اگلے آٹھ دن جہاز بحیرہ عرب کے پانیوں کو چیرتا رہا۔ چھٹے دن ملاحوں نے اطلاع دی کہ ایک کشتی خاصی دور سے ان کا پیچھا کر رہی ہے اور اس میں سوار افراد دوربین سے مسلسل ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ جہاز نے اب بھارت کے گوا کے ساحل کی طرف تیزی سے بڑھنا شروع کیا، جہاں چند امریکی اہلکار ان کے منتظر تھے۔ مگر اگلے روز بھارتی کوسٹ گارڈ کے چند ہیلی کاپٹروں نے جہاز کے اوپر نیچی پروازیں کیں۔ 4اور5مارچ کی رات کو اسلحہ بردار کشتیوں اور ایک جنگی جہاز نے یاٹ کو چاروں طرف سے گھیر کر پہلے فائرنگ اور بعد میں گیس کے گرنیڈ اندر پھینکے۔ جلد ہی چند مسلح نقاب پوش رسیوں کے سہارے جہاز کے اندر داخل ہوئے اور شہزادی کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جاوحیائنین کے مطابق چند لمحوں میں ایک عرب کو جہاز میں اتارا گیا ، جس نے شہزادی اور اس کی شناخت کی۔ ان کو کوسٹ گارڈ کے جہاز میں منتقل کرکے پہلے گوا لے جایا گیااور اسی دن متحدہ امارات کی بحریہ کے حوالے کر دیا گیا۔ فن لینڈ کی ٹرینر کے مطابق شہزادی کے آخری الفاظ تھے۔ ’’مجھے واپس مت بھیجو، مجھے یہیں گولی مار کر سمندر میں پھینک دو۔‘‘ عدالت کی سماعت کے دوران یہ بھی انکشاف ہو اکہ برطانوی شہر کیمبرج میں 2000ء سے پولیس کے پاس لطیفہ کی بڑی ہمشیرہ شہزادی شمسہ کے اغوا کی رپورٹ درج ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق دوبئی شاہی خاندان کے افراد لندن میں اپنے نیو مارکیٹ پیلس میں چھٹیاں گذارنے آئے ہوئے تھے۔ شہزادی گارڈز کو جل دیکر محل سے فرار ہوکر کیمبرج میں ایک ہوسٹل میں پناہ گزین ہوگئی۔ ایک امیگریش افسر ، جو شمسہ سے ہوسٹل میں ملا تھا ،نے پولیس کو بتایا کہ شہزادی سیکورٹی حصار، حد سے زیادہ ڈسپلن اور پابندیوں سے پر زندگی سے عاجز آچکی تھی اور ایک عام انسان کی زندگی جینا چاہتی تھی۔ اسلئے برطانیہ میں مقیم ہونے کیلئے وہ امیگریش محکمہ سے مدد کی خواستگار تھی۔ مگر اگست 2000ء میں چند عرب افراد نے اس ہوسٹل پر دھاوا بول کر اس کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھاکر اسکے والد کے پیلس نیو مارکیٹ پہنچا دیا۔ محل کے ایک خادم الشیبانی نے پولیس کو بتایا کہ اگلے روز شہزادی کو بذریعہ ہیلی کاپٹر فرانسیسی شہر ڈاوویلا لیجایا گیا ، جہاں ایک پرائیوٹ جیٹ اسکو دوبئی لے جانے کیلئے منتظر تھا۔ برطا نوی قانون دان ٹوبی کیڈمین کی ایما پر اقوام متحدہ کے دو ادارے کمشنر برائے انسانی حقوق اور گمشدہ افراد کی بازیابی سے متعلق گروپ ان دونوں واقعات کی تحقیقات کر رہے ہیں ۔ یہ ادارے ابھی تک دو بار بھارت اور اسکے قومی سلامتی مشیر کو نوٹس ایشو کر چکے ہیں۔یہ طے ہے کہ عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسا کوئی آپریشن اگر خطے کے کسی اور ملک نے کیا ہوتا تو مغربی ممالک نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔ اس آپریشن نے یقینا عرب ممالک میں قومی سلامتی مشیر دوول کا قد خاصا بلند کیا ہے۔ اسکے عوض امارات کے حکمران بغیر کسی پس و پیش کے مفرور ملزموں کو بھارت کے حوالے کر رہے ہیں۔آنجہانی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو امارات میں منعقد اسلامی کانفرنس میں مدعو کیا جاتا ہے۔ شہزادی لطیفہ کے اس آپریشن کے فوراً بعد 1993ء کے ممبئی دھماکوں کے ملزم اور مبینہ گینگسٹر دائود ابراہیم کے ساتھی فاروق ٹکلہ کو بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے بعد برطانوی شہری کرسچین مشعل کو بھی بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ برطانوی شہری اور اسلحہ ڈیلر مشعل نے پچھلی کانگریس حکومت کے دور میں اٹلی کی کمپنی آگستا ویسٹ لینڈ سے وی وی آئی پی افراد کیلئے ہیلی کاپٹر کے تین ہزار کروڑ کے سودے میں دلالی کا کام کیا تھا۔ 2012ء میں سوئٹزرلینڈ کے حکام نے مشعل کے ساتھی گیوڈو ہاسشکی کے گھر سے ایک ڈائری برآمد کی تھی، جس میں ہاتھ سے لکھے کوڈ الفاظ میں اپوزیشن کی راہنما سونیا گاندھی، انکے خاندان کے دیگر افراد اور انکے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو رشوت دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مشعل نے انکشاف کیا تھا کہ دوبئی کے ایک ہوٹل میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے کسی فرد نے اسکو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ سونیا گاندھی اور احمد پٹیل کو اس دفاعی سودے میں ہوئی بد عنوانی میں ملوث کرتا ہے تو بھارت کی طرف سے اسکی حوالگی کی درخواست کو رد کیا جائیگا۔ خیر مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، عرب ممالک انہیں کچھ زیادہ ہی سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے تئیں خوف و ہراس کی فضا، ہندو تنظیموں اور حکومتی عناصر کی طرف سے آئے دن دل آزار بیانات ، شہریت کے نئے قانون اور دہلی کے خون آشام فسادات بھی عرب حکمرانوں کو پسیج نہیں پا رہے ہیں۔ عرب حکمران آخر مودی حکومت کی منہ بھرائی کیوں کر رہے ہیں؟ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ مگر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اجیت دوو ل کے صاحبزادے شوریہ دوول زیوس اور ٹارچ کمپنی کے سربراہ ہیں ، جس کے دیگر حصہ دار سعودی شاہی خاندان کے مثال بن عبداللہ بن ترکی ہیں۔ ان کے ایک اور صاحبزادے وویک دوول جو برطانوی شہری ہیں دوبئی کی ایک کمپنی جیمنی کارپوریٹ فنانس لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں، جس میں ان کے شریک کئی سعودی اور امارات کے شہزادے ہیں۔ بھارت کی مرکزی تفتیشی ایجنسی سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کے ایک ڈی آئی جی منیش کمار سنہا نے سپریم کورٹ میں دائر ایک پٹیشن میں الزام لگایا تھا کہ را کے دوبئی آپریشنز کے انچارج سمانتا گوئل اور منوج پرساد نے دوول کے صاحبزادوں کی کمپنیوں کے تجارتی مفادات کو بڑھانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ ان ہی خدمات کے عوض سمانتا گوئل کو پچھلے سال را کا سربراہ بنایا گیا۔ اپنے کیرئیرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی 'را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے دوول کا ہدف ہی پاکستان کو نیچا دکھانا رہا ہے۔ بھارت کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے اپنی کتاب of Vultures Feast A میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹیلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت دوول بھی براجمان تھے۔ یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ دوول ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک حساس پروجیکٹ پرکام کر رہے تھے جس کا مقصدکراچی میں کوئی آپریشن کرنا تھا۔ ٭٭٭٭٭