سیّدنا امام محمد المھدی علیہ السلام کے حوالے سے مختلف اعتقادی فتنے ہماری تاریخ میں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ جن میں ایک یہ بھی تھا کہ امام محمد المہدی ۔ نام کی کوئی معین شخصیت نہ ہے، بلکہ ہر دور میں ایک امام مہدی ہوتا ہے، جولوگوں کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتارہا ہے۔ اس خیال اور نظریے کے پیشِ نظر بہت سے لوگ اپنے آپ کو تاریخ کے مختلف ادوار میں ’’المھدی‘‘ خیال کرتے رہے۔ جبکہ دوسری طرف کثیر احادیث، جن میں متواتر اور مرفوع درجے کی بھی شامل ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دھلوی نے ’’التفہیمات الالٰہیہ‘‘ میں تحریر کیا کہ نبی اکرم ﷺکی ذاتِ اقدس سے تین طرح کی وراثتیں جاری ہوئیں: ایک وہ ،جنہوں نے آپ سے حکمت و عصمت اور ’’قطبیتِ باطنی ‘‘کا فیض حاصل کیا ، وہ آپ کے اہلِ بیت اور خواص ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے آپؐ سے حفظ وتلقین اور رشدو ہدایت سے متصف ’’قطبیت ظاہری‘‘ کا فیض حاصل کیا، وہ آپؐ کے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے خلفائے اربعہ اور عشرہ مبشرہ ہیں، اور تیسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے انفرادی عنایات اور علم و تقویٰ کا فیض حاصل کیا ، یہ وہ اصحاب ہیں ، جو احسان کے وصف سے متصف ہوئے، جیسے حضرت انسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ اور ان کے علاوہ دیگر متاخرین۔ یہ تینوں مدارج حضور نبی اکرمﷺ کے ’’ کمالِ ختمِ رسالت و نبوت‘‘ سے جاری ہوئے اور یقینا یہ تقسیم نبی ﷺ کے اہلِ بیت اور صحابہ کرام ؓکے غلبہ حال اور خصوصی امتیاز و اعزاز کی نشاندہی پر مبنی ہے ،وگرنہ ہر سہ طبقات میں سے کوئی بھی دوسرے طبقات کے اوصاف و کمالات سے کلیۃً خالی نہ ہے اور ان میں سے ہر ایک کو دوسروں کے ساتھ کوئی نہ کوئی نسبت یا اشتراک میسر رہا۔ حضرت شاہ ولی اللہ ’’ التفہیماتِ الہٰیہ‘‘ ہی میں تحریر کرتے ہیں ، ’’ اس امتِ مرحومہ میں’’ فاتح اوّل‘‘یعنی ولایت کا دروازہ سب سے پہلے کھولنے والی ہستی حضرت علی المرتضیٰؓ ہیں‘‘ مزید یہ ک حضرت امیر کا رازِ ولایت آپ کی ا ولادِ کرام میں سرایت کر گیا۔ اب امت میںجسے ہی بارگاہِ رسالت سے فیضِ ولایت نصیب ہوتا ہے ، وہ یاتو نسبتِ علی المرتضیٰ ؓسے ہوتا ہے ، یا نسبتِ غوث الاعظم جیلانی سے ۔ ان کے بغیر کوئی شخص مرتبہ ولایت پر فائز نہیں ہوسکتا۔ یہ فیضِ ولایت۔ کہ امتِ محمدی میں جِس کے منبع و سرچشمہ سیّد نا علی المرتضیٰ ؓ مقرر ہوئے اس میں سیّدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ اور حضرات حسنین کریمین ؓ بھی آپ ؓ کے ساتھ شریک کئے گئے ہیں ، اور پھر اُن کی وساطت سے یہ سلسلئہِ ولایتِ کبریٰ اور غوثیتِ عظمیٰ اُن بارہ ائمہ اہلِ بیت میں ترتیب سے چلایا گیا جِن کے آخری فرد سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام ہیں۔جِس طرح سیّدنا مولا علی المرتضیٰ ؓامتِ محمدیؐ میں ’’فاتحِ ولایت‘‘ کے درجہ پر فائز ہوئے، اسی طرح سیّدنا امام مہدی امتِ محمدی ؐمیں ’’خاتمِ ولایت‘‘ کے درجہ پر فائز ہونگے۔ کتب احادیث میں ’’مادہ ہدایت ‘‘ کے بکثرت استعمال کے ساتھ ساتھ ’’المہدی‘‘ کا لفظ بھی متعدد مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ احادیث میں خلفائے راشدین کے لیے بھی ’’المہدیین‘‘ کا لفظ لکھا اور بولا جاتا ہے اور ’’عَلَیکُم بِسنُنَّتِی وسُنۃِ الخُلفَائِ الرَاشِدِین المَہدِیِّین‘‘کا استعمال بکثرت ہوتا ہے ۔ جِس کا معنی یہ ہے کہ تم پر لازم ہے کہ میرے اور میرے خلفائے راشدین کے طریقے کو اختیار کرو۔ تاہم اپنے خصوصی اصطلاحی مفہوم میں اس سے مراد ، مابعد زمانے کی ایک ایسی شخصیت ہے ، جو مسلمانوں کے سیاسی اور مذہبی انحطاط کے زمانے میں اسلام کی تبلیغ و تجدید، نشاۃ ثانیہ اور دینی و مذہبی کے ساتھ سیاسی و مادی غلبہ کا ذریعہ بنے گی ۔ جیسا کہ امام الحاکم نے المستدرک میں اور ابوداؤد نے اپنی سُنن میں حضرت ابوسعید الخذری سے روایت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا : مہدی مجھ سے ہوں گے، (یعنی میری نسل سے ہوں گے) ان کا چہرہ خوب نورانی ، چمکدار اور ناک ستواں و بلند ہوگی۔ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جِس طرح پہلے وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی۔ (مطلب یہ کہ امام مہدی کی خلافت سے پہلے ، دنیا میں ظلم و زیادتی کی حکمرانی ہوگی ، اور عدل و انصاف کا نام ونشان تک نہ ہوگا، وہ سات سال تک، بادشاہت (خلافت) کریں گے ۔اسی طرح ابو داؤد ہی نے ، ایک اور مقام پر، روایت کی ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ نے اپنے بیٹے حسن کو دیکھ کر فرمایا :’’ بے شک میرا یہ بیٹا سردار ہوگا ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسکا نام رکھا ہے اور عنقریب اس کی نسل سے ایک ایسا شخص پیدا ہوگا ، اور اس کا نام تمھارے نبی کے نام پر ہوگا، وہ صورت میں مشابہ نہ ہوگا پھر حضرت علیؓ نے قصہ بیان فرمایا کہ وہ زمین کو عدل سے بھر دیگا۔‘‘ابنِ ماجہ نے سُنن ابنِ ماجہ ’’ کتاب الفتن ‘‘ باب خروج المہدی میں روایت کیا ہے کہ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خود فرماتے سنا ہے : ’’ہم عبد المطلب کی اولاد اہلِ جنت کے سردار ہوں گے ، یعنی میں (نبی اکرم ﷺ)حمزہ (سیّد الشہدأ، حضرت امیر حمزہؓ)علی (حضرت علی المرتضیٰ ؓ)جعفر( حضرت جعفرطیار ؓ)حسن( حضرت امام حسن المجتبیٰ )حسین( حضرت امام حسین سیّد الشہدأ) اور امام مہدی منتظر علیہ السلام۔‘‘ مذکورہ روایات کا ذکر امام ابوداؤد ، امام ترمذی اور امام ابنِ ماجہ نے اپنے کتبِ احادیث ، جنکا شمار صحاحِ ستّہ میں ہوتا ہے ، مستقل ابواب اور عنوانات کے تحت کیا ہے، عامۃ’ الناس میں بھی ’’المہدی‘‘ کا عقیدہ اور تصور نہایت مضبوطی سے راسخ ہیں، جِس کے سبب دین کا احیا اور حکومتِ اسلامیہ کا مضبوط اور مستحکم قیام ممکن ہوگا، یہ ہستی نبی اکرم کے خانوادے سے ہوگی ، جِس کی پیروی میں تمام مسلمان اکٹھے ہوجائیں گے، اُن کے ظہور کے بعد حضرت عیسیٰ نزول فرمائیں گے، امام مہدی کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے، دجال قتل ہوگا، اور روئے زمین پر اللہ کے دین کا غلبہ ہوگا۔ جِس کا واضح اشارہ قرآنِ پاک کی سورۃ الصّفّ کی آیت 9، التوبہ کی آیت 33اور سورۃ الفتح کی آیت 28میںبھی موجود ہے:’’کہ وہی (اللہ) ہے،جس نے اپنے رسول(ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (ﷺ)کو ہر دین پر غالب کر دے، اگرچہ مشرکین کو بُرا لگے۔‘‘ جبکہ سورۃ الفتح میں ’’اللہ ہی گواہ کافی ہے‘‘ کے الفاظ ہیں۔ امام حاکم نے المستدرک میںحضرت ابوسعید خذری سے روایت کیا کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی، جب تک کہ زمین ظلم و جور اور سرکشی سے بھر نہ جائے، بعد ازاں میرے اہلِ بیت سے ایک شخص (مہدی) پیدا ہوگا ، جو زمین کو عدل وانصاف سے بھردے گا، مطلب یہ کہ خلیفہ مہدی کے ظہور سے پہلے قیامت نہیں آئے گی ۔اسی طرح امام حاکم ہی نے حضرت امِ سلمیٰ ؓ سے روایت کیا کہ رسول للہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے ایک شخص (مہدی) کی رکنِ حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان اہلِ بدر کی تعداد (313) افراد کی مثل بیعت کی جائے گی ، بعد ازاں اس امام کے پاس عراق کے اولیاء اور شام کے ابدال (بیعت کے لیے ) آئیں گے۔