گھر کے ایک کونے میں ایسی کتابوں کا انبار لگا ہے جنہیں برسوں سے کھول کر نہیں دیکھا۔ یہ وہ کتابیں ہیں جو بار بار چھانٹی کے باوجود بچ گئی ہیں۔ ایک محدود اور حسین سٹاک ہے جو نہ کسی دوست کو دیا جا سکتا ہے نہ کسی لائبریری کو۔ ایک متاع عزیز کی طرح ایک گوشے میں رکھا ہے۔دیکھتا ہوں اور شانت ہو جاتا ہوں۔ان دنوں فراغت ہی فراغت ہے۔ سوچا ایک پہر ان کتابوں کے ساتھ گزارا جائے۔ چائے کا کپ ہاتھ میں لیے میں ان کتابوں کے پاس جا بیٹھا اور پھرپورا پہر ایک ہی کتاب پڑھتے بیت گیا۔یہ ’’ آدمی میں انسان کی تلاش‘‘ تھی۔ یہ کتاب مجھے مرحوم ملک معراج خالد نے دی تھی۔ملک صاحب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر تھے اور آئے روز انہیں لوگ کتابیں بھیجا کرتے تھے۔ اس میں سے چھانٹی کر کے ملک معراج خالد مجھے کتابیں دیا کرتے۔ کچھ میرے لیے تحفہ ہوتیں اور کچھ اس ہدایت کے ساتھ دی جاتیں کہ پڑھ کر واپس کردینا۔ یہ الگ بات کہ نہ میں نے کبھی کوئی کتاب پڑھ کر انہیں واپس کی نہ کبھی انہوں نے دی ہوئی کوئی کتاب واپس مانگی۔میں جب انہیں ملنے جاتا تو دو تین کتابیں انہوں نے الگ کر کے رکھی ہوتیں۔ اس کتاب کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ آج یاد آئی تو میں شرمندہ سا ہوا اور مسکرا دیا۔ میں اس روز صبح کسی کام سے یونیورسٹی پہنچا تو نوٹس بورڈ پر کسی صاحب نے ایک اشتہار لگا رکھا تھا جس پر ان صاحب کی تنظیم کے پروگرام کے ساتھ اوپر لکھا تھا: ملک معراج خالد ، پاکستان کا سر سید احمد خان۔ میں نے نوٹس اتارا اور سیدھا ریکٹر آفس چلا گیا۔ ملک صاحب کا دفتر درویش کا آستانہ تھا۔ یہاں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔اندر کوئی میٹنگ ہو رہی ہوتو بتا دیا جاتا تھا ورنہ آمدورفت میں یہاں کوئی رسمی تکلف اور پروٹوکول حائل نہ تھا۔ ملک صاحب اپنے سٹاف کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ میں نے سلام کیا اور نوٹس سامنے رکھ دیا۔’’ سر یہ دیکھیں کیسی کیسی خوشامد ہو رہی ہے آپ کی، کتنا برا لگتا ہے سر ، یہ خوشامدی آپ کو سر سید بنا رہے ہیں‘‘۔ملک صاحب نے مجھے دیکھا پھر نوٹس کو دیکھا اور کہا : تم بیٹھو ذرا ۔ میں بیٹھ گیا۔ آج میںسمجھتا ہوں کتنا بڑا ظرف تھا ان کا۔ان کی جگہ میں ہوتا اور کوئی طالب علم اس طرح مجھ سے مخاطب ہوتا تو طوفان آ جانا تھا۔میرے جیسے لوگ تو فیس بک پر دو سخت تبصرے برداشت نہیں کر پاتے۔ لیکن وہ معراج خالد تھے جن کا پیغام تھا : محبت فاتح عالم۔ اب کمرے میں میں تھا ، ملک صاحب تھے اور ان کے سٹاف کے دو افسران ، محمد اسماعیل صاحب اور نوشاہی صاحب۔انہوں نے نوٹس اٹھا کر پڑھا اورسٹاف کو ہدایت دی، یونیورسٹی سے ایسے تمام نوٹس اتار لیے جائیں اور آئندہ ایسا کوئی نوٹس آویزاں نہ ہونے دیا جائے جس میں میری خوشامد کی گئی ہو۔میں ، ایک طالب علم ، یونیورسٹی کے سربراہ کے دفتر میں بیٹھا ابھی چائے ہی پی رہا تھا کہ سارے نوٹس اتار کر پیش کر دیے گئے۔معراج خالد مسکرائے: لو محمود ، سارے نوٹس اتر گئے۔ اب نہیں لگیں گے۔۔۔۔۔ایسے نوٹس پھر نظر نہیں آئے۔ جاتے ہوئے انہوں نے مجھے ایک کتاب دی۔یہ وہی کتاب تھی۔’’ آدمی میں انسان کی تلاش‘‘۔