اس پر ہمارا یقین ہی نہیں‘ ہمارا عقیدہ ہے کہ سب کچھ من جانب اللہ ہے۔ یقین کی اس پختگی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میرا دین دانش اور دلیل کو نہیں مانتا اور کسی غیبی مدد کا منتظر رہتا ہے۔ میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ توکل کے ساتھ تدبیر کا ہمیں حکم ہے اگر دعا ہے تو دوا بھی سنت ہے۔ دنیائے اسباب میں مدد بھی اسباب سے آتی ہے۔ صفائی اور ستھرائی آدھا ایمان ہے تو اس حکمت کے پس پردہ بچائو کی تدبیر بھی ہے آپ اسے احتیاط کہہ لیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم ہوا میں تیر چلانے کی بجائے اور فضول کی بحث و تمحیث کی بجائے عوامل پر غور کرلیں۔ میں ایک مرتبہ ڈاکٹر حسن البنا کے کہنے پر مولانا مودودی کی کتاب تنقیحات لے آیا اور اس کا چیپٹر سائنس اور مغرب پڑھ کر حیران رہ گیا کہ اللہ نے اس مفسر و مفکر کو کیسا ذہن رسا بخشا تھا کہ معاملے کی تہہ تک وہ پہنچتے ہی نہیں پہنچا بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ سائنس ورسز مذہب ایک مغالطہ ہے۔ عیسائیت کے دور میں جب سائنس نے یلغار کی تو چرچ نے ان سائنس دانوں کو سزائیں دیں۔ جس سے ایک تاثر ابھرا کہ مذہب سائنس سے یا سائنس مذہب سے متصادم ہے۔ مغالطہ یا غلطی یہ ہوئی کہ عیسائیت کی جگہ مذہب لگا دیا گیا آپ اس رویے کو عیسائیت بمقابلہ سائنس کہہ سکتے ہیں۔ سائنس ورسز مذہب نہیں کہ مذہب تو اسلام بھی ہے اور اسلام ہرگز سائنس کو رد نہیں کرتا بلکہ سپورٹ کرتا ہے وہ تسخیر کائنات کا سبق دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام عقل و دانش و دلیل کو مانتا ہے۔ یہ ہمیں سیرت رسولؐ سے بھی ملتی ہے جس کا تذکرہ اکثر لکھنے والے کر چکے ہیں کہ آپ کے دور میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں۔حکم ہوا کہ وبا کے علاقے کو چھوڑا نہ جائے اور نہ وہاں باہر سے کوئی آئے۔ آپ نے کوڑھ کے مریض سے دور بھاگنے کا مشورہ دیا۔ بیت کرنے والوں میں ایک مریض سے آپ نے ہاتھ ملانے سے اجتناب کیا اور اس کی بیعت ویسے ہی قبول کر لی۔ سخت بارش میں حضرت بلالؓ سے اعلان کرنے کو کہا کہ گھر پر ہی نماز ادا کر لی جائے۔ مسئلہ اب یہ ہے کہ رمضان شریف کی آمد پر لوگ تذبذب کا شکار ہو رہے ہیں کہ مسجد میں تراویح پڑھنے جائیں یا گھروں میں ادا کریں یہ درست کہ تصفیہ ہو چکا ہے کہ طے شدہ شرائط کے ساتھ مسجدوں میں باجماعت تراویح ہو گی۔ مثلاً میں یہی پڑھ کر حیران رہ گیا کہ کوئی پچاس سال سے اوپر والا شخص مسجد میں نہ جائے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ پکے نمازی تو ہیں ہی ساٹھ اور ستر سال والے۔ ہمارے نوجوان بھی انہی بزرگوں کو کہتے ہیں کہ ’’تہاڈا اللہ اللہ دا ٹائم اے‘‘ پھر یہ ایمان کی حرارت والے آغاز رمضان میں مسجدوں کو بھر دیتے ہیں جگہ نہیں ملتی اور پھر جوں جوں روزے گزرتے ہیں صفیں کم ہوتی جاتی ہیں اور یہ وہی دو تین یا چار صفحیں ہمارے بزرگوں کی رہ جاتی ہیں اس کے بعد جونہی قرآن ختم ہونے کا وقت آتا ایک مرتبہ پھر ایمان کی حرارت والے شیرینی کھانے پہنچ جاتے ہیں بچوں کی یلغار بھی ہوتی ہے خیر وہ واقعتاً رونق ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک وبا آ گئی ہے جسے میں بھی ایک ڈرامہ سمجھتا تھا مگر غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ بڑے بڑے ملک کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھا چکے ہیں اور مرنے والوں میں صرف ان کے نہیں ہمارے لوگ بھی ہیں۔ اگر سائنس اور طب اس کو ثابت کر چکی ہے کہ یہ وبائی کورونا سماجی فاصلے ہی سے قابو آ سکتا ہے یا اس سے بچا جا سکتا ہے تو اس تدبیر کو اسلام کی سمجھ رکھنے والا کیوں قبول نہیں کرے گا۔ اس میں ضد اور ہٹ دھرمی ناسمجھی ہی سمجھی جائے گی۔ بڑی سیدھی سی بات ہے کہ اس حوالے سے اولی الامر تو طب اور ڈاکٹری کے لوگ ہی ہیں کہ ان کے مشورے سے حاکم وقت کو فیصلہ کرنا ہے۔ لوگوں کی زندگیوں کا سوال ہے۔ اس بات پر کڑھنا نہیں چاہیے کہ اگر کسی عالم نے یہ کہہ دیا کہ رمضان کی تراویح تو ویسے میں بھی ایک نفلی عبادت ہے کہ حضورؐ نے خود اسے نفلوں کے طور پر پڑھا او حضرت عمرؓ کے زمانے میں یہ باجماعت پڑھی جانے لگی۔ دوسری بات یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی جان کی پروا نہیں کرتا تو وہ خودکشی کا مجرم بنتا ہے اور اگر دوسروں کی زندگیوں کو دائو پر لگاتا ہے تو قتل عمد کی طرف جا رہا ہے۔ اس بات پر غصہ کرنے کی بجائے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ان احتیاطی تدابیر میں خدا نہ کرے یہ تھوڑی ہے کہ کوئی نماز کو ترک کر رہا ہے۔ یہ تو وقتی طور پر ہے کہ گھر نماز کروائی جا سکتی ہے۔ مسجد میں نماز ہو مگر رش نہ کیا جائے۔ جیسا کہ اب اس کا اہتمام کیا جا رہا ہے کہ خالی فرش پر نمازیوں کے درمیان دو تین فٹ کا وقفہ اور یہ کہ وہ ماسک پہن کر آئیں۔ گھر سے جائے نماز لائی جا سکتی ہے۔ سینی ٹائزر گیٹ بھی مسجدوں سے باہر آویزاں ہو گئے ہیں۔ یہ سب کچھ اجتماعی کاوشوں ہی سے ممکن ہے۔ یہ موقع ہے کہ علمائے کرام ایک دوسرے کے قریب آئیں اور معاملے کو سمجھیں اور اجتہاد کرتے ہوئے عوام کو مطمئن کریں اور یہی عین اسلام ہے کہ لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ کیا جائے۔ وہ لوگ جو مذہب بے زار ہیں اور بہانے بہانے سے اہل ایمان پر حملہ آور ہوتے ہیں خود ہی اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ اللہ کرے یہ وبا تو آخر ختم ہی ہو جائے گی مگر اس کے بعد مسلمانوں کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپ ٹوڈیٹ کریں۔ مسجدوں کو صرف نمازوں تک ہی محدود نہ کریں بلکہ انہیں سماجی مرکز بنائیں۔ میں برادر ارشاد محمود کے کالم میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارے کچھ مسلمان ممالک نے مسجدوں کے اندر لائبریری سٹڈی روم‘ بیت المال اور دوسرے شعبے بنائے ہیں۔ خدا کے گھر کو اس کی مخلوق کے ساتھ جوڑنے کا اہتمام بہت ثمر بار ہو سکتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر امجد ثاقب نے بھی اخوت کے ضمن میں مسجدوں ہی کو ترجیح دی کہ وہاں سماجی اکٹھ کر کے مواخات کے انداز میں لوگوں کو امداد یا قرض فراہم کیا جائے۔ بعض جماعت والے بھی مسجدوں میں اپنے بچوں اور بچیوں کے نکاح کا اہتمام کرتے ہیں۔ اب بھی جیسے کہ اعتکاف ہوتا ہے۔ مسجدوں میں اگر گنجائش ہو تو وہ قرنطینہ بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی نبی پاکؐ نے فرمایا کہ مومن مسجد سے باہر ایسے ہے کہ جیسے پانی سے باہر مچھلی۔ اس فرمان عظیم کو سمجھنا ضروری ہے کہ مچھلی کی خوراک اور زندگی پانی میں ہے۔ اسی طرح مومن کا اوڑھنا بچھونا اللہ کا گھر ہونا چاہیے۔یہ اسی وقت ہو گا جب لوگوں کے لئے ترغیب ہو گی اور جب لوگوں کو یہاں سے پیار اور محبت ملے گی: ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں فقط یہ بات کہ پیر مغاں سے مرد خلیق