نورِ چشمی بہر زین العابدین باقر امام جعفر صادق کہ دا دہ دین و دنیا را نظام در محبت ہر زماں گوئیم و باشد ورد ما ا لسّلام اے حضرت شاہ خراساں السلام (اے امام (علی رضا علیہ السلام ) آپ زین العابدین اور باقر( علیہم السلام ) کے نورِچشم ہیں اور جعفر صادق (علیہ السلام) کا نورچشم ہیں جنھوں نے دین ودنیا کو منظم کیا ہم ہروقت محبت سے کہتے ہیں اور یہی ہمارا ور د ہے کہ السلام اے حضرت شاہِ خراساں السلام ) اﷲ تعالیٰ نے خاندانِ رسالت کو یہ شرف عطا کیا ہے کہ بغیر کسی انقطاع کے اس عالی قدر خاندا ن میں ایسے اساطین پیدا ہوئے جو علم و فضل ، تقویٰ و طہارت اور امانت ودیانت کے اعتبار سے پوری امت کے ملجاو ماویٰ اور پیشوا تھے اتنی دیر اور دور تک یہ فضیلت کسی اور خاندان کا خاصہ نہیں رہی اگر رہی بھی ہے تو درمیان میں ضرور کمی واقع ہوئی ہے چنانچہ اپنے اپنے عہد کی ان شمس و قمر شخصیات میں سے سیدنا امام علی رضا علیہ السلام کی ذات گرامی اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے آپ سیّدنا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فرزندتھے اور سرورکونین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے آٹھویں جگہ پر تھے آپ (ماہِ ذوالقعدۃ اور دوسری روایت کے مطابق ماہِ ربیع الاول )148ھ میں مدینۃ المنورہ میں پیدا ہوئے اور اسی سال ہی آپ کے جد امجد سیّدنا امام جعفر صادق علیہ السلام نے وصال فرمایا والد گرامی نے ’مامون الرضا ‘نام رکھا اوربعد میں صرف ’رضا ‘کے نام سے مشہور ہوگئے ’ابوالحسن ‘آپ کی کنیت تھی آپ کی والدہ ماجدہ کے بہت سارے نام ہیں جن میں’نجمہ ‘ مشہور ہے اور ان کے نکاح کا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے خواب میں سیدنا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی والدہ کو حکم فرمایا تھا کہ نجمہ کا نکاح اپنے بیٹے موسیٰ( کاظم علیہ السلام ) سے کردو کیوں کہ اس کے بطن سے پیدا ہونے والا بچہ تمام اہل زمین سے بہتر ہوگا اور آپ کی والدہ ماجدہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے کہ جب میرے شکم میں علی رضا (علیہ السلام) کانور جلوہ گر ہوا تو مجھے کوئی درد یا تکلیف محسوس نہیں ہوئی اور جب میں سوتی تو مجھے اپنے شکم سے ذکر الٰہی کی آواز آتی تھی۔ آپ کی تمام تر تعلیم وتربیت والد ماجد نے فرمائی اور جب 35برس کے تھے تو والد ماجد ایک عرصے تک ظلم و قید کی سختیاں جھیلنے کے بعد بغداد میں وصال فرماگئے سیدنا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے حکومت وقت کے عزائم بھانپ لیے تھے اس لیے اپنی زندگی میں ہی بیٹے کو جانشین مقرر کردیا تھا آپ کو سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم کی حکمت و شجاعت ، فصاحت وبلاغت ، زہد تقویٰ اور اپنے جد امجد سیّدنا امام جعفر صادق علیہ السلام کی فراست ، بزرگی ، دانشمندی اور علم و ورع ورثے میں ملے تھے ۔ سیّدنا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اور امیر الاشجعین ، یعسوب المسلمین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کی زیارت کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے فرمایا کہ تمہار ا بیٹا علی اﷲ کے نور سے ہے یہ اس کی حکمتیں بیان کرے گا اس کی رائے صائب ہوگی جس میں خطا نہ ہوگی یہ عالم ہوگا اور اس کی مجلس میں حکماء اور علماء ہونگے آپ کے علم و حکمت اور تدبیر وفراست کا ایک واقع حضرت نورالدین عبدالرحمن جامی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے مایہ ٔ ناز تصنیف ’شواہد النبوۃ‘ میں لکھا ہے کہ ’’ ایک شخص کا بیان ہے کہ میں امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ باغ میں باتیں کررہا تھا کہ ایک چڑیا اچانک زمین پر گر گئی اور بڑی مضطرب ہوکر آہ وفغاں کرنے لگی امام علی رضا علیہ السلام نے مجھ سے دریافت کیا کہ تمھیں معلوم ہے یہ کیا کہہ رہی ہے ؟ میں نے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ اﷲ اس کا رسول اور ابن رسول (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ) ہی بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا یہ کہتی ہے فلاں گھر میں ایک سانپ ہے جو میرے بچوں کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے اس لیے تم جاؤ اور سانپ کو مار ڈالو چنانچہ میں نے اس گھر میں جاکر دیکھا تو سانپ چکر کاٹ رہا تھا جسے میں نے ہلاک کردیا ‘‘ ۔ آپ کی فہم فراست اور کرامات کے متعلق اس طرح کے متعدد واقعات ہیں آپ کا عہد ہارون الرشید اور اس کے بیٹے مامون کا تھا جو اپنی شاطرانہ کارروائیوں اور اہل بیت کے ساتھ کینہ و عناد کی وجہ سے مشہور تھے سرور دوعالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے ان شہزادگان کا ظاہری جاہ وجلال بھی اتنا تھا کہ بادشاہانِ وقت دیکھ کر کانپنے لگ جاتے تھے اس لیے مامون الرشید بظاہر آپ کی بہت زیادہ تکریم کرتاتھا لیکن دل ہی دل میں بغض وعناد اور کینہ و حسد کی آگ سلگائے ہوئے تھا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی وفا ت کے بعد دس برس ہارون زندہ رہا لیکن امام علی رضا علیہ السلام کا اسی طرح بدترین دشمن تھا جس طرح آپ کے والد کا تھا لیکن جب مامون حاکم بنا تو حکومت کے حالات کافی وجوہات کی بناء پر بگڑ چکے تھے اور یہاں تک کہ مامون کو اپنے تخت کا بھی خطرہ تھا اس لیے اس نے کمال عیاری سے کام لیتے ہوئے امام علی رضا علیہ السلام کو ڈھال بنانا چاہا اور آپ کو زبردستی مدینۃ المنورہ سے خراسان بلوایا جب آپ نے مدینۃ المنورہ کو خیر باد کہا تو بہت آبدیدہ تھے اور بار بار اپنے جد اعلیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے دربارِ مبارک پہ جاکر گریہ فرماتے تھے چنانچہ اپنے پانچ سالہ بیٹے حضرت تقی علیہ السلام سمیت تمام اہل وعیال کو چھوڑ کر بھیجے گئے کارندوں کے ساتھ روانہ ہوئے جب دارالسلطنت مرو پہنچے تو وہاں مامون نے آپ سے ملاقات کی اور خلافت کی پیش کش کی جسے آپ نے فوراً ٹھکرا دیا اس کے بعد مامون نے ولی عہدی کی پیش کش کی جسے آپ نے فوراً رد کردیا مامون سیخ پا ہوگیا اور آپ کو قتل کی دھمکی دے کر کہنے لگا کہ اگر ولی عہدی قبول نہیں کریں گے تو آپ کے ساتھ بھی آپ کے والد جیسا سلوک کیا جائے گاحالات کے پیش نظر آپ نے مجبوراً عہدہ قبول کیا مگر ہمیشہ کارسلطنت سے دوررہے کبھی بھی کسی کام میں دخل نہیں دیا اور نہ ہی دلچسپی لی مامون بھی یہی چاہتا تھا کہ میں صرف آپ کا نام استعمال کروں لیکن جب اسے اندازہ ہوگیا کہ میری توقعات غلط تھیں اورکہیں میری حکومت بھی نہ چلی جائے تو وہ امام علی رضاعلیہ السلام کی جان کا دشمن بن گیا اورکھانے میں آپ کو مسموم انگورپیش کیے زہر اتنا تیز تھا کہ آپ فوراً بے ہوش ہوگئے اور بالآخرماہِ صفر 203ھ کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے مامون نے وہیں مشہد میں ہی آپ کو ہارون الرشید کے قریب دفن کرایا اور بعد میں کہا کہ میں نے قریب اس لیے دفن کرایا ہے کہ میرے باپ پر رحمت ہو جب مشہور شاعر مداح اہل بیت دعبل کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے یہ شعرکہا ما ینفع الرجس من قرب الذکی ولا علی الذکی لقرب الرجس من ضرر (رجس (ناپاک)کو پاک کا قرب نفع بخش نہیں اور نہ ہی پاک پر رجس کے قرب سے کوئی نقصان ہے )