پندرہ مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں قتل عام محرکات سب کے سامنے ہیں، عالمی برادری نے اس سانحہ پر جس ذمہ دارانہ ردعمل کا اظہار کیا وہ یقینا قابل ستائش ہے، ہم اس سانحہ عظیم کو نائن الیون اور عالمی دہشت گردی کے تسلسل اور تناظر میں دیکھ سکتے ہیں، نیو یارک میں ہونے والے سانحہ کے بعد اس وقت کے صدر امریکہ جارج بش نے امریکی قوم سے اپنے پہلے خطاب میں پہلی بار لفظ استعمال کیا،CRUSADE کئی یورپی ،مغربی اور عرب ممالک نے نائن الیون کو صلیبی جنگوں سے جوڑنے پر جارج بش پرسخت تنقید کی تھی، لیکن نائن الیون میں ہلاک ہونے والے تین ہزار سے زائد لوگوں کی میموریل سروس میں صدر بش نے دوبارہ یہی لفظ استعمال کیا، میں اس خطرناک لفظ کے معانی کی گہرائی تک جانتا تھا اور چاہتا تھا کہ صدر بش دنیا کو جو پیغام دینا چاہتے ہیں اس سے پاکستان کے ایک ایک شخص کو آگاہ ہونا چاہیے، لیکن وقت کے میڈیا نے شاید ایکا کر لیا کہ اس لفظ کو سنسر کر دیا جائے، اور اس طرح یہ لفظ کسی ایک بھی پاکستانی اخبار میں شائع نہیں ہوا تھا، اس لفظ کی تفسیر اس رات سامنے آگئی جب افغانستان میں گرایا جانے والا ایک ایک بم کئی کئی ٹن کا تھا، اور اس بمباری میں کتنے لوگ مارے گئے یہ بتانے کے لئے بھی کوئی ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچا تھا، نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد نور اور مسجد لنوڈ ایونیو میں جن بندوقوں سے پچاس مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران شہید کیا گیا، ان بندوقوں پر کچھ فقرے بھی لکھے ہوئے تھے اور ان فقروں میں ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا جنہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں اس سے پہلے حملے کئے، جنہوں نے تارکین وطن کو ہلاک کیا ، جنہوں نے لوگوں کو اغوا کرنے کے بعد انہیں مار دیا، جنہوں نے کبھی کسی مسلمان ملک میں تشدد کو فروغ دیا اور جنہوں نے ماضی بعید میں مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں انہیں شکست دی نیوزی لینڈ کی پر امن سر زمین پر انتہائی سفاکانہ دہشت گردی کرنے والے چار انتہا پسندوں کا سردار اٹھائیس سال کا برینٹن ٹیرنٹ تھا جو آسٹریلوی شہری ہے اس کے ہاتھوں میں دو پستول تھے اور اس نے ان دونوں پستولوں سے پہلے مسجد نور میں دس نمازیوں کو شہید کیا اور پھر دوسری مسجد میں جا کر چالیس کے قریب نمازیوں کی جان لی، ان دونوں حملوں میں پچاس کے قریب ہی لوگ زخمی بھی ہوئے اور شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔اس سانحہ میں دو پاکستانی بھی شہید ہوئے۔ راشد اور ان کے بیٹے طلحہ کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا۔ ان دو باپ بیٹوں نے جرأت مندی کی نئی تاریخ رقم کی۔ وہ حملہ آور کے قریب پہنچ گئے اور فائرنگ رکوانے کی کوشش کی۔ لوگوں کو بچانے کے لیے انکے ہاتھ حملہ آوروں تک چلے گئے۔ یہ دو شہادتیں پاکستان کا اعزازرہیں گیں۔ کرائسٹ چرچ دہشت گردی میں چار پاکستانی زخمی ہوئے اور پانچ لاپتہ ہیں، اللہ کرے کہ ان کے لواحقین کوئی بری خبر سننے سے محفوظ رہیں۔ ٭٭٭٭٭ آج دنیا بدل چکی ہے لیکن عالمی دہشت گرد نہیں بدلے، ان کا فلسفہ نہیں بدلا، آج بھی دنیا کے چند ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اسکولوں کے نصاب میں صلیبی جنگوں کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے، سانحہ نیوزی لینڈ کے مرکزی ملزم برینٹن ٹیرنٹ نے حملے کے وقت جو جیکٹ پہن رکھی تھی اس پر اس جنگ کا بھی حوالہ تھا جس میں اندلس کے حاکم امیر عبدلرحمان نے فرانس پر حملہ کیا تھا ، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ کے موجودہ صدر کو ،آسٹریلیا کی وزیراعظم کو اور دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں کو اس دہشت گردی کیخلاف ایک مشترکہ بیان جاری کرنا چاہئے اور اس نکتے کو خاص طور پر اجاگر کرنا چاہئے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا کیونکہ یہی سب سے بڑی سچائی اور سب سے بڑی حقیقت ہے۔ یہ دیکھ کر اور سن کر بہت افسوس ہوا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سانحہ کرائسٹ چرچ کی مذمت میں صرف گنے چنے اور محتاط الفاظ ہی استعمال کئے۔انہوں نے نیوزی لینڈ وزیراعظم کو فون کر کے پوچھا۔ میں اس سانحہ میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں تو وزیراعظم نے جواب دیا۔ کوئی مدد کرنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے لیے ہمدردی کے دو بول بول دیں اور فون کٹ گیا۔ ٭٭٭٭٭ اب تھوڑا سا ذکر پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر اسد منیر کی خود کشی اور جائے وقوعہ سے ملنے والے اس خط کا جو انہوں نے پنکھے سے لٹکنے سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام لکھا، خط کے متن کے مطابق انہوں نے نیب کے خوف سے خود کشی کی، اسد منیر فوج کے انٹیلی جنس ادارے کے پشاور میں ڈائریکٹر بھی رہے، انہوں نے خود نیب میں بھی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل سپیشل انویسٹی گیشن ونگ کی حیثیت سے کام کیا۔ خود کشی کرنے والے اسد منیر سن دو ہزار چھ سے سن دو ہزار دس تک سی ڈی اے میں ممبر اسٹیٹ کے عہدہ پر بھی فائز رہے، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سی ڈی اے میں نوکری کے دوران ایک پلاٹ بحال کرنے کی سفارش کی تھی اور انکی سفارش پر چیرمین نے وہ پلاٹ بحال کر دیا تھا، اسد منیر نے مبینہ خودکشی سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام جو چٹھی لکھی اس کے اہم نکات یہ ہیں…نیب کے کچھ افسر لوگوں کی عزتوں اور زندگیوں سے کھیل رہے ہیں،، میرے خلاف تین مقدمات میں تفتیش کا حکم جاری کیا گیا ہے،،،،میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہے،میری زندگی اجیرن کر دی گئی ہے، اس سے پہلے کہ نیب والے مجھے ہتھکڑیاں لگا کر میڈیا کے سامنے پیش کریں، میں اپنی زندگی کی قربانی دے رہا ہوں… اس وقت حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں نیب سے خوفزدہ ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے نام لکھے گئے خود کشی کرنے والے ریٹائرڈبریگیڈیئر کا خط اگر سچائی پر مبنی ثابت ہوجاتا ہے تو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے پاس سنہری موقع ہوگا اس ادارے کے مستقبل کے فیصلے کا۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب کے فارغ شدہ وزیر اطلاعات اور ثقافت فیاض الحسن چوہان نے وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر استعفیٰ دینے کے بعد لگتا ہے کہ اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، ایکٹنگ کو خیر انہیں پہلے بھی بہت آتی ہے، رہی سہی کسر اسٹیج کی وہ اداکارائیں پوری کر دیں گی ،جن کے بارے میں موصوف نے ثقافت کا وزیر بنتے ہی نا زیبا گفتگو کی تھی، دو تین دن پہلے میں نے ٹی وی دیکھتے ہوئے چینل بدلنے شروع کئے تو اچانک اداکارہ میگھا کسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دکھائی دیں، میرے ہاتھ رک گئے اور میں نے میگھا کا خطاب سننا شروع کر دیا، وہ فیاض الحسن چوہان کے حق میں دلائل دے رہی تھیں، ان کا فرمانا تھا کہ عمران خان صاحب نے چوہان صاحب سے وزارت چھین کر ثقافت کو خطرے میں ڈال دیا ہے انہیں ان کے منصب وزارت پر بحال کیا جائے ، کیونکہ وہ فن اور فنکاروں کو چاند ستاروں تک لے کر جا سکتے ہیں۔میگھا کے بعد شیبا بٹ آئیں ،روبی انعم نے بھی فن خطابت کا مظاہرہ کیا ، سب کا مطالبہ ایک ہی تھا` چوہان کو واپس لاؤ۔ تقریب کے آخر میں فیاض الحسن چوہان اسٹیج پر تشریف لائے، لہجہ خلاف معمول بہت عاجزانہ تھا، انہوں نے میزبان خاتون اداکاراؤں کا شکریہ ادا کیا اور یہ بھی کہا کہ خود وزیر اعظم کا حکم تھا جس پر لبیک کہتے ہوئے میں مستعفی ہو گیا، ورنہ… اگر…اور پردہ گر گیا…