پھر چشم نیم وا سے ترا خراب دیکھنا اور اس کے بعد خود کو تہہ آب دیکھنا کیوں زخم ہائے سینہ پہ خندہ بلب ہیں لوگ اے آسمان شیوہء احباب دیکھنا شیوہ ہا ئے حبابِ وفا پہ قتیل شفائی یاد آ گئے کہ اس میں ایک مصرع تھا جن کو جلنا وہ آرام سے جل جاتے ہیں۔اس پر تو بعد میں بات ہو گی پہلے مجھے بھارت کی ایک صاف گو اور بے باک لڑکی کی توصیف کرنی ہے۔اس نے اپنی ہندو سرکار کو ایسی کھری کھری سنائیں کہ لطف آ گیا۔اس کی وہ ویڈیو وائرل تو بہت ہوئی مگر جو لکھ کر آپ کو شیئر کرنا ہے اس کا مزہ ہی اور ہے۔وہ کہنے لگی کہ یہ بھارت کے میڈیا نے طالبان طالبان لگا رکھی ہے اور ان کے خلاف سانس لئے بغیر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔اس تعریف پر تو ہندو پورے اترتے ہیں۔اس نے کہا بھارت کے ہندوئوں میں تو کئی طالبان ہیں بلکہ طالبان سے بھی خوفناک وہ تو جے شری رام نہ کہنے پر مسلمانوں کی چمڑی ادھیڑ دیتے ہیں۔ گائے کا گوشت ڈال کر بندہ مار دیتے ہیں ابھی کچھ روز قبل ایک بچی کو زندہ جلا دیا۔پھر اس نے کہا میں نے تو نہیں دیکھا کہ کسی مسلمان نے ہندو کو کہا ہو کہ اللہ اکبر کہہ دو وگرنہ مار دیں گے۔مسلمانوں کے لئے زندگی تنگ ہے: میری آنکھوں سے خون بہنے لگا مجھ کو مقتل سے جب گزارہ گیا اصل میں طالبان کے کردار کو مسخ کیا گیا ہے وگرنہ دنیا جانتی ہے کہ جب ان کی حکومت تھی پورے افغانستان میں امن تھا۔وہاں کے قاضی فارغ بیٹھے ہوتے تھے اور کوئی کیس آتا ہی نہیں تھا انہوں نے پوست کی کاشت بند کروا دی تھی۔سارا انتشار امریکہ لے کر آیا۔اب جبکہ وہ بری طرح ذلیل خوار ہو کر نکل گیا ہے اور طالبان نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ چلیں گے وقت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کریں گے۔عورتوں کو کام کرنے کی آزادی دیں گے اور ان کو تعلیم سے آراستہ کریں گے انہوں نے ہسپتالوں میں نرسوں کو کام سے نہیں روکا اس تبدیلی پر اہل مغرب مزید حیران اور پریشان ہیں۔خیر اور بھلائی کے ساتھ مگر وہ شریعت ضرور نافذ کریں گے۔ طالبان کے خلاف اصل میں ہندوئوں کا اپنا خوف ہے جو بولتا ہے۔بھارت نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس طرح سے امریکہ پیٹھ دکھا جائے گا اور اشرف غنی یوں ڈالروں لے کر فرار ہو گا۔بزدل بھاگتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھتا۔ اب تو برطانیہ کے ترجمان نے صاف کہہ دیا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضہ اور امریکہ کے بھاگ جانے سے ثابت ہو گیا کہ امریکہ سپر پاور نہیں رہا۔ابھی تو پنڈورا بکس کھلے گا۔ چلتے چلتے ایک اور ویڈیو پر بات ہو جائے۔یہ ویڈیو بھی بھارت سے تھی مشرقی پنجاب سے۔سردار نے کمال کی تقریر کی اس کا ٹاپک بھی طالبان تھے۔وہ کہہ رہا تھا کہ طالبان کی خصوصیات گرو سکھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔مقصد اس کے کہنے کا یہ تھا کہ اگر سکھ ہندوستان میں عزت سے جینا چاہتے ہیں تو انہیں طالبان کی طرح اٹھنا پڑے گا اس نے کہا سکھوں نے کبھی جھوٹا یا بچا ہوا نہیں کھایا۔