معزز قارئین!۔خبروں کے مطابق ’’پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات صدر‘ تین بارمنتخب وزیراعظم اور 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کی طرف سے صادقؔ ؔاور امین ؔنہ ہونے پر آئین کی دفعہ’’62-F-I‘‘ کے تحت نااہل ؔقرار دیے گئے‘سزا یافتہ اور بیمار‘سابق وزیراعظم میاں محمدؔ نواز شریف‘ اپنے چھوٹے بھائی(سابق وزیراعلیٰ پنجاب) قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف‘ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر‘میاں محمدؔ شہباز شریف اور ڈاکٹروں کی ٹیم سمیت 17افراد کی نگہبانی میں براستہ دوحہؔ(دارالحکومت قطر) ’’Qatar Air Ambulance‘‘پرعلاج کے لیے بخیرعافیت لندن پہنچ گئے ہیں۔‘‘ اپنے والد مرحوم میاں محمد ؔشریف اور والدہ محترمہ ‘شمیم اختر صاحبہ(المعروف آپی جی) کی دعائوں سے میاں محمدؔنواز شریف اور میاں محمدؔ شہباز شریف V.V.I.P کی حیثیت سے کئی بار مختلف ملکوں کا ’’سفر -وسیلۂ ظفر‘‘سے باریاب ہوچکے ہیں۔دنیا کے کئی بادشاہوں‘ صدور اور وزرائے اعظم کے جگری دوستوں کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔یادماضی کے حوالے سے قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے میاں محمدؔ شہباز شریف ایوان سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کی وساطت سے پاکستان کے کروڑوں عوام و خواص کی معلومات میں اضافہ کرچکے ہیں کہ ’’میرے والد محترم‘میاں محمد ؔشریف صاحب نے صرف پانچ ہزار روپے سے بھٹی لگائی تھی‘پھر ہمارے خاندان پر اللہ تعالیٰ کا بہت ہی زیادہ فضل و کرم ہونے لگا۔‘‘ معزز قارئین! میاں محمدؔ شریف مرحوم کے حوالے سے ’’پانامہ لیکس کیس‘‘ میں مُدعا علیہ (Accuseds) وزیراعظم میاں محمدؔ نواز شریف‘ اُن کے دونوں بیٹوں حسنؔ نواز شریف‘حسینؔ نواز شریف اور بیٹی مریم ؔنواز کی صفائی میں قطر کے شہزادہ حماد بن جاسم کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں گواہ کی حیثیت سے پیش ہونا تھا لیکن‘ وہ پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی ’’J.I.T‘‘(Joint Investigation Team) کے پاس؟J.I.Tنے تو شہزادہ صاحب کو’’Video Link‘‘کے ذریعے بھی اپنا بیان قلم بندنہیں کرایا تھا۔شہزادہ صاحب نے تو اپنے دوست وزیراعظم میاں محمدؔ نواز شریف‘ اُن کے بیٹوں اور بیٹی کے خلاف صرف ایک خطؔ لکھنا کی کافی سمجھا تھا۔ اُس خطؔ میں مرحوم میاں محمد ؔشریف صاحب کا نام بھی آتا تھا۔اُن دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک قائد اور سینئر قانون دان ‘بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کا یہ بیان قومی اخبارات کی زینت بنا تھا جس میں اعتزاز احسن صاحب نے کہا تھا کہ ‘ جب میں عدالت میں قطری شہزادہ سے جِرح کروں گا تو اُس کی ٹانگیں کانپنے لگیں گی۔