سینٹ کے ہر الیکشن کے وقت ممبرانِ اسمبلی کی خرید و فروخت کا جو غلغلہ عموماً برپا ہوتا ہے، اس سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے باقی پورا جمہوری نظام تو صاف، شفاف، بے ایمانی سے پاک، سرمائے کی دوڑ سے دور اور ووٹوں کی خرید و فروخت سے مبّرا ہے ، بس صرف یہی منتخب ممبرانِ اسمبلی ہیں جو سینٹ کے الیکشن کے وقت اپنے ووٹ کی قیمت لگا کر جمہوریت کو بدنام کرتے ہیں۔ ایک اور تاثر یہ بھی قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایسا خرید و فروخت کا سیاسی بازار صرف پاکستان جیسے ان ممالک میں ہی سجتا ہے جہاں فوجی مداخلت اور بار بار آئین کی پامالی کی وجہ سے جمہوری تسلسل نہیں رہتا، اور اس سب کی وجہ سے عوام اور سیاستدانوں میں جمہوری اخلاقیات پیدا نہیں ہوتیں۔ جمہوریت کے ساتھ اخلاقیات کا لفظ لگانا ایسا ہی ہے جیسے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ طوائفوں کے بھی اصول ہوتے ہیں یا منشیات فروش، قاتل، بھتہ خور اور جرائم پیشہ افراد کی دنیا بھی اپنے کچھ قواعد و ضوابط رکھتی ہے۔ جرم، ناجائز سرمایہ، بددیانتی، دھونس اور مافیاؤں کی زیرِ زمین دنیا (Under world) کا تمام ممالک کے جمہوری سیاسی نظام کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔یہ تعلق صرف انفرادی طور پر کسی ایک ملک کی سیاست سے نہیں ہوتا، بلکہ زیرِ زمین دنیا کے جرائم پیشہ افراد، عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے کمیشن ایجنٹ اور منی لانڈرنگ کے عالمی نیٹ ورک کے نمائندوں کے سرمائے اور جرم کی دنیا اور انکے بدمعاشوں کی دھونس کا ایک گٹھ جوڑ قائم ہے جو دنیا کے ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر جمہوری ملک کے الیکشنوں پر ان کے آغاز سے ہی اثر انداز ہونا شروع کرتا ہے اور صدر، وزیراعظم کے انتخابات سے ہوتا ہوا وزارتوں، مشاورتوںاور انتظامی عہدوں کی تعیناتی سے لے کر اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی نامزدگی تک مسلسل سایہ فگن رہتا ہے اور بزورِ قوت اور بہ فیضِ سرمایہ اپنی بات منواتا ہے اور اپنے حکم کو نافذ کرواتا ہے۔سرمائے کا ایک عالمی پول (Pool) ہے جو سیاسی فنڈنگ کرتا ہے اور بدمعاشی کا عالمی جتھہ ہے جودھونس جماتا ہے۔ آج سے تیس سال قبل بلغاریہ کے شہر صوفیہ میں ایک سوچ بچار کے ادارے (Think tank)کی بنیاد رکھی گئی جس کا نام ہے ’’سینٹر فار سٹڈی آف ڈیموکریسی‘‘ (Center for the study of democracy) ۔ اس ادارے کا مقصد مارکیٹ کی معیشت اور جمہوریت کے درمیان تعلق کے بارے میں تفصیلی رپورٹیں مرتب کرنا اور وقتاً فوقتاً اصلاحات تجویز کرنا ہے ۔ اس ادارے نے طویل محنت اور تحقیق کے بعد ایک جامع رپورٹ مرتب کی جس کا نام ہے ’’منظم جرم اور کرپشن کا آپس میں تعلق‘‘ (Examining the links between organised crime and corruption)۔ اس رپورٹ میں یورپی یونین کے ممالک سمیت 49ممالک کی جمہوریتوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور جرم کی دنیا،اس کے ناجائز سرمائے اور ان دونوں کا سیاسی پارٹیوں، ارکانِ اسمبلی ، حکومتوں اور وزارتوں پر گہرے اثر و نفوذ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ایسی تحقیق صرف یورپ کے ممالک تک محدود نہیں بلکہ لاطینی امریکہ کے ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے ایسے تمام ممالک جہاں الیکشن ہوتے ہیں، سیاسی پارٹیاں بنتی ہیں، لوگ اسمبلیوں میں جاتے ہیں، ان تمام ممالک کی جمہوری سیاست کا زیرِ زمین جرائم کی دنیا کے سرمائے، جسے ’’گندا پیسہ‘‘ (Dirty Money) کہا جاتا ہے، سے ناجائز تعلق پر دنیا بھر میں بے شمار سروے ہوئے ہیں اور غور و خوض والی تحقیق ہو چکی ہے ا۔