ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ،دینی مدارس کے طلبہ کو تعلیمی بورڈز میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرنے پر گذشتہ دنوں ، وزیر اعظم ہائوس میں انعامات سے نوازا گیا ،اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ انگریزوں نے سوچے ،سمجھے منصوبے کے تحت ہمارا تعلیمی نظام تباہ کیا ، نئے نظام سے مدارس کے طلبہ کو اوپر آنے کا موقع ملے گا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ انگریز کا نظام تعلیم ختم کریں گے۔اس موقع پر انہوںنے تعلیمی اداروں میں ’’اقبالیات‘‘ کا مضمون بھی پڑھانے پر زور دیا، وزیر اعظم کے خیالات سے لگتا ہے کہ وہ آج کل خود بھی اقبال کے افکار سے استفادہ کررہے ہیں ۔ اس نے بہت پہلے کہا تھا : اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم ایک سازش ہے فقط دین مروت کے خلاف وطن عزیز میں دینی تعلیم کا مسئلہ گذشتہ طویل عرصہ سے زیر بحث اور حل طلب رہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف دینی نقطہ نظر سے ہی نہیں ، بلکہ تہذیب وثقافت اور تمدن و معاشرت کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے کروڑوں عوام اسلامی ضابطہ حیات کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ کرنے کے ہمیشہ آرزو مندر ہے ہیں ، لیکن جب تک عملی زندگی کو اس نظام فکر سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہ کیا جائے اس وقت تک اس کے فوائدو ثمرات سے استفادہ ممکن نہیں۔ بلاشبہ جدید عصر ی تناظر اور بین الاقوامی پس منظر میں موجود ہ حکومت اس بات کی متمنی ہے کہ ملک میں مروّج متوازی نظام ہائے تعلیم (سکول ، کالجز اور دینی مدارس ) کے بین موجود فاصلے امکانی حدتک کم کر کے انہیں ہم آہنگ کیا جائے۔ دینی مدارس کو عصر ی تقاضوں سے روشناس کرانے کی کاوشیں محض نظر ی اور فکر ی حدتک گذشتہ کئی عشروں پر محیط ہیں، تاہم ان میں عملی اقدامات کا فقدان رہا ، جس کے سبب نہ تو حکومت اور مدارس کے درمیان اعتمادکا رشتہ قائم ہوسکا اور نہ ہی یہ کاوشیں ثمر بار ہوسکیں۔بحرحال ۔۔۔۔موجودہ حکومت نے ان امور کو عملی راہوں پہ گامزن کر دیا ہے اور اس کیلیے وفاقی وزارت تعلیم اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے درمیان’’ مدرسہ ریفارمز‘‘کے حوالے سے 29اگست 2019ء کو ایک یادداشت پر دستخط بھی عمل میں آچکے ہیں ۔ یہ امر بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دینی مدارس اور اس کا ایجوکیشن سسٹم اپنے اندر بڑی گہرائی اور پختگی رکھتا ہے ۔ نصابِ تعلیم کے حوالے سے یقیناً یہ بات معتبر ہے کہ اسے عصر حاضر سے ہم آہنگ ہونا اور دینی مدارس کے طلبہ کو جدید علمی اور تحقیقی رجحانات سے روشناس ہوناچاہیے ، جس کے لیے دینی مدارس کے اپنے اپنے وفاق اور پھر ان کے اندر ان کی اپنی نصاب کمیٹیاں اور ’’بورڈ آف سٹڈیز ‘‘ہمہ وقت سرگرم عمل رہتے ہیں ، جس طر ح سکول ، کالجز اور یونیورسٹی کے ذمہ داران اپنی کارکردگی اور نتائج بہتر بنانے کے لیے فکر مند رہتے ہیں ، اسی طر ح دینی مدارس میں بھی یہ سوچ اور فکر پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ اور جہاں تک مدارس کے نظام تدریس کا تعلق ہے تو اس کا مقابلہ آپ دنیا کے کسی بھی اعلیٰ سسٹم سے کر سکتے ہیں۔ دینی مدارس کے نظام تدریس میں یہ امر بہت بنیادی حیثیت رکھتا ہے کہ ان کا طالب علم یہ قدرت اور ملکہ پیدا کرے کہ وہ مشکل سے مشکل مضمون اور مغلق سے مغلق عربی عبارت اور کتاب پڑھ سکے اور سمجھ سکے اور اس کے اندر غور وفکر کی صلاحیت مضبوط اور نقد و جرح کی استعداد پیدا ہو، تاکہ وہ اندھوں اور جاہلوں کی طرح نہ ہر چیز کو قبول کرے اور نہ ہر چیز کو رد کر دے ۔ اس میں خود اعتمادی کا ملکہ پیدا ہو، تاکہ وہ محض مقلد اور تابعد ار نہ بنے۔ان مقاصد کے لیے ایسی کتابیں ان کے نصاب میں شامل ہیں جن کی عبارت مشکل ، تراکیب پیچیدہ اور معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جن کو پڑھنے اور سمجھنے میں دِقّت اور دشواری کا سامنا ہو۔ مفہوم متعین کرنے میں شاگر داور استاد کو خوب محنت کرنا پڑے۔ طریقہ تدریس یہ ہے کہ پہلے طالب علم خود اس کتاب کو پڑھتا ، اس کا مفہوم اپنے طور پر متعین کرتا اور اس عبارت پر، اپنے ذہن میں اعتراض وارد کرتا اور پھر اس کا جواب سوچتاہے۔ اس کے بعد جب استاد کے سامنے کلاس میں درس شروع ہوتا تو استاد ہر طالب علم کو بولنے کا موقع دیتا، تاکہ وہ پڑھی ہوئی عبارت کے بارے میں اپنا مفہوم پیش کرے۔ اگر کوئی طالب علم گفت وشنید اور بحث و تمحیص میں حصہ نہیں لیتا تو وہ قبیح اور کند ذہن شمار ہوتا۔ استاد کے سامنے مفہوم متعین کیا جاتا۔ صرفی ، نحوی، عقلی ، فکری تعبیرات و تشریحات ۔۔۔۔۔ الغرض جس قدر بھی اعتراضات اور شبہات اس مفہوم پر وارد ہوسکتے، طلباء اپنے استا د کے سامنے اس کو پیش کرتے، استاد ان سب کا جواب دیتا ۔ اس ذہنی ورزش کا سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا ۔ جب تک پوری طرح طلبا مطمئن نہ ہوں، تدریس کا سلسلہ ختم نہ ہوتا ۔ استاد اپنی جگہ نہیں چھوڑتا ، درس یا پیریڈ ختم ہوجانے کے بعد طلبا نئے سبق کے لیے دوسرے استاد کے پاس جاتے ، جو اس امر کا غماز ہے کہ اس نظامِ تدریس میں استاد کا مقام کس قدر ارفع واعلیٰ ہے۔ دوپہر تک باقاعدہ تدریس اختتام کو پہنچتی ۔ استاد رخصت ہوتا، لیکن طالب علم ظہر کے بعد صبح کے پڑھے ہوئے اسباق کا اعادہ کرنے بیٹھ جاتے۔ اعتراضات، شبہات اور جوابات سب کو دہراتا ۔ طالب علم آپس میں مذاکر ہ کرتے۔ گویا ایک سبق تین مرحلوں سے گذرتا۔ ایک دفعہ طالب علم استاد کے پڑھانے سے پہلے ، سبق از خود پڑھتا ، دوسری دفعہ استاد کے سامنے اور تیسر ی دفعہ اعادہ کی صور ت میں۔ اس طریقہ تدریس سے طالب علم کے اندر مشکل ترین عبارت اور کٹھن ترین مضمون کو سمجھنے کی صلاحیت کا پید ا ہونا ایک فطری بات ہے۔ دینی مدارس کے طلباء میں غور وفکر کرنے اور ردّ قبول کا ملکہ عام طالب علموں کی نسبت زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس طریقہ تدریس کے سبب طلباء میں اظہار بیان پر قدرت اور قوت گویائی ۔۔۔۔بلکہ سب سے بڑھ کر دینی مدرسہ کے طالب علم کے اندر ایک طر ح کی خود اعتمادی پیداہوجاتی ہے جو سات آٹھ سال کی اس تدریسی مشق کا نتیجہ ہے ، جس کے سبب زندگی بھر وہ تحصیل علم کے راستے میں کسی بھی کٹھن مرحلہ سے نہیں گھبراتا ۔ یہ ہے وہ نظام تدریس …جس کا مقابلہ شاید دنیا کا کوئی اور ایجوکیشن سسٹم نہ کرسکتا ہو ۔ بد قسمتی سے یہ طبقہ نظر انداز ہوا جس کے سبب مدارس کے طلباء میں ان محرومیوں نے بھی جنم لیا ، تاہم موجودہ حکومت نے دینی مدارس کے طلباء کی محرومیوں کے ازالے کی طرف بھر پور انداز میں توجہ کی ہے۔وزیر اعظم ہائوس میں منعقدہ یہ تقریب اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ۔ قبل ازیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سرکردگی میں بھی ایسی ہی ایک تقریب جی ایچ کیو میں بھی منعقد ہوچکی ہے ۔ جس میں طلبہ کو انکی حسن کارکردگی پر انعامات و اعزازات دئیے گیے ہیں۔یہ عطائیگی امیداور روشنی کی وہ کرن ہے، جس سے مستقبل کے علماء قومی سطح پر روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کے صحیح تشخیص کو اجاگر کرنے کا فریضہ زیادہ موثر انداز میں اداکرسکیںگے۔