‘‘ 7جون 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’حُسین ؔنوازاور قطری شہزادہ‘‘میں نے اپنے کالم میں اپنے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ کا یہ ’’سیاسی ماہیہا‘‘ بھی شامل کیا تھا‘آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ شہزادہ‘ قطری وے! میرا خط‘پڑھ تے لے! میرا خط‘ دوسطری‘ وے! معزز قارئین! میاں محمدؔنواز شریف اور شہزادہ قطری کی دوستی (اِس ساحل سے‘اُس ساحل تک)مشہور تھی اور باوجود اِس کے کہ میاں صاحب‘ سزا یافتہ بھی ہیں‘نہ صرف شہزادہ حماد بن جاسم بلکہ امیر قطرتمیم بن حمد آل ثانی سے بھی ہے۔پرسوں/19نومبرکی شب لندن کے سفر میں ’’قطر ایئر ایمبولینس‘‘نے دوحہؔ میں بھی مختصر قیام کیا۔خبروں کے مطابق امیر قطرکی ہدایت پراُن کے چیف آف پروٹوکول آفیسر نے قطر ایئر ایمبولینس کے اندر جاکر سزا یافتہ اور نااہل وزیراعظم کو "Royal Protocol"دے کر Receiveکیاگیا۔ میاں محمدؔنواز شریف اور اُن کے نگہبانوں کی ایمبولینس کو Royal Terminal Loungeمیں لے جایا گیا۔ دوحہ ایئر پورٹ پر ایمبولینس (طیّارے) کو Refillبھی کیا گیا۔ ’’دوحہ/دوہا‘‘ معزز قارئین! دوحہؔ‘ عربی زبان کا لفظ ہے‘ میں اِس کے معنی نہیں جانتا لیکن ہندی اور پنجابی زبان میں ’’دوہا‘‘ کے معنی ہیں۔ دو مصرعوں کا ایک شعر۔ چشتیہ سلسلے کے نامور ولی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر حضرت فرید الدّین مسعود المعروف ’’بابا گنج بخشؒ‘‘ (1175ئ-1266ئ) کے بے شمار ’’دوہے‘‘ سکھوں کی مقدس کتاب’’گرنتھ صاحب‘‘ میں شامل ہیں۔ میں اپنے اِس کالم میں میاں محمدؔ نواز شریف‘ میاں محمدؔ شہباز شریف اور اُن کی متبرکؔ ناموں والی اولاد کے علاوہ ‘ (نواسۂ مرحوم ذوالفقار علیؔ بھٹو)اور بلوچ سردار مرحوم حاکم علیؔزرداری کے فرزندسابق صدر آصف علیؔ زرداری اور بہت سے متبرکؔ سابق اور موجودہ حکمرانوں کی خدمت میں بابا فرید شکر گنجؒ کے چند دوہے پیش کررہا ہوں۔ ’’گر قبول افتد‘زہے عزوشرف‘‘ جِت دِہاڑے دھن ورِی ، ساہے لئے لِکھائِ ! مَلک جو کنِّیں سُنیدا ، مُونہہ دِکھا لے آئِ ! جِند نمانی کڈِ ھَیے ، ہڈّاں کُوں ،کڑ کا ء ِ! ساہے لِکھے نہ چلنی ، جِند و کُوں ،سمجھاء ِ ! جِند وَوہٹی ، مَرن ور ، لَے جا سی ،پر نائِ! آپن ہتّھِیں جول کے ، کَیں گل لگے دھا ئِ ! یعنی۔ ’’ جب دُلہن بیاہی گئی تو، اُس کی رُخصتی کی تاریخ مقرر تھی کہ ، کب ملک اُلموت (اُس کا دُلہا ) اُسے لے جائے، بے چاری زندگی ہڈیوں کو توڑ کے نِکل جاتی ہے تو، اُسے کون سمجھائے کہ اِس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ کوئی اُسے اپنے ہاتھوں سے رُخصت کر کے کِس کے گلے لگ کر روئے!‘‘۔ جب کسی بادشاہ (حکمران ) یا بڑے شخص کا کوئی پیارا دُنیا سے رُخصت ہوتا ہے تو ، اُسے بہت دُکھ ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے لئے بابا فرید شکر گنج ؒ نے بہت پہلے ہدایت کردِی تھی کہ … فریدا! جے تُوں عقل لطیف ، کالے لِکھ نہ لیکھ! آپنے گریوان میں سِر نِیواں کر دیکھ ! یعنی۔ ’’ اے فرید !۔ اگر تو باریک بین ، عقل رکھتا ہے تو’’ سیاہ لیکھ‘‘ ( تحریریں ، احکامات ) نہ لکھ بلکہ اپنے گریبان میں سر نیچا کر کے دیکھ ‘‘۔ معزز قارئین!۔ میرے نزدیک بابا جی ؒنے تو، بہت پہلے ، ریاست ِ پاکستان کے چار ستونوں "Four Pillers of the State" ۔ -1 پارلیمنٹ (Legislature) ۔-2 حکومت (Executive) ۔ -3 جج صاحبان (Judiciary) اور -4 اخبارات اور نشریاتی اداروں( Media) ۔ کو ہدایت کردِی تھی کہ ’’ وہ کالے لیکھ لکھنے سے اجتناب کریں!‘‘۔ پھر وہی ہُوا جو سب آپ کے سامنے ہے؟۔ ’’لندن پلان‘‘ معزز قارئین! مرحوم ذوالفقار علی بھٹووزیراعظم پاکستان تھے اور شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے صدر جب ستمبر1972ء میں لندن میں شیخ صاحب اور ہمارے پختون لیڈر(مرحوم خان عبدالولی خان) کی لندن میں ملاقات ہوئی تو وزیراعظم بھٹو کی کابینہ کے رکن‘ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی نے اُس ملاقات کو (London Plan) کا نام دیا۔پھر اُس کے بعد جب بھی پاکستان کے کسی حکمران کے خلاف حزب اختلاف کے قائدین کا لندن میں ملاقات ہوئی تو مختلف سیاستدانوں نے اُس ملاقات کو بھی ’’لندن پلان‘‘کا نام دیا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں مئی 2006ء میں لندن میں دوسابق وزیراعظم‘ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمدؔ نواز شریف کی ملاقات ہوئی تو اُس ملاقات کو بھی لندن پلان قرار دیا گیا۔ 15اپریل 2016ء کو (اُن دنوں) وزیراعظم نواز شریف اپنے طبی معائنے کے لیے لندن گئے تو 15اپریل2016ء کو میرے کالم کا عنوان تھا۔’’ملکہ ہماری مُرشد، لندن ہے پیرِ خانہ!‘‘ میں نے لکھا تھا کہ انگریز حکمرانوں کا کمال یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے غلام ملکوں کو آزاد کر کے اُنہیں "Common Wealth" (دولتِ مشترکہ) کے جال میں جکڑ رکھا ہے ۔ جب اِس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں سابق غلام قوموں کے منتخب اور غیر منتخب سربراہوں کو ملکۂ برطانیہ کے برابر کی کرسیوں پر بٹھایا جاتا ہے تو اُن کی باچھیں کِھل جاتی ہیں اور اُن کا ایک نیا شجرۂ نسب بن جاتا ہے ۔ پاکستان کے مفلوک الحال عوام کے قسمت کے فیصلے زیادہ تر لندن میں ہی ہوتے ہیں ۔ وزیراعظم جنابِ زرداری سے ملاقات کریں گے یا نہیں؟ ۔ اُن کی بیماری کس طرح کی ہے اور اُس کا علاج کیا ہے ؟ ۔ عام لوگوں کو کیا۔ ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کہتے ہیں … ’’ پانامہ لِیکس کا تو ، بس بن گیا بہانہ! بخشا خُدا نے ہم کو ، اندازِ مُجرمانہ! آزاد ہیں تو کیا ہے ؟ سیاست ہے عاجزانہ! ملکہ ہماری مُرشد ، لندن ہے پِیر خانہ‘!‘‘ ’’آنیاں‘جانیاں ویکھو!‘‘ میاں محمدنواز شریف اپنے 17نگہبانوں کے ساتھ پھر لندن پہنچ گئے۔مبارک ہو! لاہور سے اُن کی روانگی پر اور لندن پہنچنے پر اُن کے چاہنے والوں کا جوش خروش ’’دیدنی اور شنیدنی‘‘ تھا۔ 4ہفتوں میں وہ صحت یاب ہوجائیں گے؟ خبریں تو یہ بھی ہیں کہ اگر علاج نہ ہوسکا تو میاں محمدؔ نواز شریف اپنے علاج کے لیے امریکہ کے معروف شہر Bostonتشریف لے جائیں گے۔ سانوں کیہ؟پھر ’’بوسٹن پلان‘‘ اور فلان ڈھمکان‘‘۔ یہ فلان ڈؔھمکان کیا ہے؟ آپ کسی بھی لہوری ؔپنجابی سے پوچھ سکتے ہیں؟