افراد انسانی کا اجتماعی ڈھانچہ معاشرہ کہلاتا ہے ۔ اجتماعی زندگی کی خوب صورتی کے لیے کچھ کلیدی صفات کی ضرورت ہوتی ہے ، خصوصاً نوجوان نسل کا ان صفات سے متصف ہونا انتہائی ضروری ہوتاہے ۔ اگر معاشرے کے نوجوانوں میں ان صفات کا خیال نہ رکھاجائے تو اجتماعی زندگی پریشانی، الجھن اور مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے ، پھر معاشرے کا وہی حشر ہوتا ہے آج مغرب جس سے دوچار ہے اور ہمارے معاشرے میں بھی وہ ساری خامیاں آہستہ آہستہ داخل ہورہی ہیں۔ اصلاح انتہائی جامع اصول ہے ۔ہر دور میں اصلاح کی گنجائش قائم رہتی ہے ۔قرآن کریم ،امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ، انبیا ء کرام علیہم الرضوان کی تعلیمات کا نچوڑ اصلاح انسانیت ہے۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشادفرمایا ۔’’ یاایہا الذین آمنوا قوا انفسکم و اہلیکم نارا ‘‘اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاو ٔ ‘‘ مفسرین کے مطابق ’’لفظ اہلیکم میں اہل و عیال جن میں بیوی، اولاد، باندیاں اور غلام سب داخل ہیں اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر، چاکر، خادم بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں‘‘ اوراس آیت میں گھر کے سربراہ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ خود بھی دوزخ کے عذاب سے بچے اور جو لوگ اس کی تربیت و کفالت اور ماتحتی میں رہتے ہیں ان کو بھی عذاب سے بچائے ۔ چونکہ نوجوان گھر خاندان کا ایک فرد ہے اور گھریلو وخاندانی ماحول کے پرسکون بنانے کے لیے نوجوان کی ذمہ داریاں اور اس کے کچھ حقوق ہیں، اسی طرح گھر خاندان کے دائرے سے نکل کر اپنے گرد وپیش معاشرے کا بھی ایک فرد بھی ہے ،اور صحت مند اور اسلامی معاشرے کے تشکیلی عناصر کا جزو لا ینفک ہے ۔معاشرے کی اصلاح اور خوشگوار معاشرے کی تشکیل کے لیے نوجوان کی ذمہ داری سب سے اہم ہے ۔اس کے کردار وگفتار، اخلاق اور اعمال حسنہ کے بغیر معاشرے کی اصلاح اور اسلامی معاشرے کا وجود ناکام وناتمام رہتا ہے ۔ نوجوانانِ ملت کے بے شمار واقعات ہیں کہ انھوں نے اپنے کردار واعمال، اچھے اخلاق کے ذریعہ ایک مثالی معاشرہ قائم کیا۔ ایثار وہمدردی یعنی دوسروں کو اپنے اوپرترجیح دینا اور دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا اسلام کی معاشرتی تعلیم ہے ، معاشرہ کے اجتماعی نظام کے استحکام اور بقا میں اس کا بڑا عمل دخل ہے ۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نوجوان نسل کو اچھے اخلاق وکردار کا خوگر بنانا چاہتی ہے ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! انسان کو جو کچھ عطا ہوا ہے ، اس میں سب سے بہتر ین چیز کیاہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے جواب میں فرمایا اچھے اخلاق۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں، جو اخلاق کے اعتبار سے زیادہ اچھے ہیں، بلاشبہ اخلاق کا مقام بہت بلند مقام ہے اور انسان کی سعادت ونیک بختی، فلاح وکامرانی کے معراج میں اخلاق کابڑا اہم اور خاص دخل ہے ۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نوجوان نسل کواخلاقِ حسنہ کا درس دیتی ہیں، بزرگوں کا ادب واحترام، چھوٹوں پر شفقت، علماء کی قدر ومنزلت، محتاجوں اور بے کسوں کی دادرسی ہم عمروں کے ساتھ محبت والفت اور جذبہ ایثار وہمدردی کا سبق دیتی ہے ۔ امام الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ’’مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلم یُوقِّرْ کَبِیْرَنَا لَیسَ مِنَّا‘‘ (جو شخص چھوٹوں کے ساتھ رحم اور بڑوں کی توقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں) بہ ظاہر یہ ایک مختصرسی حدیث ہے ؛ لیکن اپنے اندر ایسی وسعت وگہرائی رکھتی ہے کہ اگر ساری کائنات اس حدیث پر عمل کرلے تو دنیا کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں، ظاہر ہے کہ اگر ہر شخص اپنے چھوٹوں سے پیارو محبت، شفقت ورحم کا معاملہ اور نرمی کا برتاؤ کرے اور ہر چھوٹا اپنے بڑوں کی عزت واحترام کو ملحوظ رکھے ، ان کی تعظیم وتکریم کرے تو جذبہ ایثار وہمدردی پروان چڑھے گا اور اس طرح معاشرہ الفت ومحبت کا گہوارہ بن جائے گا۔ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے جذبہ ایثار اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کی ایسی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں، جس کی نظیر کسی دوسری قوم ومذہب میں نہیں ملتی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری کے گھر رات کو مہمان آگیا، ان کے پاس صرف اتنا کھانا تھا کہ یہ خود اور ان کے بچے کھاسکیں، انھوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ بچوں کو کسی طرح سلادو اور گھر کا چراغ گل کردو پھر مہمان کے سامنے کھانا رکھ کر برابر بیٹھ جاؤ کہ مہمان سمجھے کہ ہم بھی کھارہے ہیں؛ مگر ہم نہ کھائیں؛ تاکہ مہمان پیٹ بھر کھاسکے ۔ (ترمذی) پاکستانی معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے جن میں سے انٹر نیٹ کا بے تحاشا اور غلط استعمال ،جدید کلبز ،سوشل میڈیا اور الیکڑانکس میڈیا کے فحش پرو گرام ،شیشہ، پان ،سگریٹ اور منشیات کا استعمال ،ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، آپس ہی میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش، لوٹ مار، ڈاکہ، انسانوں کا اغوا اور قتل و غارت، وعدہ خلافی، خیانت اور بددیانتی، چغل خوری، بہتان اور غیبت، رشوت ،جوا اور سود،مختلف مافیاز جو نوجوان نسل میں ان برائیوں کو پروان چڑھانے کے لیے کام کررہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کیسے کی جائے ؟ اس کا عملی جواب یہ ہے کہ سربراہان معاشرہ اپنے کردار کو درست کریں اور معاشرے کے لیے ناسوران بیماریوں کی روک تھام کے لیے قانون سازی کریں اور ہماری انتظامیہ ان قوانین پہ سختی سے عمل کروائے اور عدلیہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دے تو معاشرہ انشاء اللہ اصلاح کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ اور ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا سکیں گے ۔ دعا ہے کہ ا للہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے ۔