ایسی تحقیقات کی تعداد ہزاروںمیں ہے جودنیا بھر کی لائبریریوں میں موجود ہیںاور انٹرنیٹ پر میسر ہیں۔ ان تمام رپورٹوں، تحقیقوں اور کتابوں میں علیحدہ علیحدہ ملکوں میں جمہوریت کا جرم اور گندے پیسے سے مجرمانہ تعلق پر بھی بحث کی گئی ہے اور اس بڑے عالمی نیٹ ورک کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیئے بیک وقت بے شمار ملکوں کی جمہوری سیاست میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ مثلاً وہ تمام عالمی روٹ جن کے ذریعے افیون، ہیروئن، کوکین یا دیگر منشیات دنیا کے مختلف ممالک میں پہنچائی جاتی ہیں، ان تمام ملکوںمیں اپنے خیر خواہ سیاست دانوں کو اقتدار میں لانا، عالمی ڈرگ مافیا کے لیئے ازحد ضروری ہوتاہے۔ اپنے اس جرم کی دنیا کے روٹ کے تحفظ کے لئے یہ عالمی مافیا ایسے تمام ممالک کی سیاسی پارٹیوں کو فنڈنگ کرتے ہیں اور براہ راست الیکشن لڑنے والوں کے الیکشنوں کا خرچہ بھی اٹھاتے ہیں اور یوں وہ اپنی مرضی کے حکمران ہر ملک میں برسرِ اقتدار لاتے رہتے ہیں۔ جمہوریت، جرم اور گندے سرمائے کا ذکر ہو تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔جمہوری سیاست پر جرم اور ناجائز سرمائے کے غلبے کی بہترین مثال بھارت ہی ہو سکتا ہے ،جہاں دنیا کے سب سے بڑے الیکشن منعقد ہوتے ہیں اور ان الیکشنوں میں سب سے زیادہ جرائم پیشہ افراد حصہ لیتے ہیں۔ آج سے تین سال قبل ان الیکشنوں کی پوری تاریخ پر ’’ملان وشنو‘‘ (Milan Vaishnav) نے ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان تھا ’’When Crime Pays‘‘یعنی ’’جب جرم فائدہ مند ہوتا ہے‘‘۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان تھا "Money and Muscle in Indian politics" یعنی ’’سرمائے اور طاقت کا بھارتی سیاست میں کردار‘‘۔ یہ کتاب 2017ء میںاس وقت مارکیٹ میں آئی جب امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ بے شمار جنسی ہراسمنٹ کے الزامات، ٹیکس چوری اور آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے جیسے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود امریکی انتخابات جیت چکا تھا۔ وشنونے اپنی اس کتاب میں یہ بنیادی سوال اٹھایا ہے کہ جمہوری نظام میں ایک ’’ ووٹر سیاست دان کے جرائم کیوں معاف کر دیتا ہے‘‘۔ کیایہ ووٹر واقعی مجرم سیاستدان کو معاف کرتا ہے یا پھر وہ اس قدر خوفزدہ کر دیا جاتاہے کہ وہ سیاست دان کے افعال سے بالکل بے تعلق ہو جاتا ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کی ضروریات اور لالچ اسے اسقدر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ ایک مجرم اور جرائم پیشہ شخص کو بھی ووٹ دے دیتا ہے یا اسے اپنا لیڈر منتخب کرتا ہے۔ وشنو نے بھارت کو ایک نمونہ (Case Study)تصور کرتے ہوئے جمہوری سیاست کا سرمائے (Money) اور طاقت (Huscle) سے مجرمانہ گٹھ جوڑ پر 434صفحات پر مشتمل یہ کتاب تحریر کی ہے۔ اس کتاب کے مندرجات خوفناک حد تک دل دہلا دینے والے ہیں۔ اس کے مطابق بھارتی الیکشنون میں ہر سال تقریباً 20فیصد یعنی 1500ایسے امیدوار حصہ لیتے ہیںجن پر قتل، اقدامِ قتل اغوا، اغوا برائے تاوان جیسے بڑے جرائم کے مقدمے قائم ہوتے ہیں اور وہ عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہوتے ہیں۔(جاری)