آپ اس کا نام ارسلان فرض کرلیں۔اس کے بعداس کی کہانی سنیں۔اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ ارسلان سے میرا تعلق غائبانہ ہر گز نہیں کیونکہ ایک دوبار ہماری ملاقات ہوچکی ہے البتہ براہ راست تعلق کوئی نہیں ہے کیونکہ وہ گزشتہ آٹھ سالوں سے میری ہمشیرہ عالیہ ممتاز کے زیر علاج ہے۔ اس سے یہ اندازہ نہ لگایئے کہ اسے کوئی سنگین مرض لاحق ہے۔دراصل عالیہ ممتاز ایک کامیاب ریکی ماسٹر ہیں۔ریکی قدیم جاپانی طریقہ علاج ہے اور پاکستان میں پچھلے ایک عشرہ سے اس کی گونج سنی جارہی ہے۔ اس طریقہ علاج میں دوائیوں کی ضرورت پڑتی ہے نہ مہنگے ٹیسٹ کروانے کی حاجت۔اسی لئے اکثر لوگ اس پہ اس وقت تک یقین نہیں کرتے جب تک نتائج ان کے سامنے نہ آجائیں۔وجہ وہی ہے کہ انسان سبب پہ بھروسہ کرتا ہے ۔سبب بھی وہ جو دکھائی دیتا ہے۔دوائیاں، الٹرا ساونڈ اور ایکسرے رپورٹ اور مہنگی فیس نظر آتی ہے، ریکی نظر نہیں آتی۔ چونکہ نظر نہیں آتی اس لئے یہ نظر نہ آنے والے امراض جیسے ڈیپریشن، مایوسی اور دیگر نفسیاتی مسائل سمیت ایسے معاملات سے بھی نمٹ لیتی ہے جنہیں عرف عام میں اثرات ، آسیب اور نظر بد کہا جاتا ہے۔ارسلان ایسے ہی مسائل سے دوچار تھا جب اس نے بذریعہ ای میل عالیہ ممتاز سے رابطہ کیا۔ آپ یہ مت سمجھئے کہ وہ کوئی وہمی، دقیانوسی یا کم تعلیم یافتہ نوجوان ہے۔ایسا ہوتا تو وہ کسی جعلی عامل کے ڈیرے پہ جنات اتروانے کے واسطے کالے بکرے اور سفید مرغ کی کلیجی کی بھینٹ چڑھاتا پایا جاتا۔وہ کراچی کے ایک اعلی تعلیم یافتہ خاندان کا اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہے۔اس کے والد بھی ایک نجی انجینئرنگ یونیورسٹی سے پروفیسر ریٹائر ہوئے۔اس نے سندھ انٹرمیڈیٹ بورڈ میں پوزیشن حاصل کی اور این ای ڈی کا کوالیفائیڈ انجینئر ہے۔اس نے جس وقت ای میل کی وہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں اسکالرشپ پہ گیا ہوا تھااور تاحال وہیں مقیم ہے۔ انتہائی ذہانت او ر اعلی تعلیم کے باوجود وہ آج تک اپنی عملی زندگی میں سیٹل نہیں ہوسکا۔اور یہی اس کا مسئلہ تھا جس کے لئے اس نے رجوع کیا تھا۔وہ جس کا م میں ہاتھ ڈالتا،وہ الٹا پڑ جاتا۔ایسے ذہین نوجوان کے لئے نوکری کیا مسئلہ ہوسکتی تھی لیکن وہ جہاں اپلائی کرتا وہاں اس سے کم میرٹ والا اس کا منہ چڑاتا اس کی مطلوبہ پوسٹ پہ براجمان ہوجاتا۔ پاکستان سے امریکہ تک اس کے ساتھ ہر بار یہی ہوا۔ تنگ آکر اس نے کاروبار کرنے کی ٹھانی۔اس میں بھی ناکام رہا۔ایک بار دوران علاج اسے مناسب نوکری مل گئی لیکن وہاں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ا س کی چینی کولیگ نے اس پہ جنسی ہراسانی کا جھوٹا الزام لگا دیا اور اسے نوکری سے فوری طور پہ برخاست کردیا گیا۔ اس نے اپنی معالج کے مشورے پہ کمپنی کے خلاف کیس کردیا جو وہ جیت گیا اور اس پہ سے نوکری کے لیے پابندی اٹھا لی گئی لیکن ملازمت پہ وہ بحال نہ ہوسکا۔ اس نے کولمبیا یونیورسٹی میں اسکالرشپ کے لئے اپلائی کیا اور میرٹ پہ ہونے کی وجہ سے فوری طور پہ منتخب ہوگیا۔یہ اس کی زندگی کا روشن ترین دن تھا لیکن اس کے والد ین چاہتے تھے کہ وہ پاکستان آجائے اور یہیں کوئی ملازمت کرے۔ اس نے اپنی خواہش ترک کی اور کولمبیا یونیورسٹی کی سکالر شپ چھوڑ کر پاکستان چلا آیا جہاں اس کے والد نے اسے کاروبار کے لئے اپنی ریٹائرمنٹ سے ملنے والی رقم فراہم کی۔اس دوران اس نے جان ہاپکنز یونیورسٹی میں اسکالرشپ کے لئے درخواست دے رکھی تھی جہاں سے ڈگری لینا اس کا خواب تھا۔ اسے اسکالر شپ مل گئی اور وہ کاروبار کا خیال چھوڑ کر واپس امریکہ چلا آیا جہاں آج کل وہ اسکالرشپ کے ساتھ ٹیکسی چلا رہا ہے۔اگر آپ اس کی کہانی سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ کوئی لاابالی نوجوان ہے جو درست وقت پہ درست فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو یقین کیجیے میں نے اس سے زیادہ کمپوزڈ، منظم اور محنتی نوجوان اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اس کا حال یہ ہے کہ جب اسے لڑکی پسند آئی تو اس نے اس سے وہ سوال کیا جو عام طور پہ ملٹی نیشل کمپنیاںاپنے درخواست گزاروں سے کرتی ہیں۔یعنی آپ خود کو اگلے پانچ سالوں میں کہاں دیکھتے ہیں۔اس معصوم نے جواب دیا کہ آپ کے ساتھ۔ جو اسے اتنا غیر عملی اور احمقانہ لگا کہ اس نے رشتے سے انکار کردیا۔اس کی لکھی ہوئی ای میل عام طور پہ تین رنگوں سے مزین ہوتی ہے۔سرخ سبز اور نیلی۔مسئلہ وہ سر خ رنگ میں بیان کرتا ہے۔اس کا مطلوبہ حل سبز رنگ میں اور نیلا رنگ اس کے نتائج و عواقب کے لئے مخصوص ہے۔وہ اصول کا اتنا پکا ہے کہ محض مشورہ کرنے پہ فیس بھجوا دیتا ہے اور اس نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔وہ early to bed and early to rise پہ سختی سے کاربند ہے اس کے باوجود نہ وہ healthy ہے نہ wealthy۔امریکہ میں عرصہ دراز سے مقیم ہونے کے باوجود اس میں کوئی اخلاقی عیب نہیں ہے۔ نہ وہ شراب پیتا ہے نہ جوا کھیلتا ہے۔ایک رات یہ اعلی تعلیم یافتہ، ذہین اور بااصول نوجوان امریکا کی سڑکوں پہ ٹیکسی چلا رہا تھا کہ اسے کمپنی سے ہدایت موصول ہوئی کہ اسے بھارت سے آئے کسی معزز مہمان کے لئے ڈرائیور کے طور پہ تین دن کے لئے بک کرلیا گیا ہے ۔ وہ معزز مہمان کو ریسیو کرنے ہوٹل پہنچا تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگیا کہ وہ کوئی اور نہیں،اس کا پسندیدہ عالمی شہرت یافتہ آسکر ایوارڈہولڈر میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمان تھا۔ وہ تین دن اے آر رحمان کے ساتھ رہا۔اسے اس بے بدل موسیقار نے جس کی انگلیوں پہ دل رقص کرتے ہیں،بتایا کہ وہ تو غربت کے باعث کبھی پڑھ ہی نہ سکا۔اسے اسکول سے نکال دیا گیا۔بعد ازاں موسیقی کی بنیاد پہ اسے مدراس کرسچن کالج میں داخلہ مل گیا لیکن وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ بوسٹن میں برکلے کالج آف میوزک سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لیکن حالات نے اسے مہلت نہ دی۔بالآخر اسے 1992 میں موقع ملا اور اس نے برکلے اسکالر شپ حاصل کرلی لیکن تب ہی اسے فلم روجا کی موسیقی ترتیب دینے کی آفر ہوئی۔ایک طرف اس کا برسو ں کا خواب تھا تو دوسری طرف یہ فلم جو اس کا کیرئیر بنا بھی سکتی تھی اور بگاڑ بھی۔اس نے رسک لیا اوراسکالرشپ چھوڑ کر روجا کا انتخاب کیاجو اس کا ڈیبو ساونڈ ٹریک البم تھا۔میوزک ہٹ ہوگیا۔وہ اے آر رحمان بن گیا۔برکلے کالج آف میوزک نے 2014 میں اے آر رحمان کو موسیقی کی اعزازی ڈگری دینا اپنا اعزاز سمجھا۔وہ اے آر رحمان جو بچپن میں یتیم ہوگیا۔جس کا خاندان اس کے باپ کے آلات موسیقی کرائے پہ چلا کر دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتا رہا۔جسے ناموافق حالات نے پڑھنے نہیں دیا لیکن جو اے ایس دلیپ کمار سے اے آر رحمان بنا اور دنیائے موسیقی پہ چھا گیا اور این ای ڈی یونیورسٹی کا انجینیر اور ہاپکنز یونیورسٹی کا اسکالر شپ ہولڈر ارسلان اس کی ڈرائیوری کرتا رہا۔