معاشرے ہمیشہ عدل سے ہی پروان چڑھتے ہیں جس ملک اور بستی میں عدل نایاب ہو جائے وہاں پر بے حسی اور مختلف اخلاقی برائیاں جنم لیتی ہیں قرآن مقدس ہماری رہنمائی اور اصلاح معاشرہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ آخری مقدس کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاص اور مقدس سرزمین مکہ مکرمہ فاران کی چوٹیوں پر جبل نور غار حرا میں سب سے پہلے سید مرسلین حضرت محمد ﷺ پر جبرائیل امین لے کر نازل ہوئے تھے اِس مقدس کتاب کے نزول کا اصل مقصد پوری انسانیت کی رہنمائی اور اْن کی اصل منزل کا تعین کرنا تھا۔ حضور اقدس ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کے ذریعے انسانیت کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کرایا۔ قرآن پاک ہی کے ذریعے عرب کے بدو قبائل جو بیٹی اور ماں جیسے مقدس رشتے کو بھی پامال کرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے ۔ عورت کی عرب معاشرے میں اسلام سے قبل کوئی عزت اور توقیر نہیں تھی۔ زندہ بیٹیوں کو زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ اس لیے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں فرمایا ہے کہ ترجمہ: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز زمین میں زندہ گاڑ ھی گئی بچی سے پوچھے گا کہ تجھے کیوں قتل کیا گیا حضور اقدس ﷺ کے آنے سے ہی عرب معاشرے کی اصلاح ہونا شروع ہوئی صدیوں سے مختلف اخلاقی اور غیر اخلاقی برائیوں میں مبتلا قوم کی ایسی اصلاح ہو ئی کہ جنہوں نے اپنے نفس امارہ کو مغلوب کر کے پوری دنیا کو اسلام کا تابع دار بنا دیا یہاں تک حضور اقدس ﷺ کے پاک صحابہ کرام دین اسلام کی تبلیغ کی خاطر پوری دنیا میں پھیل گئے۔ حضور اقدس ﷺ نے عرفات کے میدان میں حجتہ الوداع کے موقع پر جو تاریخی اور یاد گار خطبہ ارشاد فرمایا تھا تو اْس خطبہ میں زیادہ تر باتیں اصلاح معاشرہ اور حقوق العباد کے بارے میں تھیں۔ حضور اقدسﷺ نے اس موقع پر عورتوں اور مردوں کے حقوق میں واضح طور پر بیان فرمایا جبکہ والدین اور ہمسائیوں سمیت تمام رشتے داروں کے حقوق بھی واضح کر دیئے۔لیکن افسوس کہ ہم نے آج اپنے دین پر عمل پیرا ہونا چھوڑ دیا ہے جو دو واقعات گذشتہ چار روز میں میرے سامنے پیش آئے ہیں اْنہیں دیکھ کر اور سن کر بہت پریشان ہوا بلکہ یہ دونوں واقعات صرف ہمارے معاشرے کے ایک دو گھرانوں کے نہیں بلکہ اب کثرت سے اس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ ہم اخلاقی طور پر اتنے گر چکے ہیں کہ حضرت اقبالؒ نے آج سے 90 سال پہلے سہی فرمایا تھا کہ اب ہم ایسے مسلمان ہیں کہ جنہیں دیکھ کر یہود ہنود بھی شرماتے ہیں کہ کیا یہ ایسے مسلمان ہیں؟ یہ دونوں واقعات ایک معزز جوڈیشنل مجسٹریٹ دفعہ 30 کی عدالت میں رونما ہوئے جب میں ایک وکیل دوست کے ساتھ ایک ادب نواز جوڈیشنل مجسٹریٹ سے ملنے کے لیے اْن کے چیمبر میں گیا اب ہم اْن سے ملے ہی تھے کہ اسی دوران جانباز صحافت اور خطیب پاکستان حضرت آغا شورش کاشمیری کا ذکر چل نکلا تو اِس دوران مجسٹریٹ صاحب کی آغا شورش کاشمیری کے فرزند آغا مشہود، شورش کاشمیری کے ساتھ میں نے موبائل پر بات کرائی اور یوں امیر شریعت حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری اور حضرت آغا شورش کاشمیری کا انتہائی خوب صورت الفاظ میں ذکر ہوتا رہا کہ اسی دوران ریڈر مجسٹریٹ نے ایک 80 سالہ بوڑھے بابے کو پیش کیا اور اْن کے ساتھ دو نوجوانوں کو بھی ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جو سر جھکائے شرمندہ کھڑے تھے۔ جوڈیشنل مجسٹریٹ نے مجھے بتایا کہ اِن ظالموں نے اس اپنے بوڑھے باپ پر زمین کے تنازعہ پر رتشدد کیا ہے اِس دوران میں نے بوڑھے باپ سے چند سوال کیے تو وہ بزرگ رو پڑا او ربتایا کہ یہ دونوں میرے سگے بیٹے ہیں میں نے ساری زمین اِن کے نام کر دی ہے یہ اب بھی مجھے مارتے ہیں اور تشدد کرتے ہیں یہ واقعہ سن کر میں کانپ اْٹھا کہ وہ بیٹے کہ جن کو اِس بوڑھے باپ نے پالا پوسا اِن کو جوان کیا اور اب یہ تھوڑی سی زمین کی خاطر اپنے باپ کو مارتے ہیں کتنے بد نصیب اور بد بخت ہیں وہ بیٹے جو اپنے باپ کو مارتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآن مقدس میں والدین کے حقوق بیان فرمائے ہیں لیکن ہمارے معاشرے کی بد قسمتی کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں مغرب والوں کو اولڈ ہوم کا تانا دینے والے ہم لوگ تو اپنے والدین پر ظلم کر کے دوزخ کی آگ خود خرید رہے ہیں آخر ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے میں دیر تک اْس بوڑھے باپ کو دیکھتا رہا کہ جس کی سفید ریش پر گرنے والے آنسو مجھے مقدس قطرے محسوس ہوتے نظر آئے دوسراواقعہ بھی اس طرح عبرت ناک اور ہمارے معاشرے کی بے حسی اور گندی سوچ کی مکمل عکاسی کرتا ہے کہ ایک 37 سالہ خاتون جو اِس وقت 5 بچوں کی ماں ہے عورت جب ماں بنتی ہے تو اْس کے قدموں میں جنت آجاتی ہے چونکہ ماں کا رشتہ ہی ایسا پاکیزہ اور افضل ہے خاتون محترمہ دارامان میں رہائش پذیر ہیں اور وہ شوہر سے طلاق حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ بچے جوان اور تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ بھی اپنی ماں کو نہیں چھوڑنا چاہتے لیکن وہ ماں اب شاید ماں نہیں رہی بلکہ کوئی اور چیز بن چکی ہے وہ ہر حال میں اپنے ایک چاہنے والے کے ساتھ جانا چاہتی ہے اْس عورت کو درجنوں مرتبہ اْس کے ماں باپ اور بھائی بھی سمجھا چکے ہیں لیکن خاتون بضد ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اب نہیں رہنا چاہتی میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا سن رہا تھا کہ معزز حج صاحب نے مجھے حکم دیا کہ آپ بھی اس خاتون کو صلح کی درخواست کریں تو عرض کیا کہ بی بی اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی جناب محمد کریم ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ میری شریعت میں کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہے اور منع ہے اگر سجدہ کرنا جائز ہوتا تو پھر بیوی اپنے خاوند کو کرتی ہے لیکن میری شریعت میں کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہے یعنی خاوند کا اتنا بڑا مقام ہے آپ صلح کر لیں اپنے بچوں کی خاطر اپنے والدین کی خاطر لیکن خاتون پر میری باتوں کا کوئی اثر ہوتا نظر نہ آیا اور جج صاحب نے دوبارہ اْسے دارامان بھیج دیا یہ ہے ہمارے معاشرے کا المیہ کہ موبائل کے غلط استعمال نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا یہاں تک کہ پانچ بچوں کی ماں بھی اپنے مقدس رشتوں کو پامال کر رہی ہے یہی سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت اب نزدیک آرہی ہے۔