پاناما کیس نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ کئی سربراہان مملکت پاناما اسکینڈل میں اپنا نام آنے پہ خفت مٹانے اور اپنے خلاف عدالتی کارروائی پہ اثر انداز ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کے لئے اخلاقی جرات سے کام لیتے ہوئے مستعفی ہوچکے تھے لیکن وطن عزیز میں صورتحال مختلف تھی۔اس وقت کے وزیراعظم اور آج کے کوٹ لکھپت کے قیدی نمبر 4470 نے پہلے تو اسے سنجیدگی سے لینے کو تیار ہی نہ ہوئے لیکن عمران خان پہلے ہی چار حلقوں میں انتخابی بے ضابطگی اورشریف خاندان کی کرپشن کے متعلق خاصے سنجیدہ تھے اس لئے بات کچھ بنی نہیں۔ بنی تو جے آئی ٹی بنی اور نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا ۔مجھے یاد ہے پاناما اسکینڈل ، جس نے دنیا بھر کی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور آف شور کمپنیوں کے شور میں کان پڑ ی آواز سنائی نہ دیتی تھی،ایک وفاقی وزیر نے ببانگ دہل کہا تھا کہ میرا پیسہ ہے میں چاہے سمندر میں پھینکو ں یا آف شور کمپنیاں بنائوں۔بات بالکل سیدھی تھی اور یہ ایک قسم کا بیانیہ تھا۔میرا پیسہ میری مرضی۔الیکشن کمیشن لیکن اس بیانیے کی راہ میں حائل تھا۔ اگر آپ پبلک آفس ہولڈ کرتے ہیں یا اس کے امیدوار ہیں تو آپ کو اپنے اثاثے ڈیکلئر کرنے پڑیں گے ورنہ آپ نااہل ہوجائیں گے۔ یہ توقانونی پہلو تھا۔ اب یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بالفرض آپ انتظامیہ، اعلی عدلیہ یا حکومت میں کسی عہدے پہ فائز نہیں رہے اور اب اس کے امیدوار ہیں یا نہیں اور اپنے ٹیکس ریٹرن یا سرکاری کاغذات میں، جن میں واضح طور پہ درج ہے کہ ان میں آپ کے بیوی بچوں کے اثاثے بھی شامل ہونگے، اپنے اثاثوں کا ذکر گول کرجاتے ہیں تو آپ ریاست اور قانون کی نظر میں مجرم ہیں۔اسی تناظر میں اس حکومت نے ایسٹ ریکوری یونٹ بنایا تاکہ بیرون ملک اثاثوں کی چھان بین کی جاسکے۔ اس یونٹ میں جسے ایک قسم کی جے آئی ٹی بھی کہا جا سکتا ہے، ایف بی آر، نیب ، ایف آئی اے اور دیگر انٹیلیجنس ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہیں کیونکہ ان کی معانت کے بغیر ایسی جائیدادوں کا سراغ لگانا ممکن ہی نہیں۔یہی مجبوری نواز شریف کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی کی بھی تھی جس نے اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ نواز شریف کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بننے کی راہ دکھائی کیونکہ سیاسی بچت اسی میں تھی۔ اس یونٹ سے قبل ان اداروں کے درمیان کوئی باضابطہ معاونت کا انتظام موجود نہیں تھا۔ شہزاد اکبر کے مطابق اس یونٹ نے گزشتہ سال ستمبر میں سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ایسے اکاونٹس تک رسائی کی معاونت کے لئے بات چیت کا آغاز کرلیا تھا جن میں پاکستان سے دولت لوٹ کر بھری گئی ہے۔ اس کے بعد سابق گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کو بھی عہدے سے فارغ کردیا گیا جو مبینہ طور پہ اس راستے میں رکاوٹ تھے ۔ اسی یونٹ کو تین محترم جج صاحبان کی بیرون ملک جائیداد کا سراغ ملا۔یہ جائیدادیں لندن نوٹری میں درج ہیں جن کی تصدیق ہائی کمیشن نے کی۔یونٹ نے ججوں کے اثاثوں کی لینڈ رجسٹری کاپیاں بھی حاصل کرلیں جن سے مکرنا اب ممکن نہیں ہے۔ تمام تحقیقات اور متعلقہ ثبوت کی فراہمی کا کام اسی ایسٹ ریکوری یونٹ نے کیا اور حکومت کے حوالے کردیا۔ اب چونکہ مد مقابل یا ملزم کوئی سیاست دان نہیں تھے جن پہ نیب ریفرنس بناتی یا وہ احتساب عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کئے جاتے بلکہ معزز جج صاحبان تھے اس لئے قانونی طور پہ حکومت یعنی وزارت قانون نے صدر مملکت کی وساطت سے معاملہ متعلقہ جوڈیشل کونسل کو ارسال کردیا جن میں سے ایک جسٹس قاضی فائزعیسی بھی ہیں اور میڈیا کا سارا زور ان ہی پر ہے ۔ایسا پہلی بار نہیںہوا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فرخ عرفان کا نام پاناما پیپرز میں شامل تھا۔ وہ لندن میں وکالت کرتے رہے تھے۔ان کے خلاف ڈھائی سال قبل نواز شریف کے دور میں ریفرنس دائر ہوا لیکن کیس کی سماعت کچھوے کی رفتار سے ہوتی رہی۔حال ہی میں انہوں نے عہدے سے استعفی دے دیا اور سپریم جوڈیشل کونسل سے ان کا کیس خارج ہوگیا۔ اگر وہ اپنے خلاف ریفرنس کی پیروی جاری رکھتے اور ثابت کرتے کہ ان کا نام پاناما پیپرز میں غلط طور پہ آیا ہے تو عدلیہ کے دامن سے ایک داغ تو مٹ ہی جاتا۔ جسٹس شوکت صدیقی پہ مالی بے ضابطگیوں کا کیس سست رفتاری سے چلتا رہا حتی کہ انہوں نے آئی ایس آئی کے خلاف تقریر کردی اور وہ عہدے سے فارغ ہوگئے لیکن اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیرو بن گئے۔جسٹس فائز عیسی اب اپنے خلاف الزامات کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل میں کریں گے لیکن ان کے بدخواہ انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا ہار پہنانے پہ بضد ہیں۔انہوں نے بھی اپنے خط میں عمران خان کے بیوی بچوں کے اثاثوں کے متعلق جوابی سوال اٹھا کر شکوک کو جنم دیا ہے۔ اب مسئلہ ہے کیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ملک میں دو بیانیے چل رہے ہیں ۔ایک اینٹی کرپشن کا بیانیہ جسے عمران خان نے متعارف کروایا اور جس کی رو سے وہ اخلاقی طور پہ اس بات کے پابند ہیں کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں۔دوسرا وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ جو نواز شریف اینڈ کمپنی نے نہایت چابکدستی سے اپنی کرپشن چھپانے کے لئے ووٹ کو عزت دو کے نام پہ اچھالا۔ جس وقت دھرنا جاری تھا مشاہد اللہ خان نے جنرل ظہیر الاسلام پہ دھرنے کی پشت پناہی کا الزام لگایا۔ یہی الزام جاوید ہاشمی لگاتے رہے۔ یہی جاوید ہاشمی تھے جنہوں نے پاناما کیس کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف آنے پہ کہا تھا کہ ججوں کا احتساب کون کرے گا۔ جب ججوں کا احتساب شروع ہوا تو جسٹس شوکت نے آئی ایس آئی کو چھیڑ دیا اور فارغ ہوگئے۔ جسٹس فائز عیسی جنہوں نے حدیبیہ پیپر ملز کو دوبارہ کھولنے کی نیب کی پٹیشن یہ کہہ کر خارج کی کہ محض اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کو ثبوت نہیں مانا جاسکتا،اینٹی اسٹیبلشمنٹ علامت کے طور پہ یوں ابھر رہے ہیں کہ انہوں نے فیض آباد دھرنے میں آئی ایس آئی کے لتے لئے تھے۔ یہ کام بڑی مہارت سے کیا جارہا ہے اور وہی لوگ کررہے ہیں جو اپنی کرپشن پکڑے جانے پہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے تھے۔ایک بات ماننی پڑے گی کہ عمران خان کے خلا ف اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا پروپیگنڈا اتنے زورو شور سے کیا گیا ہے کہ اب جس کی کرپشن پہ ہاتھ ڈالا جاتا ہے اسے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیرو بنا کر اپنے لئے استعمال کرلیا جاتا ہے۔