اعظم سواتی عمران خان کی حکومت کے لئے بدنامی کا باعث بنے‘ جے آئی ٹی رپورٹ نے انہیں غریب خاندان سے زیادتی‘ اختیارات سے تجاوز‘ اسلام آباد پولیس کے پیشہ ورانہ فرائض اور کار سرکار میں مداخلت کا مرتکب قرار دیا جس پر انہیں استعفیٰ دینا پڑا‘ بابر اعوان کی طرح اعظم سواتی کے رضا کارانہ استعفیٰ پر تحریک انصاف کی حکومت کو داد ملی‘ ماضی میں ماڈل ٹائون سانحہ پر بھی کسی نے استعفے کا تکلف نہ کیا‘ رانا ثناء اللہ نے منصب چھوڑا مگر کچھ عرصے بعد دوبارہ سنبھال لیا‘ اعظم سواتی کے استعفیٰ کو ’’نئے پاکستان‘‘ کی احسن روائت قرار دیا گیا مگر تازہ اطلاع یہ ہے کہ موصوف کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا‘ سرکاری کاغذات میں بدستور وہ وفاقی وزیر کے منصب پر برقرار ہیں اور ہمارے رپورٹر سہیل بھٹی کی اطلاع کے مطابق چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ جونہی حالات سازگار ہوں‘ موصوف قلمدان وزارت سنبھال لیں۔ گویا استعفیٰ تحریک انصاف کے برہم کارکنوں‘ عدالت عظمیٰ‘ اور مخالفین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کارروائی تھی اور چیف جسٹس کے عتاب سے بچنے کا حیلہ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے دو سالہ دور میں جس فعالیت کا مظاہرہ کیا‘ بڑے بڑے سیاسی‘ معاشی اور سرکاری مگر مچھوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا‘ ریاست کی رٹ بحال کرنے‘ آئین کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور مختلف مافیاز کے چنگل سے مجبور عوام کو چھٹکارا دلانے کے لئے اپنے آئینی و قانونی اختیارات استعمال کئے‘ وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ صرف عام شہری نہیں قانون دانوں کوبھی پہلی بار علم ہوا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ اور ایک جج اگر ذاتی و سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اپنے اختیارات استعمال کرنے پر تُل جائے تو وہ کیا کچھ کر سکتا ہے۔ایسے ایسے برہمن جسٹس ثاقب نثار کے دور میں تھرتھر کانپتے نظر آئے جنہیں ماضی میں کوئی عدالت اور حکومت قانون کے دائرے میں لانا تو درکنار ان کی طرف اشارہ کرنے کی روادار نہ تھی کہ مبادا نازک مزاج گراں بار ہواور لینے کے دینے پڑ جائیں۔موجودہ حکمرانوں کا تو علم نہیں مگر بہت سے دوسرے لوگ چیف صاحب کی ریٹائر منٹ کے شدت سے منتظر ہیں۔ لیکن کیا عدلیہ کا وقار‘ دبدبہ اور تحکم صرف جناب جسٹس ثاقب نثار کا مرہون منت ہے ؟اور ان کی رخصتی کا انتظار کرنے والے حکمرانوں‘ سیاستدانوں ‘ قبضہ گروپوں اور کرپشن کے قطب میناروں کے لئے 17جنوری کے بعد راوی چین لکھے گا؟ میری ناقص رائے میں ان کے جانشین جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں مسٹر جسٹس ثاقب نثار کی رخصتی کا انتظار کرنے والے احباب شائد مزید پچھتاوے کا شکار ہوں۔ 1997ء میں میاں نواز شریف نے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ اور صدر فاروق لغاری‘ 1998ء میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو آنا فاناً رخصت کیا تو یہ تاثر ابھرا کہ اب مسلم لیگ کی حکومت کو 2015ء تک کوئی خطرہ نہیں۔ اپنا صدر‘ اپنا چیف جسٹس اور اپنا آرمی چیف سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔ پھر بھی 12اکتوبر ہو گیا اور اپنا چیف جسٹس کام آیا نہ صدر۔ شریف خاندان کے مربیّ بزرگ صحافی نے جنرل جہانگیر کرامت کے خلاف شکایات کا دفتر کھولنے پر میاں نواز شریف کو سمجھایا تھا کہ جس طرح سجاد علی شاہ کی رخصتی کے بعد آپ جسٹس اجمل میاں سے تنگ تھے اب کہیں نیا آرمی چیف بنا کر پچھتانا نہ پڑے ؟مگر کون سنتا ہے فغان درویش ‘ہونی ہو کر رہی اور یہ بات میاں صاحب تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد سمجھ پائے نہ شائد موجودہ حکمرانوں کو سمجھ آ رہی ہے ۔2013ء میں میاں صاحب کو جسٹس افتخار چودھری اور جنرل کیانی کی رخصتی کا انتظار تھا اور 2016ء میں وہ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ پر شاداں و فرحاں تھے مگر میاں صاحب شائد اس وقت کو کوستے ہوں جب وہ مرضی کا چیف جسٹس اور آرمی چیف لانے کے خبط میں مبتلا ہوئے۔ حکومت میاں نواز شریف کی ہو‘ آصف علی زرداری کی یا عمران خان کی اپنی بہتر کارگزاری ‘ خدمت اور معاشی استحکام کی بنا پر کامیابی کا زینہ طے کرتی ہے۔ شیر شاہ سوری نے چار پانچ سال میں وہ کارنامے انجام دیے جنہیں اگلے پچاس سال میں ہمایوں اور شہنشاہ اکبر حرف غلط کی طرح مٹا نہ سکے۔ بندوبست اراضی کے نظام کو انگریزوں نے بھی برقرار رکھا۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو پانچ پانچ سال ملے مگر آج تک رونا دھونا ختم نہیں ہوا کہ ہمیں کام کرنے نہیں دیا گیا‘ عدالتی فعالیت سے تنگ آئے ہمارے دانشور یہ رونا تو روتے ہیں کہ چیف جسٹس پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے دائرہ کار میں مداخلت کے مرتکب ہیں یہ کبھی نہیں بتاتے نہ سوچتے ہیںکہ مقننہ اور انتظامیہ نے اپنے دائرہ کار میں کارنامہ کون سا انجام دیا ہے؟ اٹھارہویں ترمیم ‘جس نے تعلیم اور صحت کا بیڑا غرق کر دیا اور فیڈریشن کو عملاً کنفیڈریشن میں بدلنے کی راہ ہموار کی۔ سندھ میں جو اندھیر نگری مچی رہی اور جس صوبائی خود مختاری کے برتے پر آصف علی زرداری‘ رضا ربانی اور مراد علی شاہ وفاق اور عدلیہ کو آنکھیں دکھاتے ہیں یہ ناقص اٹھارہویں ترمیم کا ثمر ہے۔ اگر عدلیہ بھی انتظامیہ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی تو اب تک حکمران خاندان پاکستان کے باقی ماندہ وسائل پر ہاتھ صاف کر کے اپنے بیرونی محلات میں عیش و عشرت کر رہے ہوتے، پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں کا وہی حشر ہوتا جو تھر اور چولستان کا ہے۔ پینے کو پانی‘ کھانے کو خوراک نہ انسانوں کے لئے صحت تعلیم اور روزگار کے مواقع۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی اور غیر ملکی قرضوں کی رقم شہریوں کی خوراک‘ تعلیم صحت اور روزگار کے بجائے چند خاندانوں کی عیش و عشرت اور بیرون ملک اثاثوں کی خریداری پر خرچ ہوئی۔ شاہی خاندانوں کے اثاثے ،بنک اکائونٹس اور کاروباربڑھتے رہے ۔پاکستان میں کارخانے بند‘ کاروبار روبہ زوال اور ذرائع آمدن گھٹتے رہے ‘کسی کو رحم نہ آیا۔ عدلیہ کی مداخلت سے مہنگے سکولوں کی فیسیں کم ہوئیں۔ امراض قلب کے مریضوں کے لئے سٹنٹ کی قیمت پر نمایاں فرق پڑا۔ قبضہ گروپوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ‘لاکھوں ایکڑ سرکاری رقبے واگزار کرائے گئے اور درجنوں مجرم پابند سلاسل ہیں ۔جو کام طاقتور حکمران پانچ سال میں نہ کر سکے ایک منصف مزاج اور دیانتدار جج نے دو سال میں کر دکھائے، پھر بھی عدلیہ کی مداخلت کا گلہ ہے۔شرم تم کو مگرنہیں آتی۔ اگر عدلیہ کی صورت میں محتسب موجود نہ ہو تو عوام کا کیا بنے؟ مافیاز کیا حشرکریں، جن کو حکمران اشرافیہ کی سرپرستی حاصل ہے اور انتظامیہ جن کی سہولت کار۔ پنجاب کی حالت دوسرے صوبوں سے بہتر ہے مگر یہاں بھی دیہی علاقوں میں بنیادی مراکز صحت پر نزلے زکام کی دوائی دستیاب ہے نہ پینے کا صاف پانی اور نہ کسانوں کو خالص زرعی ادویات۔ جنگلات پر وڈیروں نے قبضہ کر کے درخت کاٹ دیے اور سکولوں کی عمارتیں ان کے ڈیرے نہیں جانوروں کے باڑے ہیں۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب گینگ ان وڈیروں کی سرپرستی میں پھل پھول رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔پولیس و انتظامیہ کی چشم پوشی بلکہ ملی بھگت کے بغیر ظلم کا یہ کاروبار ایک دن چل نہیں سکتا ۔اسی باعث ہر ایک کی خواہش ہے کہ عدلیہ حکمرانوں کی تابع مہمل بن کر مافیاز کو من مانی کا موقع دے کہ جمہوریت کے یہ مامے چاچے بھی ان مافیاز کے پروردہ ہیں‘ خوشہ چین اورحصے دار۔ سب کو چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کا انتظار ہے مگر یہ اس طرح کی خوش گمانی ہے جیسی جسٹس سید سجاد علی شاہ‘ جہانگیر کرامت‘ افتخار چودھری‘ جنرل راحیل شریف کی رخصتی کے حوالے سے میاں نواز شریف کو تھی۔ عمران خان کی حکومت بھی اگر نواز شریف کے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ رکھتی ‘ اعظم سواتی ‘ رزاق دائود جیسوں کے بغیر نہیں چل سکتی تو اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے۔ دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے۔