کتاب پر لکھا : محبت اور پیار کے ساتھ ، عزیزی محمد آصف محمود کے لیے ‘‘ ۔ یہی کتاب ہاتھ میں لیے اب کتنی ہی دیر سے بت بنے بیٹھا ہوں،چائے ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ یادیں پلکوں میں ہجوم کیے ہوئے ہیں۔کتنی ہی کتابیں مجھے ملک صاحب نے دی تھیں۔بھٹو کی متھ آف انڈی پنڈنس تو انہوں نے اصرار کر کے پڑھوائی تھی۔ زاہد چودھری کی ’’ پاکستان کی سیاسی تاریخ‘‘ سمیت بیسیوں کتابیں ۔مولانا عبید اللہ سندھی کے وہ مداح تھے، ان پر لکھی کچھ کتابیں بھی انہوں نے مجھے دی تھیں۔میرے پاس بس یہ ایک ہی بچ رہی ہے۔باقی کہاں گئیں، کچھ خبر نہیں۔ اس کتاب کا حسن یہ ہے کہ اس کا اسلوب بھی ملک معراج خالد جیسا ہے۔ دھیما سا ، سادہ سا ، دل میں اتر جانے والا۔پڑھتے پڑھتے کچھ سطریں میں نے انڈر لائن کی ہیں۔آپ بھی شریک مطالعہ ہو جائیے: عبادت کی قضا ہے ، خدمت کی نہیں۔ خاموشی کو سمجھنا ہی اصل سمجھنا ہے۔ سزا خطائوں کی ہوتی ہے ، خامیوں کی نہیں۔ کسی کو سمجھانے سے پہلے اس کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر دیے کا تیل صاف نہ ہو تو روشنی بھی صاف نہیں ہوتی۔ ہر تائیس ( اناطول فرانس کے ناول تائیس کی ہیروئن، ایک گنہ گار عورت) کے اندر ایک راہبہ چھپی ہوتی ہے اور ہر راہب کے اندر ایک شیطان۔ محبت بہار کے موسم کی طرح اپنے پھول اپنے ساتھ لاتی ہے۔ جب کوئی اپنا غلطی کرتا ہے تو اس میں کچھ غلطی اپنی بھی ہوتی ہے۔ جو فاصلے قربت سے پیدا ہوں وہ بہت طویل ہوتے ہیں۔ محبت اور عزت کبھی یکساں نہیں رہتی، بڑھتی نہیں تو گھٹ جاتی ہے۔ جب رول ماڈل مایوس کرتا ہے تو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ کسی کام کی وجہ اس کا جواز نہیں بن سکتی۔ جو سوچ کر اختلاف کرے ، وہ اتفاق سے قریب تر ہوتا ہے۔ فرد ہو یامعاشرہ، تبدیلی اندر سے آتی ہے۔ کھڑکی کے سامنے کھڑا ہونا آئینے کے سامنے کھڑا ہونے سے بہتر ہے۔ نصیحت کرنے اور اصلاح کرنے میں فرق ہے۔ آدمی اور انسان میں فرق ہے۔آدمی پیدا ہوتا ہے، انسان بنتا ہے۔ کوئی رکاوٹ انسان کے حوصلے سے اونچی نہیں ہوتی۔ برداشت پتھروں کا سینہ شق کر دیتی ہے۔ کبھی اس غلط فہمی میں نہ رہنا کہ کوئی قریب ہے تو وہ دور نہیں۔ سب سے اچھی کتاب وہ ہے جو آدمی کو انسان بنائے۔ ہر چھپی ہوئی چیز ، جس کی جلد خوشنما اور کور خوبصورت ہو ، کتاب نہیں ہوتی۔ بگڑی بات درگزر سے بن جاتی ہے۔ دوسرے کی عزت کو اپنی توہین سمجھنے کی غلطی کبھی نہ کرنا۔ کسی نعمت اور محبت کی قدر کے لیے اس کے چھن جانے کا انتظار کبھی نہ کرنا۔ اچھا شوہر ہونا اچھا باپ ہونے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ نہ ماننے اور انکار کرنے میں فرق ہے۔ ماننے اور انکار نہ کرنے میں بھی فرق ہے۔ لاتعلق ہونے اور بے پرواہ ہونے میں فرق ہے۔ خوش ہونا اور چیز ہے اور کوئی تکلیف نہ ہونا اور چیز ہے۔ علم حاصل کرنے میں اور نمبر حاصل کرنے میں فرق ہے۔ برسوں بعد آج یہ کتاب تھامے بیٹھا ہوں اور یوں لگ رہا ہے ملک معراج خالد کہیں دور سے سرگوشی کر رہے ہوں: محبت فاتح عالم۔ان جیسا بننا ہم جیسوں کے بس کی بات نہیں۔ خدا ان کی قبر کو اپنی رحمتوں سے منور فرمائے۔ وہ ایک فرد نہیں پورا مکتب تھے۔ راستو کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے