کل سترہ جنوری کا سرد دن تھا۔ اس دن سندھ کے قوم پرست اور ترقی پسند حلقوں میں ایک طرف خوشی منائی جاتی ہے اور دوسری طرف آنسو بہائے جاتے ہیں۔ سترہ جنوری کا دن وہ دن تھا جس دن اس جی ایم سید نے جنم لیا تھا جو آخری ایام میں تو قوم پرست بن گئے تھے مگر ان کی پہچان صرف جیئے سندھ نہیں ہے۔ یہ وہ شخص تھے جنہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں جوانی کے سیاہ بال سفید کیے۔ یہ وہ شخص تھے جنہیں قائد اعظم سے والہانہ محبت تھی۔ انہوں نے خود اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ وہ ایک بار سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں قائد اعظم پر حملہ ہونے کی اطلاع ملی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ افواہ بھی عام ہوگئی کہ قائد اعظم حملے کے نتیجے میں اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ جی ایم سید لکھتے ہیں کہ یہ خبر سن کر میں روتے روتے ہوش کھو بیٹھا۔ یہ جی ایم سید ہی تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے دوران بھارت سے آنے والے مہاجروں کے لیے سندھ کے ہر اسٹیشن پر میزبان کھڑے کیے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈ تھے ؛ ان پرسندھی میں لکھا ہوا تھا’’بھلی کرے آئیں منہنجا مسلمان بھا‘‘ یعنی’’ خوش آمدید میرے مسلمان بھائی‘‘ اس شخص نے پھر اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ملک کے خلاف بغاوت کا نعرہ کیوں لگایا؟ اس پر ہم پھر کبھی بات کریں گے۔ اس وقت تو ہم اس جی ایم سید کا تذکرہ کر رہے ہیں جو صرف ایک سیاستدان نہیں تھے۔ وہ اعلی پائے کے محقق اور ادیب تھے۔ پچاس سے زیادہ کتابوں کے مصنف نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ سندھ کو علم اور ادب سے منور کریں۔ کل اس شخص کی 115 سالگرہ تھی جس شخص نے جب 91 برس کی عمر میں 1995ء کے دوران آخری سانس لی تھی اس وقت سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکمرانی تھی اور جی ایم سید وقت بھی قیدی تھا۔ اس وقت بھی ان کے وارڈ کے باہر پولیس والے کھڑے تھے۔ سترہ جنوری کا دن سندھ میں سوچنے اور سمجھنے کا دن ہوتا ہے کہ آخر تاریخ کی دھارا تبدیل کیوں ہوجاتی ہے؟اس دن جی ایم سید کے زیر اثر سندھ کے نوجوان سیوہن کے قریب ان کے آبائی گاؤں سن میں ان کی سالگرہ کا کریک کاٹتے ہیں اور خوشیوں مناتے ہیں۔ سندھ میں سترہ جنوری کے دن صرف خوشیوں بھرے نعرے نہیں لگائے جاتے۔ اس دن بدین کے قریب واقع شہر راہوکی میں مرحوم رسول بخش پلیجو کے ساتھی اور تحریک برائے بحالی جمہوریت میں ناقابل فراموش کردار ادا کرنے والے فاضل راہو کی برسی بھی بنائی جاتی ہے۔ وہ بھی سترہ جنوری کا دن تھا جب برسوں کے بعد جیل سے آزاد ہوکر آنے والے کسانوں کے رہنما کو 1987ء میں سرعام قتل کیا گیا۔ سندھ کے ترقی پسند حلقوں میں آج تک اس بات پر مباحثے ہوتے ہیں کہ وہ عوامی تحریک جو ایک عرصے کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کا نعم البدل بن کر ابھر رہی تھی وہ آخر کیوں بیٹھ گئی؟ اس کا سبب بیان کرتے ہوئے سیاسی نقاد یہ کہتے ہیں کہ عوامی تحریک کی اصل روح فاضل راہو تھے۔ رسول بخش پلیجو عالم بھی تھے اور دانشور بھی تھے مگر سیاسی جماعت کے لیے علم سے زیادہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ فاضل راہو سراپا عمل تھے۔ وہ کسانوں اور سندھ کے پسے ہوئے طبقات کے ساتھ ہمیشہ جڑ کر رہے۔ انہوں نے جدوجہد کی اور اس جدوجہد کی راہ میں صرف جیل ہی نہیں بلکہ موت بھی آئی تو انہوں نے موت کو بھی گلے سے لگایا۔ جی ایم سید قوم پرست اور فاضل راہو ترقی پسند سوچ کے علمبردار تھے۔ ایک کا جنم سترہ جنوری کے دن ہوا اور دوسرا اس دن کو دھرتی کے اندر چلا گیا۔ اب وہی ہوتا ہے جو مرنے کے بعد عظیم انسانوں سے ہوتا آیا ہے۔ ان دونوں کے مزارات پر سترہ جنوری کے دن بہت بڑا شور شرابہ ہوتا ہے۔ لوگ آتے ہیں۔ تقاریر کرتے ہیں۔ نعرے لگاتے ہیں۔ اپنے اپنے مفادات کی بولیاں بولتے ہیں۔ مگر وہ ان دونوں عظیم انسانوں کی حقیقی نمائندگی نہیں کرتے جنہوں نے اپنی زندگی کو عظیم مقصدکے ساتھ جوڑا۔ جی ایم سید اور فاضل راہو نے کیا سوچا تھااور کیا چاہا تھا؟ ان کے آدرش تو تاریخ کے طوفان میں اڑ گئے۔ اب ان کے مزارات پر جن لوگوں کا قبضہ ہے وہ اپنے مفاد کی بات کرتے ہیں۔ فاضل راہو کے بیٹے اسماعیل راہو نے اپنے والد کی سیاست کو آگے بڑھانے کے بجائے ان کے نام کو استعمال کیا اور سندھ میں اقتداری سیاست کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے ہر حکومت کے ساتھ چلنے کی کوشش کی۔ وہ وزیر بھی رہے اور انہوں نے کرپشن کے الزام میں قید بھی کاٹی۔ کل وہ میاں نواز شریف کے ساتھ تھے۔ جب سترہ جنوری کے دن فاضل راہو کی برسی بنائی جاتی تھی تب میاں نواز شریف ہیلی کاپٹر میں اترتے تھے ۔ وہ فاضل راہو کی عظیم قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد اقتدارکی سیاست کے پتے کھیلنے کی کوشش کرتے تھے۔وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ وہ زرداری کو بیماری کہہ کر بلاتے تھے۔ ان کی تقریر پر راہوکی کے سادہ لوگ تالیاں بجاتے تھے۔ آج اسماعیل راہو پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ جس اسٹیج پر کھڑے ہوکر کبھی میاں نواز شریف راہوکی والوں سے مخاطب ہوتے تھے اب اس اسٹیج پر آصف زرداری جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ وہ اپنے انداز میں تقریر کرتے ہیں اور راہوکی کے عوام پہلے کی طرح تالیاں بجاتے ہیں۔ کہاں گئے وہ خواب جو فاضل راہو نے دیکھے تھے؟ آج ان کا مزار اقتدارکی سیاست کا اسٹیج بنا ہوا ہے۔ اس سیاست کے خلاف تو انہوں نے بغاوت کی تھی۔ وہ سیاست اب ان کے مزار پر قبضہ کر چکی ہے۔ اب وہاں کسانوں کی بات نہیں ہوتی۔ اب وہاں وڈیروں کے مفادات کی بات ہوتی ہے۔ اب وہاں مزدوروں کی بات نہیں ہوتی۔ اب وہاں سرمائے دار اپنے خاندان پر کرپشن کے مقدمات بنانے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ اس طرح فاضل راہو کی روح پر آج بھی راہوکی میں تشدد ہوتا ہے۔ وہ دیا جو فاضل راہو نے اپنے خون سے روشن کیا۔ وہ دیا اب بجھ چکا ہے۔ ویسے تو فاضل راہو کی برسی پر روشنیوں سے جنگل منگل بن جاتا ہے مگر اس روشنی کی روح میں گھنااندھیرا بستا ہے۔ وقت اورحالات نے صرف فاضل راہو کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ وقت اور حالات نے اس جی ایم سید کے ساتھ بھی ظلم کیا ہے جس نے پوری زندگی علم کی روشنی پھیلانے کی کوشش کی۔ وہ سیوہن کے قریب ایک پس ماندہ سے چھوٹے شہر سن میں رہتے تھے۔ وہاں بجلی کو آئے بہت عرصہ نہیں گزرا۔ مگر انہوں نے تاریخ اور سماجیات کا جو بھی مطالعہ کیا وہ لالٹین کی روشنی میں بیٹھ کر گیا۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو اچھا کردار بنانے کی تلقین کی۔ انہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ ’’سیاست کو عبادت سمجھو‘‘ انہوں نے عام لوگوں کی خدمت کرنے کی تلقین کی۔ وہ صوفی مزاج کے انسان تھے۔انہوں نے اپنے کارکنوں کو تصوف کا علم اور عمل اپنانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے نہ صرف سیاست بلکہ اپنی زندگی میں باکردار ہونے پر زور دیا۔ وہ جہالت سے سخت نفرت کرتے تھے۔ وہ انتہا پسندی کے مخالف تھے۔ وہ جمہوری مزاج کے عالم تھے۔ مگر آج ان کے مزار پر جمع ہونے والے لوگ اپنے سیاسی اور ذاتی کردار میں جی ایم سید کے فکر اور فلسفے کے سخت مخالف ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سندھ کے تعلیمی اداروں کو جرم کے جزیروں میں تبدیل کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نفرت اور تعصب کو پروان چڑھایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تعلیم کو تباہ اور تمدن کو برباد کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سیاست اور جرم کے درمیاں والی سرحد کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ان لوگوں کی وجہ سے جرم سے تعلق رکھنے والی مہم جو سیاست نے جنم لیا اور اس سیاست نے سندھ کے معصوم نوجوانوں کی زندگیوں کے چراغ بجھا دیے۔تاریخ میں جب بھی جی ایم سید اور فاضل راہو کا تذکرہ ہوگا تب یہ لکھا جائے گا کہ ’’سندھ میں دو دیپ جلے‘‘ مگر اس وقت بازاری سیاست کے سبب وہ دونوں دیپ بجھ گئے ہیں۔اس اندھیرے میں موقع پرست اور مجرم سیاست انسانی اعتبار کو ڈاکوؤں کی طرح لوٹ رہی ہے ۔