کوئی پلکوں پہ لے کر وفا کے دیئے دیکھ بیٹھا ہے رستے میں تیرے لیے کتنی تیزی سے سب کام بڑھنے لگے وقت گھٹتا گیا ہر کسی کے لیے اے پی سی کا شور ہے حکومت اور اپوزیشن ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے ہیں۔ شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ مفرور مجرم کا خطاب نشر نہیں ہو سکتا۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر دکھائیں گے۔ روک سکو تو روک لو۔ مگر ہمیں اس معاملے سے کیا لینا دینا کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا اور گھبرانا تو کپتان کی ڈکشنری میں ہے ہی نہیں۔ ردعمل تو بتا رہا ہے کہ نواز شریف کی سیاست مری نہیں ہے۔ چلیے چھوڑیے ہم مزے مزے کی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی دل کی بات: اس دل نے شہرتوں میں اضافہ کیا بہت لیکن میں اس کے ہاتھ سے رسوا ہوا بہت مجھے پیارے دوست اور اوریجنل فنکار ڈاکٹر اصغر یزدانی نے ایک مزے کی خبر بھیجی ہے کہ اگر اچانک دل کا اٹیک آ جائے تو اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تو اس خبر کو مفید کار آمد اور سنجیدہ سمجھ کر بھیجا ہے مگر پتہ نہیں اسے پڑھ کر میں کیوں زیر لب مسکراتا رہا۔ شاید اس لیے کہ اس خبر کی مطابقت موجودہ حالات سے ہے کہ جس طرح لاقانونیت، افراتفری مہنگائی، ٹینشن اور پتہ نہیں کیا کچھ ہے تو ایسے میں دل بیچار کہاں تک دھڑکے ہر چیز تو دل پر اثر انداز ہوتی ہے محبت سے لے کر ڈالڈا گھی تک۔ حساس لوگ تو ایسے میں دل بہ دست ہیں کہ کدھر جائیں: دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ہنسی مجھے اس لیے بھی آتی ہے کہ سیلاب، بارشیں، زلزلے اور دل کا اٹیک کوئی بھی آفت ہو فوج ہی کام آتی ہے۔ پتہ نہیں ہم باتیں بھی بہت کرتے ہیں مگر مدد کے لیے پکارتے بھی انہیں ہیں اور نہ بھی پکاریں تو وہ مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اب اس دل کے معاملے ہی کو لے لیں کہ اچانک ہارٹ اٹیک سے فوری جان بچانے کا طریقہ معروف ماہر امراض ڈاکٹر اظہر محمود کیانی نے بتایا ہے کہ جنرل (ر) کیانی صاحب نے واقعتاً ایک اچھا مشورہ دیا ہے کہ اس اچانک سانحہ سے بچنے کے لیے سب کو ایک کٹ پاس رکھنی چاہیے۔ میں ابھی عرض کرتا ہوں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی کو یہ خیال نہیں آیا۔ شاید یہ اب محسوس کیا جا رہا ہے کہ پوری قوم کے ہر فرد کو یہ کٹ پاس رکھنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے آپ کسی چیز کی قیمت سن کر ہی دل تھام لیں۔ یہ معاملہ کسی کو دیکھ کر بھی پیش آ سکتا ہے: کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں خیر ہم بات کرتے ہیں کٹ کی۔ ڈاکٹر اظہر محمود کیانی کہتے ہیں کہ نشانی اٹیک کی انہوں نے یہ بتائی ہے کہ سینے کے وسط میں کھچاوٹ ہوتی ہے اور یہ بائیں بازو یا گردن کے دونوں طرف بڑھ سکتا ہے۔ پسینہ چھوٹے گا اور رنگ زرد ہو جائے گا۔ شدید بے چینی اور جیسے سینے پر کوئی بیٹھا ہو۔ آپ فوراً ڈسپرین کی گولی چبا جائیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ خون کو پتلا کرتی ہے۔ میرا مقصد ہے تھوڑا سا اپنا علم بھی تو بتاتا چلوں۔ زبان کے نیچے گولی اینٹی سڈ رکھ لیں اور سینے کے بائیں جانب وہی ڈیپونڈ این ٹی فائیولگا لیں۔ اب آپ سمجھ جائیں کہ آپ اچانک اٹیک سے محفوظ ہو گئے اور کسی سپیشلسٹ کے پاس پہنچ جائیں لیکن یہ نسخہ شاعروں کے لیے نہیں! ان کا درد دل کسی اور وجہ سے ہوتا ہے۔ وہ ایسا درد ہے جو غالب جیسے بڑے شاعر کی سمجھ میں نہیں آیا: دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے ہائے ہائے مرزا نوشہ کا ایک اور شعر سامنے آ گیا: عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک شاعر کی آہ و زاری تو ایک طرف یہاں تو کوئی کسی غریب کی کوئی نہیں سنتا۔ بس اچانک کوئی ہائی لائٹ ہو جائے اور لائم لائٹ میں آ جائے تو سب اپنے اپنے نمبر بنانے نکل پڑتے ہیں۔ ’’اس کے بعد پھر اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور‘‘ ابھی موٹروے والے معاملہ کی بازگشت فضائوں میں ہے دھواں دار بحثیں ہوئیں اور کارروائیاں اور پھرتیاں بھی پولیس کی جاری ہیں۔ دیکھیے سسپنس کب ختم ہوتا ہے۔ لیکن اس کے دوران کتنے واقعات ہو گئے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کچھ بھی نتیجہ خیز ہو گا۔ ابھی عابد پولیس کے ہاتھ نہیں آیا اور بحث شروع ہو گئی ہے کہ اس نے جو نواز شریف کے دور میں 2013ء میں فورٹ عباس میں عورت اور بیٹی کی عزت لوٹی تھی تب سزا کیوں نہیں ہوئی۔ اپنا سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے۔ بات ساری احساس کی ہے۔ چلیے کراچی سے فوزیہ شیخ کا شعر پڑھیے: کیچڑ کا تکلف نہ کرو شہر کے لوگو آنچل پہ تو رسوائی کی ایک چھینٹ بہت ہے کاش کوئی اٹھے اور ایسے عادی درندہ صفت مجرموں کو عبرت کا نشان بنا دے۔ چلیے اب خالصتاًً سماجی اور معاشرتی بات کر لیتے ہیں۔ کوئی سنے سنے کرنے میں کیا حرج ہے۔ کل میں شادی وال کی سڑک پر تھا جو سیدھی مرغزار کالونی کے ساتھ ساتھ ہنجروال کی طرف نکلتی ہے اور دوسری طرف ڈبن پورہ کی جانب۔ میں نے مولوی نذیر صاحب سے پوچھا کہ یہ گٹر کب سے گندگی پھیلا رہا ہے۔ مسلسل ابل رہا ہے۔ میری بات پر وہ روہانسے سے ہو گئے اور کہنے لگے کس کے پاس جائیں۔ ن لیگ والے کہتے ہیں ’’اب دیکھو تبدیلی‘‘۔ پی ٹی آئی والے تو کبھی دیکھتے تک بھی نہیں۔ ہر جگہ تعفن ہے۔ مسجد کے لیے نمازی اسی گندگی سے گزر کر آتے ہیں یہ معاملہ ایک جگہ نہیں جگہ جگہ ہے۔ ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں کہ اے پی سی میں سارے ٹھگ، چور، ڈاکو اور بدمعاش اکٹھے ہو رہے ہیں لیکن خدا کے لیے ہمیں یہ تو بتائیے!آپ کون ہیں؟ یہ غریب نشیبی علاقوں والے جو گند اور غلاظت میں سانس لے رہے ہیں۔ آپ اگر برا نہ منائیں تو پچھلے والے تو پھر بھی کام کرتے نظر آ رہے ہیں جس کی مثال چودھری محمد شہزاد چیمہ ہیں اور جماعت اسلامی کے شفیق ملک صاحب مگر یہ لوگ اپنے علاقے کے لیے ہیں۔ بہر حال جو بھی ہے پی ٹی آئی نے اس قدر مایوس کیا ہے کہ بس۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ اسی لیے یہ بلدیاتی الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: دھوپ میں جلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا