماری کے چنگل میں پھنس گئے ہیں کیونکہ ہم اپنی توانائیاں پیداواری استعداد بڑھانے میں نہیں بلکہ اپنے تعصبات کی نذر کر رہے ہیں۔ ہماری نظر آفاق پر نہیں بلکہ ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کے پیچھے سرگرداں رہتے ہیں۔ ہم قوم نہیں بلکہ بیکراں ہجوم ہیں۔ ایک منظم معاشرہ نہیں بلکہ جنگل ہیں۔ یقیناً ہم نے اس صورتحال سے نکلنا ہے ، ہجوم سے قوم بننا ہے۔متحد ہونے کا راستہ آئین فراہم کرتا ہے ، آزاد اور خود مختار مقامی حکومتوں کی صورت میں۔ نئے قومی بیانیے کی تازہ تازہ ہو ا چلی ہے لیکن اگر اسے مضبوط دلائل پر استوار کرنا ہے تو راستہ مقامی حکومتوں، سے ہوکر گزرتا ہے۔ سیاسی استحکام ہو یا قومی یکجہتی، بنیادی حقوق کی مقامی سطح تک بروقت، سہل اور یقینی فراہمی کے بغیر بات نہیں بننے والی۔ مقامی حکومتوں کوخود کار طریقے سے فنڈ ٹرانسفر ہوں اور انہیں اپنی ضروریات کے مطابق خرچ کرنے کی آزادی ہو تب ہی ترقی کی دوڑ میں تمام خطوں اور علاقوں کی شرکت یقینی بنتی ہے۔ چند شہروں میں دولت مرتکز کرکے پائیدار ترقی اور امن کے خواب نہیں دیکھے جاسکتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اقتدار اور وسائل کو نچلی سطح تک منتقلی میں تیزی سے زوال پزیر میڈیا کو مقصدیت اور نئی زندگی ملے گی۔ ایف ایم ریڈیوز اور مقامی اخبارات کا مستقبل مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہے۔ بنیادی سہولیات زندگی اور حقوق سے متعلق اطلاعات کی فراہمی میں ان کا کردار نہایت ہی اہم ہے۔ مختصراً یہ کہ اندرونی تضادات کم ہونگے اور ترقی کا سفر شروع ہوگا تو ہی عالمی سیاست کی پیچیدیگیوں کی طرف فیصلہ سازوں کا دھیان جائیگا اور , یوں، ملک کو عالمی برادری میں اسکا جائز مقام دلانے کی راہ بھی کھلے گی۔