مولانائے روم فرماتے ہیں کہ لومڑی کی بزدلی اگرچہ ضر ب المثل ہے لیکن جس لومڑی کی پشت پر شیر کا ہاتھ ہو تو وہ اپنی فطری بزدلی کے باوجود اس قدر باہمت بن جاتی ہے کہ چیتوں کے ریوڑ سے بھی خائف نہیں ہوتی ۔مولانا فرماتے ہیں کہ یہی حال اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا بھی ہوتاہے کہ وہ ہر قسم کی خستہ حالی ، شکستہ تن اور بے سر وسامانی کے باوجودغیراللہ کے خوف اور طمع میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔ایسے لوگ کبھی بھی باطل سے خوف زدہ نہیں ہوتے چاہے باطل کتنا ہی طاقت اور ثروت میں اپنی مثال آپ نہ ہوــــ۔ہم اگر غور کریں تو مولانا ئے روم کے اس قول زریں میں ہمیںمعانی اور مفاہیم کا ایک سمندر پنہاں نظرآئے گا۔حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان بھی اس دنیا میںایک ضعیف الہمت اور بے بس مخلوق کے سوا اور کچھ نہیںہے جب تک یہ اپنی پشت پر ایک طاقتور ذات کا ہاتھ رکھنے کا اہتمام نہیں کرتااور وہ طاقتور ہاتھ اللہ تعالیٰ ہی کی غیبی مددہوتی ہے۔اردگرد نگاہ ڈالیں توہمیں اکثریت ایسے لوگوں کی ملے گی جنہیں محض چند پیسوں کی لالچ نے اپنے سامنے ڈھیر کردیاہے۔دولت اور پیسوں کی اسی لالچ نے انہیں جھوٹ بولنے کی بزدلی میں بھی مبتلا کررکھاہے اور ناجائزمال کمانے اور حرام خوری کی بزدلی میں بھی ۔اسی طرح بہت سے لو گوں کو اپنی اولاد کی محبت نے اس دنیا میں لومڑی کی طرح بنایاہواہے اور بے شمار صاحب بصیرت لوگ ہیں کہ محض ظاہری عزت کی خاطر اس دنیا میں لومڑی بنے ہوئے ہیں ۔یہ لوگ تو بظاہر صاحبِ ثروت اور صاحبِ عزت بھی بن جاتے ہیں اور اپنے اہل عیال کو مختلف ذریعوں کے ذریعے بڑے بڑے عہدوں تک بھی پہنچادیتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ بزدلی کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔مال و دولت اور اولاد کی اسی محبت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سورۃ انفال میںفرماتاہے کہ ’’ یاد رکھو ! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے ایک آزمائش ہے ‘‘۔ اسی بارے میںحضرت عمر بن عوف ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسالت مآب ﷺ نے فرمایاکہ اللہ کی قسم میں تمہارے محتاج ہونے سے نہیں ڈرتا ، بلکہ میں تو اس بات سے ڈرتاہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کردی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کردی گئی تھی ۔ پھر تم اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگ جاوگے ، تو وہ تمہیں اس طرح ہلاک کردے گی جیسے تم سے پہلے لوگ لوگوں کو ہلاک کیاتھا‘‘(البخاری )۔اس دنیامیںدوسرا گروہ ان انسانوں کا ہے جن کی پشت پر ہمہ وقت ایک قوی ہاتھ موجود رہتاہے ۔ یہ ہاتھ دراصل ذات خداوندی کی طرف سے وہ توفیق ہوتی ہے جس کی برکت سے ان لوگوں کے دلوں میں خوف بسیرا نہیں کرسکتا۔ ایسے لوگوں کو نہ تو غربت اور مفلسی سے ڈر لگتاہے نہ ہی ان کے دلوں میں اپنی اولاد کی ایسی بے جا محبت جاگزیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے نوبت ممنوعہ حدود پار کرنے تک پہنچتی ہے۔یہ لوگ دیکھنے میں بظاہر غریب ، مفلس اور بے وقعت لگتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ سب سے مالا مال اور مستغنی ہوتے ہیں۔یہاں مجھے مولانا سید ابو لاعلیٰ مودودی مرحوم کا ایک واقعہ یاد آتاہے جس کی طرف ممتاز کالم نویس ڈاکٹر صفدر محمود بھی اپنے ایک کالم میں اشارہ کرچکے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ ایک دفعہ کسی نے مولانا مودودی سے پوچھا کہ کیا آپ کو کبھی کسی ولی اللہ سے بھی پالا پڑا ہے یا نہیں ؟ آپ نے فوراً جواب دیا کہ ہاں کیوں نہیں؟ کچھ روز پہلے میںریل میں سفر کے بعد لاہورا سٹیشن پر اترا اور سامان ایک قُلی کو دیا اور اسٹیشن سے باہر آکر جب قلی کو میں نے سرکار کی مقرر شدہ مزدوری سے کچھ زیادہ پیسے دیئے تو اس نے فوراً زائد رقم واپس کردی اور کہا کہ میں وہی مزدوری لوں گا جو مقرر شدہ ہے‘‘۔درا صل اس قلی کو مولانا مودودی نے ولی اس لئے کہا تھا کہ وہ اُس خوف سے بے نیاز تھے جسے ہم لالچ اور طمع کہتے ہیں۔ اس قلی کی پشت پر ایک ایسا ہاتھ موجود تھا جو پیچھے سے اسے تھپکی دے رہاتھا کہ غربت اور مفلسی سے مت ڈرو ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔اسی نوع کا ایک اور واقعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ساتھ بھی اس وقت پیش آیاتھا جب وہ سہارنپور جارہے تھے۔کہاجاتاہے کہ ریل میں سوار ہونے کیلئے جب وہ اسٹیشن پہنچے تو محسوس کیا کہ ان کے ساتھ سامان مقرر ہ حدسے کچھ زیادہ ہے جس کا بھی کرایہ اداکرنا پڑتا ہے ۔ سامان بک کرتے وقت ریلوے گارڈ مولانا سے مخاطب ہوئے کہ’’ آپ کو سامان بک کرانے کی ضرورت نہیں ، میں ابھی گارڈ سے کہہ دیتاہوں ، وہ آپ کو زائد سامان کی وجہ سے کچھ نہیں کہے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ گارڈ میرے ساتھ کہاں تک جائے گا؟ اہلکار نے جواب دیا ’’ غازی آباد تک ۔’’پھر غازی آباد کے بعد کیا ہوگا؟ مولانا نے پوچھا ‘‘؟ اہلکار نے کہا کہ اس کے بعد ہمارا گارڈ اگلے گارڈ سے آپ کی سفارش کرے گا۔ مولانا نے پوچھا یہ دوسرا گارڈ کہاں تک جائے گا؟ اس نے جواب دیا کہ وہ کانپور تک آپ کے ساتھ جائے گا۔ مولاناکا اگلا سوال تھا کہ پھر کانپور کے بعد کیا ہوگا ؟ اہلکار نے جواب دیا کانپور پہنچنے کے بعد تو آپ کا سفر ہی ختم ہوجائے گا۔ مولانا نے کہا کہ نہیں میرا سفر تو بہت لمبا ہے جو کانپور پر ختم ہونے کی بجائے آخرت پر ختم ہوگا۔ پھر مولانا نے اس اہلکار کو سمجھایا کہ سن لو ، یہ ریل آپ کی اور اس گارڈ کی ملکیت نہیں ہے کہ آپ جس سے چاہے زائد سامان کا کرایہ وصول کریں اور جسے چاہیں چھوڑ دیں بلکہ یہ ریل تو حکومت کی ملکیت ہے ، توبراہ کرم مجھ سے پورا کرایہ وصول کیجیے‘‘۔ہاں تو عرض کرنا یہ مقصود تھا کہ انسان اس دنیا میں ایک عارضی زندگی گزارنے کیلئے بھیجا گیاہے جہاں اس کے سامنے دو آپشن رکھے جاتے ہیں ، خدا پر بھروسہ اور خداہی سے تعاون کا طلب یا غیروں اور مادی اشیاء کی طمع اور لالچ میں مبتلا ہونا۔