وزیر اعظم عمران خان بہت جز بز ہو رہے ہیں کیونکہ بظاہر انکی مرضی کے خلاف میاں نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی لاہور ہائیکورٹ نے اجازت دیدی ہے۔ہزارہ موٹروے کے افتتاح کے موقع پر انہوں دو کی بجائے ایک نظام عدل رائج کرنے کی بات کی اور اس کے لئے انہوں نے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور انکے بعد بننے والے چیف جسٹس گلزار احمد سے اپیل کی کہ وہ اس نظام کوطاقتور اور کمزور کے لئے یکساں بنانے میں مدد کریں اسکے لئے حکومت تمام وسائل مہیا کرنے کو تیار ہے۔ اسکے جواب میں چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے بہت متحمل انداز میں وزیر اعظم کی مدد کی جہاں تعریف کی وہیں انہوں نے وضاحت سے بتایا کہ کس طرح عدالتیں ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں جس میںکسی امیر یا غریب، طاقتور اور کمزور کی تفریق نہیں کی جاتی۔ دونوں محترم شخصیات اپنی جگہ درست فرما رہی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں غلطی تسلیم کرنے کا رواج نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو عدالت پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنی کابینہ کے فیصلے کو دیکھنا چاہئیے تھا۔ جب وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم کے قائل کرنے پر میاں نواز شریف کو ملک سے جانے کی اجازت دیدی تھی تو عدالت اگر اس میں اندیمنٹی بانڈ کی کمی کر کے وفاقی کابینہ کے حکم کی تعمیل کا حکم دیتی ہے تو اس پر واویلا تو نہیں کرنا چاہئیے۔ابھی لاہور ہائیکورٹ نے اس مقدمے کو سننا ہے کہ کیا وفاقی حکومت انڈیمنٹی بانڈ لے سکتی ہے کہ نہیں اور اس حق کو کابینہ نے اپنے حالیہ اجلاس میںتسلیم کیا ہے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل کو حتمی فیصلے تک موخر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عدلیہ ہو انتظامیہ ، مقننہ یا پھر اسٹیبلشمنٹ، ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سب کی الماریوں میںماضی کے مردے پڑے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں جس میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک نئے دور کا عزم لئے ہوئے ہیں ، کسی ایک کیس کی بنیاد پر اس عمل کو الجھانا مناسب نہیں ہے۔ پہلے بھی حکومتوں اور اداروں کے درمیان ایسی معمولی باتوں سے بحث شروع ہوئی اور بہت خطرناک انجام تک پہنچی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ موجودہ عدلیہ کی بجا طور پر سرعت سے کام کرنے کی تعریف کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایسے اقدامات کئے جس سے فوجداری مقدمات کی چھوٹی عدالتوں میں شنوائی دنوں میں ہو رہی ہے اور فیصلے بھی ہو رہے ہیں۔ اسی طرح سے سپریم کورٹ نے بھی انکے دور میں تیزی سے فوجداری اپیلیں نبٹائی ہیں۔ لیکن ان سے پہلے چیف جسٹس ثاقب نثارکا خیال کچھ اور تھا، مجھے یاد ہے انہوں نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ جس نظام کا ڈھانچہ جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی ہو وہ کیسے انصاف کرے گا۔اسی روز ایک مقدمے کی سماعت کے دوران انہوں نے ججوں کے احتساب کے آغاز کا اعلان بھی کیا اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ہمارا نظام عدل بر وقت فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔اگر کوئی فیصلہ ہو بھی جائے تو اسے ضبط تحریر میں لانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں کی کارکردگی پر خصوصاً سوال اٹھائے۔یہ سوالات نئے نہیں ہیں اور یہ ایسی حقیقتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے ہمارا منہ چڑا رہی ہیں ۔سستا اور فوری انصاف یا انصاف آپکی دہلیز پر، جیسے نعرے حکمرانوں نے بہت لگائے لیکن کوئی بھی اس بنیادی حق کے طریقے کی حفاظت نہ کر پایا۔ جب جسٹس افتخار چوہدری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو جوڈیشیل ایکٹیوزام اپنی انتہا کو چھو رہا تھا۔اس دور میں ہمارے کچھ دوست ایک خبر چھاپتے تھے اس یقین کے ساتھ کہ جسٹس افتخار چوہدری صبح ضرور نوٹس لیں گے اور یہ ہو جاتا تھا۔لیکن افتخار چوہدری قوم سے اتنا زیادہ افتخار پانے کے بعد اپنی ذات کے اسیر رہے اور عدلیہ کی بہتری اور انصاف کی بر وقت فراہمی کے بنیادی کام کو آگے بڑھانے یا بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔البتہ انہوں نے عدلیہ میں اپنے جانثاروں کی بھرتی خوب کی ۔اس سارے عمل میں کسی ایک ادارے یا شخصیت کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی مناسب نہیں ، جہاں افتخار چوہدری ناکام رہے وہاں ہماری پارلیمنٹ ، معاشرہ اوروکلاء برادری بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ سب سے بنیادی کام پارلیمنٹ کا ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے یا موجودہ قانون کو بہتر کرے جو انصاف کے تقاضوں کو بر وقت پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔اس سلسلہ میں ابھی کچھ کام شروع ہوا ہے لیکن حکومت کی مجبوری ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے تو قوانین پاس کرا سکتی ہے لیکن سینیٹ میں اسے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہے اور موجودہ اپوزیشن کے سرکردہ لیڈر احتساب کی زد میں ہے اس لئے وہ کسی قسم کی عوامی ضرورت کی قانون سازی میں مدد کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔گزشتہ خیبر پختونخواہ اسمبلی نے ماتحت عدلیہ میں دائر ہونے والے مقدمات کی سماعت اور فیصلے کے لئے ایک مدت مقرر کی، اسی طرح سے دوسری صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی بھی اپنے اپنے دائرہ کار میں اس قسم کا قانون بنا سکتی ہیں۔اس کے ساتھ اس قانون پر عملدرآمدکے لئے ہائیکورٹس کو بھی پابند کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ اسکے بغیر یہ قانون بھی بے عملی کا شکار ہو جائے گا جس طرح نیب کا قانون بے اثر ہے۔ انکوائری، تحقیقات اور ریفرنس فائل کرنے سے لیکر عدالت میں ٹرائیل تک کی مدت مخصوص کی گئی ہے لیکن مجال ہے کسی ایک مقدمے میں بھی تمام مراحل اس ڈیڈ لائن کے مطابق طے ہوئے ہوں۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ بااثر اشرافیہ کا ہے ۔ ڈکٹیٹروںکو تو جو نہیں مانگتے وہ بھی انہیں مل جاتاتھا، جیسا کہ جنرل مشرف کے ٹیک اوور مقدمے میںحکومت نے صرف ٹیک اوور پر قانونی مہر ثبت کرنے کی درخواست کی، لیکن عدالت نے جنرل مشرف کو بن مانگے تین سال کے لئے آئین میں ترمیم کی اجازت دے دی۔ چیف جسٹس آصف کھوسہ کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ2009 ء کے بعد کی عدلیہ مختلف ہے اور اسکی بہت سی مثالیں ہیں کہ اس نئی عدلیہ نے اپنی آزادی کو یقینی بنایا ہے اور طاقتوروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا بھی کیا ہے اور سزا بھی دی ہے۔