پاکستان کے سیکولر طبقے نے جو چند تاریخی جھوٹ گھڑ رکھے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انگریزوں کے برصغیر پاک و ہند میں آنے سے قبل یہاں جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، تعلیم تھی اور نہ ہی سائنسی ترقی۔ جبکہ اسکے برعکس یورپ میں یونیورسٹیاں بن رہی تھیں اور ہندوستان میں شالامار باغ اور تاج محل۔ لبرل سیکولر بیانیے کے اس بے بنیاد تاریخی جھوٹ پر پاکستان کے کئی دانشوروں اور کالم نگاروں کی دکانیں چلتی ہیں۔پاکستانی سیکولرلبرل طبقہ مسلمانوں کے ماضی، پاکستان کی اسلامی اساس اوراس خطے کی اسلامی تہذیب سے جنم لینے والی ترقی کے ذکر سے اسقدر نفرت کرتا کہ اتنی نفرت بھار ت میں بسنے والا راشٹریہ سیوک سنگھ کا متعصب شدت پسند ہندو بھی نہیں کرتا۔ آر ایس ایس تو زمین پر موجود اسلامی تہذیب کی علامتیں یعنی بابری مسجد وغیرہ کو گرا کر خوش ہو جاتی ہے کہ مقصد حل ہوا لیکن یہ پاکستانی سیکولر، لبرل دانشور مسلمانوں کے ماضی کو مسلسل بھیانک، خوفناک اور قابلِ نفرت روپ میں اپنی تقریروں، کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہندوتوا کے متعصب چیلوں اور پاکستانی سیکولر لبرلز میں ایک اور بات مشترک ہے، وہ بھی مسلمانوں سے شدید نفرت کی وجہ سے ان کی ہر نشانی کو صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں لیکن برصغیر میں انگریزوں کی نشانیوں کو قائم رکھتے ہیں اورانگریز کو روشنی، علم، تہذیب اور ترقی کا مینار سمجھتے ہیں ،اسی طرح پاکستان کا سیکولر، لبرل دانشور بھی انگریز سے محبت کے نشے میں یہ جھوٹ پھیلاتا رہتا ہے کہ اگر انگریز برصغیر میں نہ آتا تو یہاں کے لوگ جاہل اور پسماندہ ہی رہتے۔ دسمبر کے جس دن 1992ء میں بابری مسجد گرائی گئی تھی، اس دن بھارت کے ایک عظیم تاریخ دان اور فلاسفر ’’دھرم پال جی‘‘ نے ایک خوبصورت فقرہ کہا تھا ۔ اس فقرے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ’’دھرم پال جی‘‘کون ہیں۔وہ ان درجن بھر تاریخ دانوں اور دانشوروں میں سے ایک ہیں جن کے کام اور تصورات سے میں بہت زیادہ متاثر ہوں۔ زندگی کے چند ایک پچھتاوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں پہلی دفعہ بھارت جنوری 2007ء میں گیا تھا ،اور دھرم پال جی اس سے چند ماہ قبل 24اکتوبر 2006ء کو انتقال کر گئے تھے اور میرے لئے یہ پچھتاوا ہمیشہ رہے گا کہ میری اس قدآور شخصیت سے ملاقات نہ ہو سکی۔ میں ان کے کام کو قریب سے دیکھنا اور ان کی گفتگو کے موتیوں کو دامن میں سمیٹنا چاہتا تھا۔ دھرم پال جی اپنے آخری دنوں میں اپنے اردگرد کے ماحول اور ہندو قوم سے اتنے مایوس ہو گئے تھے کہ اس مایوسی کے نتیجے میں ان کے اندر غصہ ، اضطراب اور بے چینی اسقدر بڑھ گئی تھی کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کو مسلسل اٹھا اٹھا کر پھینکتے رہتے تھے۔ جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو انہوں نے جو خوبصورت فقرہ کہا وہ یہ تھا کہ ’’میں اس دن دیکھوں گا جب یہ ’’بھارت ماتا‘‘ کے متوالے بھارت میں بیرونی حملہ آوروں کی سب سے بڑی نشانی ’’راشٹر پتی بھوّن‘‘ کو مسمار کریں گے جسے بدنیتی سے انگریز حکمرانوں نے تعمیر کیا تھا۔‘‘ دلی کا راشٹرپتی بھّون پوری دنیا میں نو آبادیاتی حکمرانی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ یہ موجودہ دنیا میں کسی بھی حکمران کی سب سے بڑی رہائش گاہ ہے جو دو لاکھ مربع فٹ پر محیط ہے اور جس میں 340کمرے ہیں۔ دھرم پال جی کا متاثر کن اور حیران کر دینے والا کام ان کی نو کتابوں پر مشتمل ہے۔ یہ تمام کتابیں انگریز مصنفین اور سیکولر لبرل دانشوروںکے اس تاریخی جھوٹ سے پردہ اٹھاتی ہیںکہ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے پہلے یہاں جہالت کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے اور یہاں تہذیب و ترقی نام کو نہ تھی۔ان کتابوں میں تاریخی حقائق اور دستاویزی ثبوتوں سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے برصغیر پاک و ہند کا یہ خطہ، علم و عرفان،تہذیب و ثقافت،سائنس و ٹیکنالوجی اور اصولِ مدنیت میں دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھا اور اس ترقی کو انگریزوں نے ایک منصوبے اور بدنیتی کے ساتھ تباہ برباد کر دیا۔ان کی پانچ کتابوں کا سیٹ ایسا ہے جسے اس خطے کے تعلیمی اداروں میںریفرنس کے طور پر موجود ہونا چاہیے اور اس شخص کو جس کے دماغ میں گورے کی مرعوبیت کے جالے لگے ہوئے ہیں، انہیں صاف کرنے کے لئے اسے ضرور پڑھایا جانا چاہیے۔ دھرم پال جی کی پہلی کتاب کا نام ہے ’’Indian Science and Technology in the Eighteenth Century‘‘ (اٹھارویں صدی عیسوی میں بھارت کی سائنس اور ٹیکنالوجی) ہے۔ اس کتاب میں دیئے گئے حقائق جان کر آپ حیران ہو جائیں گے کہ یہ تاج مغل اور شالامار باغ جیسی عمارتیں جن لوگوں نے تعمیر کیں وہ ایسے تعلیمی اداروں سے جو علم پڑھ کر آئے تھے وہ موجودہ دور کی جیومیٹری، ٹرگنو میٹری اور فنِ تعمیر کے اساسی شعبہ جات سے کہیں زیادہ اعلیٰ تھا۔ان کی دوسری کتاب بھی کمال کی ہے (Civil Disobedience in Indian Tradition) ’’ہندوستان میں سول نافرمانی کی تاریخ۔ اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کا معاشرہ کس قدر جمہوری تھا کہ یہاں لوگ ہزاروں سال پہلے بھی اپنے مطالبات منوانے کے لیئے دھرنا دیتے تھے، ٹیکس دینے سے انکار کرتے تھے، مرن بھرت رکھا کرتے تھے اور جن بادشاہوں کو سیکولر لبرل مؤرخین گالیاں دیتے ہیں وہ ان احتجاج کرنے والوں کے مطالبات مان کررعایا کے دل جیتا کرتے تھے۔ تیسری اور سب سے اہم ترین کتاب کا انہوں نے ایک مخصوص نام بھی رکھا ہے اور یہ نام واقعی اس کتاب میں درج حقائق کا آئینہ دار ہے۔ کتاب کا نام ہے ’’The beautiful tree : indigenous Indian education in the eighteen century‘‘ (خوبصورت درخت: اٹھارویں صدی عیسوی میں ہندوستان کا مقامی تعلیمی نظام۔ ان کے علاوہ باقی دو کتابیں’’پنچائت اور ہندوستان کا نظامِ سلطنت‘‘ (Panchayat and Indian Polity) اور ’’روایت، بازیافت اور آزادی پر مضامین‘‘ (Essays on Tradition, Recovery and Freedom) بھی کمال کی ہیں۔ لیکن پہلی دو کتابیںدراصل 1701ء سے لے کر 1779ء تک کے ہندوستان کا ایک ایسا منظر پیش کرتی ہیں جو سائنس و ٹیکنالوجی میں بامِ عروج پر تھا اور جس کا نظامِ تعلیم دنیاکا جدید ترین نظامِ تعلیم تھا اور جس ملک کے بیشتر حصوں میں شرح خواندگی پچانوے فیصد سے بھی زیادہ تھی۔’’ خوبصورت درخت ‘‘(Beautiful Tree) یہاں کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی حکائتوں پر مبنی تاریخ نہیںہے بلکہ اس میں انگریزوں کے مرتب کردہ ان سروے اور تحقیقی رپورٹوں کو یکجا کیاگیا ہے جو انہوں نے اپنی رہنمائی کے لئے تحریر کی تھیں۔ان رپورٹوں میں پورے مغل ہندوستان کے ہر گاؤں میں اتالیق اور بڑے شہروں کالج اور یونیورسٹی کی سطح کے تعلیمی اداروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں دھرم پال جی نے مہاتما گاندھی کی 20اکتوبر 1931ء کو رائل انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افئیرز لندن میں کی جانے والی تقریر کے اکتباسات درج ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’میں بلا خوف و تردید یہ کہتا ہوں کہ ہندوستان آج نسبتاً زیادہ ناخواندہ اور ان پڑھ ہے، جتنا پچاس یا سو سال پہلے تھا۔ اس لئے کہ برطانوی حکمران جب یہاں آئے توبجائے اس کے کہ وہ یہاں پر موجود نظام کو مزید بہتر بناتے، انہوں نے اسے جڑ سے اکھاڑنا شروع کر دیا‘‘۔ دھرم پال جی نے اپنی تحقیق میں تمام تر مواد انگریز حکمرانوں کی تیارکردہ ایسی خفیہ اور غیر خفیہ رپورٹوں، سروے اور تحقیقوں سے اکٹھا کیا ہے جو انگریزوں نے اس نیت سے پورے ہندوستان کے بارے میں تحریر کی تھیں تاکہ ان حقائق کی بنیاد پر وہ منصوبہ بندی کر سکیں کہ کیسے اس شاندار تہذیب اور ترقی یافتہ قوم کو تباہ کرنا ہے۔ گورے نے نہ صرف اس خوبصورت نظامِ سلطنت کو برباد کیا، بلکہ ساتھ ساتھ ایک جھوٹا تاریخی موادبھی تخلیق کیا جو ہندوستان کے باسیوں اور حکمرانوں کو پسماندہ، جاہل، عیاش اور متعصب ثابت کرتا تھا۔ اسی جھوٹے مواد کو پڑھ کر ہی تو میرے ملک کا سیکولر طبقہ خوشی سے جھومتا ہے اور جاہل دانشور کالم لکھتا ہے، ٹی وی پر جھوٹ بولتاہے۔