وہ اپنا حصہ لینا جانتے ہیں۔ بہت اچھی مثال دی کہ پانچ کلو دودھ کو بانٹا جائے نہ کہ مودی ایڈوانی کو کہیں کہ منہ لگا لو باقی بچے گا تو سکھوں کو دے دیں گے۔ نہایت پرلطف مثال دیتے ہوئے اس نے کہا کہ اصل میں مودی ہلکا گیا مجھے غالب یاد آگیا: پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد ڈرتا ہوں آئنے سے کہ مردم گزیدہ ہوں اس سکھ سردار مبلغ نے طالبان کو تو جیسے 21 توپوں کی سلامی دے دی کہنے لگا کہ وہ مرد ہیں (جنے ہیں) غیرت مند۔ کیسے انہوں نے کبھی بھی شکست نہیں مانی ڈٹے رہے شہید ہوتے رہے اور آخر انہوں نے سپر پاور کی لکیریں نکلوا دیں۔پھر سکھوں کو شرم دلاتے ہوئے کہنے لگاکہ اب سکھ پٹاخے چلانے کے قابل ہی ہیں یا بڑھکیں مارنے والے۔پھر اس نے طالبان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دیکھو انہوں نے اپنی فتح کے اعلان پر آتش بازی بھی اپنی رائفلوں سے کی ہے ۔وہ دعوت میں بھی جاتے ہیں تو پہلے میز پر اپنی رائفلیں رکھتے ہیں۔مجھے یاد آیا کہ کبھی جاں باز مرزا کی ایک نظم میری والدہ سنایا کرتی تھیں۔کھیل میرے لاڈلے تلواروں سے کھیل۔میں چونکہ انگریزی ادب پڑھتا پڑھاتا آیا ہوں تو ایک انگریز شاعر کی لاجواب نظم یاد آ گئی مفہوم مختصراً لکھ دیتا ہوں کہ اس نے انگریزوں کو مخاطب کر کے کہا تھا۔ ’’تم ان صحرا نشینوں کو نہیں پہنچ سکتے۔جو گھوڑوں کی پیٹھوں سے نہیں اترتے۔جو راتوں کو سفر کرتے ہیں۔سورج اور چاند تو ان کے لئے چراغ ہیں وہ جہاں پہنچتے ہیں چھا جاتے ہیں اور تم (انگیز) ریشمی پردوں اور قالینوں والے پرتعیش کمروں میں منمنائے رہتے ہو۔بچوں سے فتح کے لئے دعائیں کرواتے ہو۔اس کی نظم سے تو مجھے سلطان صلاح الدین ایوبی یاد آنے لگے۔ میرے معزز قارئین !کالم مجھے بہا کر کسی اور طرف لے گیا۔میں کیا کروں کہ ایک سردار کی گفتگو میں ایسا سوز تھا کہ میں سنتا گیا۔لگتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح خالصتان کی تحریک کو ضرور انگیخت لگائے گی۔اسی طرح وہ سردار اشارہ کر رہا تھا کہ طالبان سے سیکھو ظلم کے سامنے سینہ سپر ہو جائو تو وہ اکھڑ جاتا ہے۔صرف خالصہ ہی نہیں کہ ان کا نعرہ ہے راج کرے گا خالصہ بلکہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک کو بھی اس سے جلا ملے گی۔اسی بات سے تو مودی کی حوائیاں اڑی ہوئی ہیں۔منظر پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ سید علی گیلانی کی میت سے کس قدر خوف زدہ تھا کہ پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا اور کس طرح فوجیوں کی قوت سے میت چھینی اور تدفین کی گئی بہرحال اب کام رکنے والا نہیں حق غالب آکر رہے گا۔ابابیلوں کے بھیجنے کا مذاق کرنے والے اب گونگے ہو گئے ہیں یہ ابتدا ہے انشاء اللہ اتنہا بھی ہو گی کہ اس کے دین کو غالب ہونا۔مظفر وارثی اچانک یاد آ گئے۔ہائے کیا پیارا نوجوان تھا ایک شعر اس کے لئے: یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے