اس وقت پوری دنیا میں دو مذاہب کے پیروکاروں کی اکثریت ایسی ہے جو خود کو پوری دنیا میں آباد اقوام سے مذہب کی بنیاد پرایک الگ اکائی تصور کرتی ہے۔ دونوں مذاہب اپنی گذشتہ دو ہزار سالہ تاریخی غلامی پر ماتم کرتے ہیں اور دونوں ہی اس غلامی سے قبل اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے خواب بھی دیکھتے ہیں۔ دونوں کے خوابوں میں مستقبل میں قائم ہونے والی عظیم الشان حکومتوں کے نقشے سجے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں مذاہب بلکہ قومیں یہودی اور ہندو ہیں۔ دونوں کا گذشتہ تقریبا دو ہزار سال کا ماضی ہر طرح سے ایک محکوم ماضی ہے۔ یہودیوں کا تجربہ تو بہت ہی تلخ رہا ہے۔ جب رومی بادشاہ ویس پاسین ، یکم جولائی 69ء کو تخت پر بیٹھا تو اس نے اپنے سپہ سالار ٹائٹس (Titus) کو یروشلم میں یہودیوں کی بغاوت کچلنے کے لیے بھیجا۔ اس نے شہر کا محاصرہ کیا، قبضہ کیا، ہیکل سلیمانی سمیت پورے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر کے یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا۔ اس فتح کی یاد میں 81ء عیسوی میں روم میں ایک محراب (Arch) تعمیر کی گئی جسے یروشلم کی لوٹ مار سے سجایا گیا۔ یہودی اس کے بعد پوری دنیا میں جہاں جگہ ملی جاکر آباد ہوگئے۔ اس وقت تک بیشتر مغربی دنیا عیسائی ہو چکی تھی اور یہودیوں کو ٹھکانہ بھی وہیں میسر آیا تھا ان خانماں برباد یہودیوں پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰؑ کو صلیب پر چڑھایا تھا۔ یہ نفرت بہت شدید تھی اور عیسائی بحیثیت قوم ان سے مسلسل نفرت کرتے رہے اور عیسائی حکمران ان کو ذلیل و رسوا زندگی گزارنے پر مجبور کرتے رہے۔ دو ہزار سالہ مظالم کی ایک سیاہ تاریخ ہے۔ لیکن اس پورے عرصے میں، یہودی بھی بحیثیت مجموعی ایک ہی خواب مسلسل دیکھتے تھے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب وہ اپنی ارض مقدس میں واپس لوٹیں گے، تباہ شدہ ہیکل سلیمانی کو ازسرنو تعمیر کریں گے اور پھر وہاں سے تخت داؤ د پر بیٹھ کر ان کا مسیحا ان کی عالمی حکومت قائم کرے گا۔ یہودیوں نے یروشلم کی سمت واپسی کا سفر 1920ء میں شروع کیا۔ وہ اسکے گرد و نواح میں آباد ہوئے اور پھر 14 مئی 1948ء کوانہوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس ریاست کے قیام کے صرف 9 سال بعدانہوں نے ارض مقدس یعنی یروشلم پر قبضہ کرلیا اور اس شہر میں اپنی بستیاں بسانا شروع کر دیں۔ اسرائیل کا پرچم اس عالمی حکومت کے قیام کے خواب کی علامت ہے۔ اس پرچم میں دو نیلی پٹیاں ہیں جو دو دریاؤں فرات اور نیل کو ظاہر کرتی ہیں اور ان کے درمیان میں حضرت داؤد ؑکا چھ کونوں والا ستارہ ہے۔ ہر یہودی اپنے پیغمبروں حضرت لسیعیاہ اور حضرت دانیال کی پیش گوئیوں کے مطابق اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دریائے فرات کے اور نیل کے درمیان کا وہ علاقہ جس میں شام، اردن، لبنان، شمالی سعودی عرب، مشرقی مصر وغیرہ شامل ہیں یہ ایک دن اس عالمی یہودی ریاست کا مرکزی حصہ ہوگا۔ جبکہ ایران، مشرقی عراق، ترکی، سعودی عرب، یمن، عرب ریاستیں، روس کی آزاد کردہ مسلمان ریاستیں، مشرقی افریقی ممالک بھی اس عظیم مملکت کے زیر نگیں ہوں گے۔ یہ وہ ریاست ہوگی جس کا غلبہ پوری دنیا پر ہوگا۔ یہ نقشہ نہ صرف اسرائیل میں آباد یہودیوں بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے صہیونیوں کے خوابوں میں رچا بسا ہوا ہے۔ یہ تمام یہودی اس مسیحا کے منتظر ہیں جو یہ حکومت قائم کرے گا۔ اس عالمی حکومت کے قیام کے لیے وہ اپنی پرآسائش زندگیاں چھوڑ کر یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک سے اس پُرخطر علاقے میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ دوسری قوم یعنی ہندوؤں کی اکثریت کے خواب و خیال میں بھی ایسا ہی ایک نقشہ سمایا ہوا ہے۔ لیکن اس نقشے کے پیچھے جو ایک بڑا ہندوستان یا ہندو ریاست ہے اسکی کوئی تاریخی حقیقت نہیں ہے۔ ہندوستان کی معلوم تاریخ جو ساتویں صدی قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے، بتاتی ہے کہ یہ سرزمین جسے متحد ہ ہندوستان یا ''ہندوتوا'' کا نام دیا جا رہا ہے اپنے آغاز سے ہی 16 آزاد خودمختار ریاستوں انگہ، مگدھ، کاسی، کوسلہ، واجی، مالا، چیدی، واستا، کورو، پنچالہ، مات سایہ، سوراسینا، آسمک، آوانتی، گندھارا اور کمبوجہ پر مشتمل تھی۔ یہ تقسیم صرف شمالی ہندوستان کی ہے جبکہ جنوب میں تامل حکومت اپنی آن بان سے موجود تھی، آثار قدیمہ اس کا پتہ دیتے ہیں، مگر تاریخ خاموش ہے۔ ہندوستان میں جیسے ہی بدھ مت کا عروج اور ہندومت کا زوال ہوا تو یہ چھوٹی ریاستیں بڑی ریاستوں میں شامل ہوکر بڑی بڑی حکومتیں بنانے لگیں، مگر وہ بھی شمالی ہندوستان تک ہی محدود رہیں۔ دریائے سندھ کے آس پاس آباد علاقے اور گندھاراجو آج پاکستان ہے ان پر کبھی مرکزی ہندو ریاست کا اقتدار نہیں رہا ۔ اشوک کی بدھ ریاست وہ واحد دور ہے، جب برما سے لے کر کابل و قندھار تک اشوک کی حکمرانی تھی۔اور بھارت ایک متحد خطہ نظر آتا تھا۔ اشوک نے یہ علاقہ جنگ لڑ کر فتح نہیں کیا تھا بلکہ اس کا حسنِ انتظام اور معیارِ انصاف ایسا تھا کہ ریاستیں خود اس میں ضم ہونا پسند کرتی تھیں۔ یہ دور صرف 36 سال کا ہے اس کے بعد جب اشوک کے ہندو جانشین آئے تو یہ ریاست واپس سکڑنا شروع ہوگئی۔ آج کا قومیت پرست ہندو اسی بدھ اشوک کی حکومت کے نقشے کو ہندو ریاست بتاتا ہے اور اسے اپنے خوابوں میں بسا کر دوبارہ قائم کرنے کی جدوجہد میں پاگل ہوا جارہا ہے۔ ان کا یہ نقشہ آپ کو 1925ء سے راشٹریا سیوک سنگھ کے شروع کے شائع ہونے والے لٹریچر میں بھی ملے گا اور آج کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے پرچم برداروں کے خوابوں میں بھی بسا ہوا ہے۔ اس نقشے کو زعفرانی رنگ میں شائع کیا جاتا ہے۔ اس میں اس وقت موجود ممالک کی تمام حدود بھی دکھائی گئیں اور ساتھ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ یہ ریاستیں کب گریٹر ہندوستان یا ''ہندوتوا ''سے الگ ہوئی تھیں۔ ان میں سب سے پہلے علیحدہ ہونے والی ریاست افغانستان دکھائی گئی ہے جو 1876ء میں علیحدہ ملک بنی، اس کے بعد نیپال 1904ء میں اور تبت 1914ء میں علیحدہ ہوئی۔ برما 1937ئ، پاکستان اور بنگلہ دیش 1947ئ، آزاد کشمیر 1948ء اور اکسائی چن 1962ء میں علیحدہ ہوئے اور یوں ایک بہت بڑی اور مقدس ہندو ریاست جو دیوتاؤں کی سرزمین ہے، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔ ''ہندوتوا '' کے پجاریوں کے دھرم کا یہ حصہ ہے کہ ایک دن اس دیوتاؤں کی سرزمین ہندوستان پر دوبارہ کرشن جی مہاراج کا زعفرانی پرچم لہرائے۔اسی لئے اس نقشے کے بیچوں بیچ کرشن چندر کی تصویر بھی ثبت کی جاتی ہے۔ اس ریاست کی زد میں برما، بھوٹان، تبت، نیپال، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان سمیت آٹھ ممالک آتے ہیں۔ ان دو ریاستوں کے قیام کیلئے برما سے لے کر مصر تک کا علاقہ ممکنہ میدان جنگ ہے۔ ہندو ہوں یا یہودی ان دونوں نے جن عظیم ریاستوں کے خواب دیکھے ہیں وہ اسی خطے پر قائم کی جا سکتی ہیں ۔ اس خطے میں خوابیدہ مسلم امہ آباد ہے، جس کے دونوں جانب بھارت اور اسرائیل اسلحے کے انبار جمع کر چکے ہیں اور دونوں قوموں کا بچہ بچہ اپنے نقشے کی تکمیل اور اپنی ریاست کے قیام کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہوچکا ہے۔ دونوں کا اس خطے میں ایک ہی مشترکہ دشمن ہے اور وہ ہے مسلمان۔ دونوں اسی مسلمان کو صفحہ ہستی سے مٹا کر انکی لاشوں پر اپنی ریاستوں کی عمارتیں بلند کرنا چاہتے ہیں۔ یوں سمجھو یہ دو بھیڑیے ہیں جو مسلم امت کی بکھری ہوئی بھیڑوں کے گلُے پر نظریں جمائے، حملہ آور ہونے کو تیار ہیں۔ لیکن اس امت مسلمہ کے خواب غفلت میں پڑے ہو ئے حکمران اپنی اپنی پسند کے بھیڑیوں سے دوستی میں مصروف ہیں۔ کسی کو''ہندوتوا'' کا پرچم اٹھائے بھارت اچھا لگتا ہے اور کوئی اسرائیل کی عظیم ریاست کے پرچم اٹھانے والوں سے دوستی چاہتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ انہی دونوں اقوام کے مقابل سینہ سپر ہو کر جہاد کرنے والوں کو میرے ہادی برحق، حضرت محمدﷺ نے بشارتیں دیں ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوؤں اور یہودیوں سے لڑنے والے لشکروں کو جنت کی بشارت ایک ساتھ ایک ہی حدیث میں دی گئی۔ آپؐ نے فرمایا '' میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو عیسی ابن مریم ؑ کے ساتھ ہوگا'' (نسائی)۔ آج سے پہلے کبھی اس حدیث کا مفہوم اتنا واضح ہوا تھا۔