مرغی بی نے دعا مانگی: یا اللہ مجھے صالح پرویز چوزے اور نیک پروین چوزیاں عطا کر! اکیس دن بعد پہلا چوزہ نکلا اور انڈے سے برآمد ہوتے ہی نماز کی نیت باندھ لی… تھوڑی دیر بعد دوسرا چوزہ برآمد ہوا تو ہاتھ میں رنگین منکوں والی تسبیح تھی… تیسرا کتنی ہی دیر نکلا ہی نہیں۔ مستجاب الدعوات مرغی نے آواز دی تو کہنے لگا: ’’ماما! مجھے ڈسٹرب مت کریں، مَیں اعتکاف میں ہوں۔‘‘ سچ پوچھیے تو اس وقت یہی صورتِ حال وطنِ عزیز کی ہے ۔ عشروں سے بھانت بھانت کے سیاسی لیڈروں کے بگاڑے نظام کو درست کرنے میں تاخیر کیا ہوئی کہ ماجھے گامے، چاچے مامے، راجے رامے، طاغی طامع، کونوں کھدروں سے دندانِ آز، ساز باز تیز کیے آن نمودار ہوئے۔ اگر یہ چہرے ہی نئے نکور،چھوٹے موٹے چور ہوتے تو شاید ہم بھی کچھ مزید دھوکے کھانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاتے لیکن یارو یہاں تو ایک سے ایک آزمودہ، ابلیس صفت فرسودہ، ہر جرم سے آلودہ، پی ڈی ایم برمودہ، سات نسلوں تک آسودہ اور قومی خزانے کو قصوری فالودہ سمجھنے والا بھرا پڑا ہے۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی تک حالات میں توقع کے مطابق بہتری نہیں آئی لیکن کیا اس کے ساتھ یہ بات بھی درست نہیں کہ ان گھاگ، باگھ، پکے راگ لوگوں نے 2018ء کے الیکشن کے فوراً بعد اپنے عادی پپا خوروں اور معیادی صحافیوں کی مدد سے پہلے تو دھاندلی دھاندلی (جو اپنے سابقہ تجربات اور ذاتی حکومت ہونے کے ناتے خود انھوں نے کی تھی) کا شور مچایا،جب حکومت بن گئی تو اپنی راندگی پہ شرمندہ ہونے کی بجائے سلیکٹڈ سلیکٹڈ کا باجا بجانا شروع کر دیا۔حلف والے دن سے ہی میاں مٹھو کی مانند ’تبدیلی دکھاو‘کی رَٹ لگا لی۔کہیں ریحام خاں کا کتابی مساج ہوا، کہیں عائشہ گلالئی کی پیٹھ تھپکی گئی۔اسد عمر کا دَف مارنے کیے لیے محمد زبیر کو ڈنڈ بیٹھکیں لگوائی گئیں۔ ملتان کے نام نہاد ’باغی‘ کو مزید داغی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ کون نہیں جانتا کہ اس ساری دھماچوکڑی کا مقصد ایک طرف اپنے طویل جرم ہائے سیاہ پہ پردہ ڈالنا، کرپشن کے سنگین مقدمات سے دھیان ہٹانا اور دوسری جانب قدم قدم حکومت کے راستے میں کانٹے بچھانا تھا۔رہی پاکستان کے ’حالاتِ حاضرہ‘ کی بات، اس میں پچھلے تین سال تو کیا، ہم پیدا ہونے سے بھی پہلے سے سُن رہے ہیں کہ ’ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے‘ اور یہ کہ ’ملکی سیاست کے اگلے دو تین ماہ بہت اہم ہیں۔جہاں تک ان سیاسی شعبدہ بازوں کا تعلق ہے،ان کو تو پاکستان کی ’پ‘ سے بھی پیار ہوتا تو کم از کم اپنے ’ایانوں‘ کے ذریعے برآمد کردہ اربوں ڈالر ہی ملکی بنکوں میں لے آتے۔ ملکی زرِ مبادلہ سے محل پلازے ہی باہر نہ خریدتے۔ منی لانڈرنگ ہی سے باز رہتے۔ ڈھٹائی کیحد یہ کہ حکومت پہ الزام دھرنے اور قوم کو بہتری کا درس دینے کے لیے میڈیا پہ وہ لوگ آتے ہیں، جن کے پاس کردار، معیار اور وقار تو دُور کی بات، پورے بدن پہ حکومتی اقداماتپہ گاڑنے والے نوکیلے دانتوں اور اپنے لیڈروں کے سامنے ہلانے والی دُم کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ جب وزیرِ اعظم پر الزام و بہتان کے سارے حربے ناکام ہوئے تو مہنگائی کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ عادی چور، خزانہ خور جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ عام آدمی کی دُکھتی رگ ہے۔ یہ تو ہمارا وہ مسئلہ ہے جو پچھتر سالوں سے حل نہیں ہوا۔ ایوب خاں چینی مہنگی ہونے پہ پریشان، بھٹو کا عوامی تقاریر میں مہنگائی پہ قابو پانے کی نوید سناتے سناتے گلا سُوکھ رہا ہے۔ بے نظیر،زرداری، نواز، شہباز اچھے دنوں کا لالی پاپ دیتے دیتے منظر سے غائب ہوئے، بقولِ شاعر: مہنگائی مہنگائی کہہ کر اتنا شور مچایا ہے چار چوفیرے انھے بولے کچھ بھی سمجھ نہ آیا ہے اس غوغے میں کرونا سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو بھی نظر انداز کر دیا،عالمی منظرنامے پہ بھی غور نہیں کیا۔لالچی میڈیا نے بھی حکومت کا صرف تاریک پہلو ہی مزید تاریک کر کے دکھایا۔خدا کا شکر بجا لانا تو دور کی بات،ہم نے اس بات پہ بھی تأمل نہیں کیا کہ کووڈ میں دنیا بھر کے کتنے لوگوں کے روزگار اور نوکریاں متاثر ہوئیں،یہاں تو دو سال تک سب کو گھر بیٹھے پوری تنخواہیں ملتی رہیں،ہم پھر بھی انھی موذیوں کی باتوں میں آ گئے۔ حکیم جی نے سچ کہا تھا: یہ سازشی تماشے بلا خیز بہت ہیں دندانِ ساز باز مِرے تیز بہت ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ نواز،مشرف،زرداری،کے زمانے میں ہر کوئی کانوں کو ہاتھ لگا لگا کے یہی دعا مانگ رہا تھا کہ یا اللہ!ان لٹیروں سے جان چھڑا،پاکستان کو کوئی ایمان دار لیڈر عطا کر!اب ہر کوئی جانتا ہے کہ لیڈر صرف ایمان دار ہی نہیں، ملک کے ساتھ مخلص بھی ہے، بین الاقوامی وژن رکھتا ہے، دنیا کے بڑے سے بڑے ماچے خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کر سکتا ہے۔ اسے شہرت، دولت، نمائش، ڈگڈگی کی قطعاً ضرورت نہیں، مہنگی گھڑیوں، لش پش سوٹوں سے بے نیاز ہے … ہاں ناتجربہ کاری ضرور ہے، نیت میں خرابی ہرگز نہیں،حالات پہ قابو پانے میں تاخیر بھی ہے، جس کی اصل وجہ لیڈر سے زیادہ ناموافق بیوروکریسی، سست انصاف،سفارشی بھرتیاں، موروثی سیاست، ذخیرہ اندوز تاجر،ناکارہ سسٹم، عوامی جہالت اور گندی جمہوریت ہے۔ پھر یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اس لیڈر کے ساتھ بھی روایتی سیاست دان زیادہ اور مخلص و تجربہ کار کم ہیں۔ ذرا تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ خوبصورت شاعر حسن جاوید نے یہ شعر میاں نواز شریف ہی کے دور میں کہا تھا: آسماں والے تیرے رزق خزانے بر حق مجھ کو دو وقت کی روٹی کی ضمانت دے دے