دورہ چین مکمل ہوا اور خیر سے خان صاحب گھر کو لوٹے۔ ایک وزیر صاحب نے دورے کو تاریخی قرار دیا ہے۔ محض تاریخی کہنا انصاف نہیں، تاریخی ترین کہنا چاہیے تھا۔ ایک اور وزیر نے دورے کو کامیاب کہا ہے۔ صرف کامیاب کہنا بھی بعید از انصاف ہے، کامیاب ترین کہتے تو بہتر تھا۔ صرف ’’ترین‘‘ کہنے سے البتہ بہتر تصویر ابھرتی۔ ترین سے یاد آیا، پنجاب کے چار پانچ وزرائے اعلیٰ میں سے ایک نے گزشتہ روز جنوبی پنجاب میں ایک بہت بڑے فش فارم کا افتتاح کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کا سب سے بڑا فش فارم ہوگا۔ اللہ برکت دے۔ کسی صحافی نے پوچھا کہ سر، ہمیں پتہ چلا ہے کہ اس کا این او سی نہیں لیا گیا تو وزیراعلیٰ (یکے از…) نے کمال اعتماد سے جواب دیا، این او سی کا کیا ہے۔ ایک ہفتے میں مل جائے گا۔ ہفتہ تو بہت بڑی بات ہے، انہیں تو این او سی ایک دن میں بھی مل سکتا ہے لیکن انہیں اس کی ضرورت ہی کہاں ہے، آپ کا وجود بذات خود این او سی ہے۔ ایک مشہور فلمی ڈائیلاگ یاد آیا، ہم جو کہہ دیں، وہی قانون ہے۔ ٭٭٭٭٭ بات دورے کی تھی جو تاریخی ترین بھی ہے اور کامیاب ترین بھی۔ کم از کم ’’نتائج‘‘ کے اعتبار سے ایسا سمجھنا ہی چاہیے۔ امتحانات کا نتیجہ نکلا۔ ایک برخوردار سے ماں نے پوچھا، نتیجہ کیسا رہا۔ بولا، ماں میں پہلے نمبر پر آیا ہوں البتہ دوسری طرف سے۔ خیر، نتائج کے نتیجہ خیز ہونے پر تو تجزیہ نگار بحث کرتے ہیں گے، ایک ٹھوس بات پر لیکن کوئی بات نہیں کرے گا۔ خان صاحب چین پہنچے تو وہاں کے وزیر ٹرانسپورٹ نے ان کا استقبال کیا، کسی نے سوچا کہ وزیر ٹرانسپورٹ ہی کیوں؟ چین میں اور بھی تو وزیر ہوں گے، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، وزیر تجارت وغیرہ لیکن حکومت چین کی نگہ انتخاب ٹرانسپورٹ کے وزیر پر ہی کیوں پڑی؟ دراصل، لگتا ایسا ہے کہ چین والوں نے ہمارے خان صاحب کوٹرانسپورٹ کی اہمیت بتلائی ہے۔ انہوں نے خان صاحب کے وہ بے شمار بیانات کہیں سے پڑھ لیے ہوں گے کہ ترقی ٹرانسپورٹ سے نہیں ہوتی، ترقی سڑکوں سے نہیں ہوتی، ترقی پل بنانے سے نہیں ہوتی (اب تو خیر بات یہاں تک پہنچی ہے کہ ترقی ترقیاتی کاموں سے نہیں ہوتی، اسی لیے وہاں اور پنجاب کے ترقیاتی منصوبے، کم و بیش سارے کے سارے، معرض التوا میں ڈال دیئے ہیں اور فنڈز پر تاریخی کٹ لگا دیئے گئے ہیں)۔ چین، باقی ساری دنیا کی طرح اس کے برعکس سوچتا ہے اور کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے، باقی ساری دنیا کی طرح کہ ترقی ٹرانسپورٹ بڑھانے ہی سے آتی ہے۔ حالیہ عشروں میں پورے ملک میں سڑکوں اور پلوں کا ایک وسیع جال بچھا دیا گیا ہے، ریلوں کا نیٹ ورک بھی دگنا کردیا گیا ہے۔ اس کا ایک علاقہ تبت ہے، اتنا دشوار گزار، اتنا بلند اور اتنا پہاڑی کہ اس میں ریلوے لائن بچھانے کو انگریز بھی ناممکن سمجھتے رہے، چین نے اس کے دارالحکومت لہاسا تک ریل نکالی۔ اب دنیا بھر سے کٹے، الگ تھلگ اس علاقے کا ریل رابطہ شنگھائی، بیجنگ سے لے کر سارے چین تک جڑ گیا ہے اور بات صرف لہاسا تک نہیں رکی، وہاں سے ہمالیہ کے دل میں کھٹمنڈو تک پٹڑی بچھائی جانے والی ہے۔ بچھ گئی تو بھارت کے شمال میں واقع یہ گوشہ نشین ملک چین سے ہی نہیں، اس کے راستے شمالی اور وسطی ایشیا اور یورپ سے جا جڑے گا۔ سعودی عرب جیسا صحرائی ملک کچھ عرصے سے دھڑا دھڑ پٹڑیاں بچھا رہا ہے۔ افغانستان میں ریل کی دو پٹڑیاں زیر تعمیر ہیں، کئی کے منصوبے بن گئے۔ چین نے خان صاحب کوٹرانسپورٹ کی اہمیت سمجھانی تھی، وزیر ٹرانسپورٹ سے استقبال کرا کے اپنی سی کوشش کر ڈالی۔ خان صاحب سمجھے کہ نہیں سمجھے، اس کا پتہ ان کے آئندہ کے بیانات سے چل جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ ادھر ادھر کے ذرائع سے ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ میزبانوں نے خان صاحب کے سامنے ایک پلندہ بھی رکھا جو بڑے سلیقے اور ترتیب سے بنایا گیا تھا۔ اس میں سی پیک کے بارے میں خان صاحب کے تمام ارشادات کے علاوہ ان کی کابینہ کے بعض وزیروں کے رشحاتِ فکر بھی شامل تھے۔ پاکستان میں خان صاحب بڑے مصروف رہے، یہاں ایسے ملفوظات کا مجموعہ انہیں پیش کرتا تو وہ کہاں پڑھ پاتے۔ چین میں تو فرصت کے دن تھے، خان صاحب نے اپنے ہی ملفوظات کو ملاحظہ فرما لیا۔خان صاحب چین کے کئی مقامات پر گئے، دیوار چین کا دورہ البتہ نہیں فرمایا۔ یہ بھی اچھا ہوا، ورنہ نیب کی ذمہ داری بڑھ جاتی۔ خان صاحب نے دیوار پر کھڑے کھڑے ہی چیئرمین صاحب کو فون کردیا تھا کہ اتنا بڑا منصوبہ کمشن اور کرپشن کے بغیر بن ہی نہیں سکتا، شریفوں کے خلاف ایک ریفرنس اور تیار کرو، جلدی! ٭٭٭٭٭ ادھر دورہ چین ہی کے حوالے سے ایک ماجرا ایسا ہوگیا کہ پی ٹی وی کے کچھ ملازموں کی شامت آ گئی۔ پتہ چلا ہے کہ ڈائریکٹر نیوز سمیت متعدد ملازم معطل کردیئے گئے ہیں اور ان کے خلاف تحقیقات شروع ہیں۔ ماجرا چند سیکنڈ کا تھا۔ دورہ چین میں خان صاحب ایک جگہ خطاب کر رہے تھے کہ سکرین کے شمال مغربی کونے میں ایک چھوٹی سی ڈبیہ نمودار ہوئی جس میں انگریزی کا لفظ Begging لکھا ہوا تھا۔ غالباً بیجنگ لکھنا تھا، سپیلنگ غلط ہو گئے اور یوں غلطی با معنی ہو گئی۔ اردو میں اس ڈبیہ کا ترجمہ یوں بنتا ہے کہ: ’’مانگ رہا ہے۔‘‘ ٹی وی ملازموں پر حکومت کا عتاب سمجھ میں نہیں آیا۔ ہم کہیں جاتے ہیں تو کچھ دینے تو نہیں جاتے، لینے ہی جاتے ہیں یعنی مانگنے۔ خان صاحب کی پارٹی اور حکومت نے تو اس ضرب المثل کو ہمارا سگنیچر سائن بنا لیا ہے کہ لینے والا ہاتھ دینے والے سے بہتر ہوتا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں سے ہم مانگنے اور قرض لینے کے فضائل جس کثرت سے سن رہے ہیں، اتنے تو ہم نے قائداعظم کے اقوال نہیں سنے۔ اس ذرا سی ڈبیہ میں ذرا بھی غلط نہیں تھا، پھر اتنی قہرسامانی کیوں۔ ٭٭٭٭٭ صدر مملکت نے کراچی کی ایک تقریب میں کیا خوب فرمایا، انتخابات اور شادی سے پہلے کئے جانے والے وعدے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ صدر صاحب نے وعدوں کی حکومتی فراموشی کا جواز پیش فرمانے کی کوشش کی ہے۔ ماضی قریب کے ایک اور صدر صاحب یاد آئے، انہوں نے فرمایا تھا، وعدے کوئی قرآن حدیث تو نہیں ہوتے۔اس بات پر ان کی خوب شامت آئی تھی۔ موجودہ صدر صاحب خوش قسمت ہیں کہ کسی نے ان کے اس ’’اقوال زریں‘‘ پر ایک لفظ نہیں کہا۔ سابق صدر کے نصیب اتنے اچھے نہیں تھے، ان پر تو ٹی وی والوں نے سینکڑوں مذمتی پروگرام کئے۔