اونچے اونچے مکاں تھے جن کے بڑے آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے عِطر مٹی کا جو نہ مَلتے تھے نہ کبھی دھوپ میں نکلتے تھے گردش ِچرخ سے، ہلاک ہوئے اْستخواں تک بھی اْن کے، خاک ہوئے ذات ِمعبود، جاودانی ہے! باقی، جو کچھ بھی ہے، وہ فانی ہے! بیگم کلثوم نواز، غریب الوطنی میں، اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! یہ وہ منزل ہے، جس سے آگے کوئی منزل نہیں۔ اور یہ وہ مرحلہ ہے، جس سے زیادہ یقینی، کوئی اَور مرحلہ نہیں! عام آدمی کے لیے، یہ موقعہ پْرسے اور دعاے مغفرت کا ہوتا ہے۔ لیکن بْرا ہو ہماری سیاست کا، جس کا، اب یہ ہڈرا ہے کہ موت بھی اب، پبلک پراپرٹی بن چکی ہے! ہرچند کہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر، زیادہ تر، مدح ہی مدح تھی، کہیں کہیں ذم بھی پایا گیا۔ مداحوں کو بھی، اگر ان کی شخصیت کا کوئی پہلو زیادہ اجاگر کرنا تھا، تو وہ یہ تھا کہ مرحومہ بڑی وفا شعار بیوی اور خالص مشرقی طرز کی خاتون تھیں۔ ایسی خاتون، جس کے شوہر پر کڑی پڑے تو پردے کی بوبو بنے رہنے کے بجائے، شوہر پر جان نچھاور کرنے کو، پرانی اور روایتی دھج، تَج کر باہر نکل آئے! ان کے اس اقدام میں، بہادری ڈھونڈنے سے زیادہ، یہ دیکھنا چاہیے کہ خاوند کے ساتھ وفا شعاری کا جو عہد تھا، اسے کیسا استوار رکھا! آسمان کی گردش، اس خاندان کو، تیسری دفعہ زمین پر لائی ہے! عبرت کا پہلو یہ ہے کہ اقتدار اور اختیار، جاتا ہے تو یوں جاتا ہے کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں! لوگ ساری عْمر، نام و نمود کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ مگر جو قیمت اس نمود کی ادا کرنا پڑتی ہے، اسے دیکھ کر کان پکڑنے چاہئیں! ایسوں کی، نہ کوئی بات ذاتی رہتی ہے اور نہ کوئی فعل ہی! ایک ایک چیز، "قابل ِ دست اندازی’’ ِپریس‘‘ ہو کر رہتی ہے! شہرت ملنے کے بعد، اسے برقرار رکھنے کے لیے، جس جوکھم سے گزرنا پڑتا ہے، وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ خصوصا اہل ِاقتدار کے اختیار کا ورق، الٹ کر رہتا ہے، تو یوں الٹتا ہے، جیسے اس کا وجود ہی کبھی نہ رہا ہو۔ اقتدار اور اختیار اور نام و نمود کے شائق یاد رکھیں۔ حباب آسا، اٹھایا بحر ِہستی میں جو سر اپنا بنایا بس وہیں، موج ِفنا نے، ہم سفر اپنا مرحومہ پر لکھے گئے جو مضامین سامنے آئے ہیں، ان میں یہ نکتہ، مشترک ہے کہ مرحومہ نے قدم قدم پر، یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ، وفا شعار بیوی اور خالص مشرقی خاتون تھیں۔ یہ ایک خوبی، ان کی تکریم کے لیے، کافی ہونی چاہیے! ٭٭٭٭٭٭ نیا پاکستان پاکستان کو، نیا پاکستان مبارک ہو! درین دریای ِ بی پایان، درین طوفان ِموج افزا دل افگندیم، بسم اللہ مَجریھا و مْرسٰھا خدا کرے کہ نئی حکومت، اپنے قائم کردہ، اب تک زبانی ہی سہی، معیار پر پوری اترے! اس کانٹے میں، پورا تْلنے کا مطلب ہے، پاکستان کی فلاح! اس دعا کے بعد، یہ عرض کرنا ضروری ہے، ہرچند کہ وزیر ِاعظم عمران خان کی ایمان داری پر، کبھی انگلیاں نہیں اٹھیں، لیکن جو حضرات، ان کے یمین و یسار اور حاشیہ بردار ہیں، ان پر، بقول ِ داغ ع انگلیاں دور سے اٹھتی ہیں کہ وہ آتے ہیں! ان "پرانے پاکستانیوں" کی پوری کوشش ہو گی کہ ان میں سے ہر ایک، وزیر ِاعظم کی بصارت، سماعت اور ناطقہ بن کر رہے۔ اور پھر وہ نوبت آ جاے، جہاں ع صم بکم عمی، من از غیر ِاو مثلا، شیخ رشید احمد۔ وہ بھی کیا انقلاب ہو گا، جو "پرانے انقلابی" اور شورش کاشمیری مرحوم کے یہ شاگرد ِرشید لائیں گے!گلیر تو یہ ایسے ہیں کہ اس میدان کا بڑے سے بڑا، استاد بھی سن پائے، تو ع رکھ کے تیشہ کہے گا، یا استاد! وزیر ِاعظم، بلا شبہ، دبنگ بھی ہیں اور نیک نیت بھی۔ سروں کی فصلیں، کب سے پَکی، تیار کھڑی ہیں۔ وہ قدم بڑھائیں، قوم ان کا ساتھ دے گی۔ اس میں اگر زد، اپنی صف میں کھڑوں پر بھی پڑتی ہو، تو دریغ نہ کیا جائے! ٭٭٭٭٭ نثر میں شاعری! سیاست کی طرح، شعر و ادب میں بھی، اِس خطے کے ذہن کو ٹھہرائو نہیں! ایسے ایسے ہوائی مضمون باندھے جاتے ہیں کہ جن کا زمین پر اتارا جانا کارے دارد! بقول ِمولانا عبدالماجد دریابادی، عوام سیاست دانوں کے، "شوق ِتقاری" کے، مارے ہوئے ہیں! شعر کے میدان میں بھی، جو جو ہوائی گھوڑے دوڑائے جاتے رہے، ان کا کچھ بیان، ان سطور میں ہوتا رہتا ہے۔ لیکن حد یہ ہے کہ نثر بھی اس سے محفوظ نہیں رہی۔ برمحل ہو گا کہ ایسے دو بڑے عالموں کا ذکر ہو جاے، جن میں سے ایک کے یہاں زیادہ تر ع ای طبل ِبلند بانگ، در باطن ہیچ! کی کیفیت ہے۔ اور دوسرے کا ذہن اتنا مرتب اور تحریر اتنی مدلل ہے کہ بقول ِظفر علی خاں ع اک گْرز کی طاقت ہے میرے خامے کے اندر! یہ ذکر ہے مولانا ابوالکلام آزاد اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کا۔ ابوالکلام کے یہاں، بڑی دلکش اور طبع زاد ترکیبیں ملتی ہیں، لیکن استدلالی پہلو، اکثر، یا تو ہوتا ہی نہیں، یا ہوتا ہے تو صرف ایک آدھ نکتے کو کھینچ کھانچ کر صفحے کے صفحے، سیاہ کر دئیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف، ابوالاعلیٰ ہیں، جن کی تحریریں، ازسرتاپا، استدلال ہی استدلال ہیں! مولانا رومی کہتے ہیں پای ِ استدلالیان، چْوبین بْوَد پای ِچْوبین، سخت بی تمکین بْوَد ابوالکلام کا "پای ِاستدلال"، اکثر، سراسر کاغذی ہے اور ابوالاعلیٰ کا، زیادہ تر، فولادی! یہاں یہ اظہار ضروری ہے کہ اس خاکسار نے ایسے پرائیویٹ اداروں میں تعلیم پائی ہے، جن میں جمعیت یا جماعت کا، پرچھاواں بھی نہیں پڑا۔ نتیجتاً، مولانا مودودی کی تحریریں، پکی عمر میں پڑھنے کا موقع ملا۔ قطع نظر ان کے سیاسی موقف کے، ایسی مدلل علمی بحث، کسی اور کے عالم کے یہاں نظر نہیں آئی! انہی سطور میں لکھا گیا تھا کہ جس تحریر میں، جتنی بلاغت ہو گی، اتنا ہی اس کا، ترجمہ بھی وزنی ہو گا! اس نظر سے، ابوالکلام اور ابوالاعلیٰ کی تحریروں پر نظر ڈالیے، تو کھل جاے گا کہ کِس کی نگارشات "تقریری" تھیں اور کِس کی تحریریں، ترجمہ ہو کر بھی دھڑا دھڑ نکل رہی ہیں! یہاں یہ اظہار دلچسپ ہے کہ ایک نے اپنی علمی اور دینی قابلیت، نظریہ قومیت کی بھینٹ چڑھا دی۔ اور دوسرے، خود سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے! یا یوں کِہ لیجیے کہ ع او بصحرا رفت و ما، در کوچہ ہا رسوا شدیم