اس پر اللہ کی مار جو یہ سمجھے کہ وزیر اعظم کا دورہ امریکہ ناکام رہا ہے۔ ایسا شخص بہت شقی القلب ہو گا۔تاہم یہ تو ایک قوم کی حیثیت سے ہمارا حق بتائیے کہ ہم تجزیہ کریں کہ اس کامیاب دورے کے اثرات ہم پر کیا مرتب ہوں گے۔ آج برادرم رئوف طاہر نے ہمارے سربراہان کے وہ دورے گنوائے ہیں جو انہوں نے اب تک امریکہ کے کئے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی سفارتی زبان میں حیثیت کیا رہی ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خاں کے اس دورے نے صدر ایوب خاں کے دورے کی یاد تازہ کر دی ہے اس دورے سے پہلے ہم نے اپنی ملکہ برطانیہ کا استقبال کیا تھا کہ وہ اس وقت تک بھی ہماری ملکہ تھی‘ ہم نے ابھی آئین بنا کر ریپلک کی حیثیت حاصل نہ کی تھی اور ہم تب تک ڈومینین تھے۔ کیا جلوس تھا‘ ہم ایسے سرشار ہوئے تھے کہ ہمارے سچے ادیبوں نے بھی صرف تعریفی و توصیفی نظمیں نہ کہی تھیں بلکہ تخلیقی سطح پر ایک آدھ لازوال شہپارہ بھی وجود میں آیا تھا۔ ہم نئے نئے آزاد ہوئے تھے۔ اب اپنے پرانے آقائوں کواپنے درمیان پا کر ایک عجیب جذبے سے سرشار تھے۔ تو عرض کر رہا ہوںکہ بے ساختہ ایوب خاں کا دورہ امریکہ یاد آیا۔ کس طرح پرکشش و دل آویز صدر کینیڈی اور ان کی خوبرو اہلیہ نے ایوب خاں کا استقبال کیا اور ایسی آئو بھگت ہوئی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ہم کہتے تھے‘ ہمارے خوش جمال صدر کو دیکھو‘ کیا وجیہہ شخصیت ہے‘ قد کاٹھ بھی اللہ نے خوب دے رکھا ہے۔ کینیڈی تو کینیڈی ‘ جب ڈیگال بھی ساتھ کھڑا ہوتا تو صاف پتا چلتا کہ صدر کیسا ہونا چاہیے۔ دوسری طرف بھارت جو اس وقت بھی بڑا ملک تھا‘ اس کے وزیر اعظم نہرو کو ایسی کروفر والا استقبال نہ مل سکا۔ یہ تو بعد میں تجزیے کرتے رہے کہ امریکہ کا مقصد کیا تھا اس نے کیوں یہ انداز اختیار کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا خیال تھا کہ پاکستانی قوم اور پاکستانی صدر دونوں اس پر فخر محسوس کریں گے۔ ہم امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں شامل تھے اور امریکہ اس وقت بھی جنگوںمیں الجھا ہوا تھا۔ اس وقت یاد نہیں کہ روس نے پشاور سے اڑنے والاu-2طیارہ اس سے پہلے مار گرایا تھا اور خرو شیف نے کہا تھا کہ میں نے پشاور کے گرد سرخ نشان لگا دیا ہے‘ یا یہ واقعہ اس کے بعد پیش آیا تھا۔ ویت نام کی صورت حال کا تاریخی سیاق و سباق بھی یاد نہیں۔ البتہ کوریائی جنگ ختم ہو چکی تھی۔ ہم اپنے بادشاہ کی پذیرائی پر پھولے نہ سماتے تھے اور گندم ‘ گھی ‘ دودھ پی ایل 480کے تحت خوب خوب اڑا رہے تھے۔ مرا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ میں اس دورے کو اس تناظر میں دیکھوں۔ مگر سوچنا یہ ہے کہ امریکہ اچانک ہم پر دوبارہ مہربان کیوں ہو گیا ہے۔ کیا اب بھارت اس کا سٹریٹجک پارٹنر نہیں ہے۔ ان دنوں تو ہمیں یہ حیثیت حاصل تھی‘ اب تو شاید ہم نان نیٹو اتحادی بھی نہیں (باقی صفحہ4نمبر1) رہے ہیں۔ اس وقت پوری قوم امریکہ کی دوستی پر فخر کیا کرتی تھی اور روس کو ’’کافر‘‘ سمجھتی تھی۔ آج کل تو ایسا نہیں ہے۔ آج کل ہمارے ہاں ایک نہیں دو دو کافروں سے بہتر تعلقات کی خواہش ہے۔ چین تو ہمارا یار ہے ہی‘ روس کی طرف بھی ہم للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر یہ تبدیلی قلب کیسے ہوئی ہے۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ وہ افغان جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے اوراس کے لئے اسے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ ویسے یہ اتنی سی بات بھی نہیں ہے۔ یہ مطالبہ تو وہ پہلے بھی کرتا رہا ہے اور ہم اسے وعدہ نبھانے کی نوید دیتے ہیں۔ اب ہم نے کون سے غیر معمولی اقدامات کئے ہیں کہ امریکہ ہم سے اچانک راضی ہو گیاہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے دنوں میں امریکہ نے ہماری بہت تعریف کی‘ پھر اسی آپریشن کے دوران اعلان کر دیا کہ پاکستان وہ نہیں کر رہا جو اسے کرنا چاہیے۔ اگلے ہی روز ہمارے کور کمانڈر پشاور نے اعلان کر دیا کہ مشن مکمل ہوا‘ اب بس ہم اسے سمیٹ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ردالفساد‘ ضرب غضب کا تکملہ تو یہ ہو سکتا ہے اس کی توسیع نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم افغان جنگ سمیٹنے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب جنرل باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی تو ہمارے دوست لیجنڈری میجر عامر نے کہا تھا کہ یہ باجوہ افغان مسئلہ حل کرے گا۔ ایک تو جنرل باجوہ ان کے بیچ میٹ تھے وہ ان کو سمجھتے ہیں دوسرے وہ افغان مصالحتی عمل میں شامل رہے ہیں اس لئے صورت حال کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ امریکہ سے ہمارے تعلقات سکیورٹی کی بنیادوں پر استوار ہیں۔ لیاقت علی خاں سے لے کر ایوب خان تک جو مسئلہ شروع ہوا تھا وہ آج تک ہے۔ ہمارے واضح جھڑپ اس وقت ہوئی جب جنرل کیانی چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ یورپ میں ہمارے آئی ایس آئی چیف کی امریکہ کے خفیہ ادارے سے ایک سہ روزہ میٹنگ تھی۔ جنرل پاشا ایک ہی دن میں واپس آ گئے۔ تلخی کی کچھ باتیں سامنے آئیں۔ پھر جنرل کیانی کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا۔ ایڈمرل مولن تھے غالباً ‘جن کے کیانی سے یوں تو اچھے تعلقات بتائے جاتے تھے اور وہ پاکستان اور پاکستانی آرمی چیف کی تعریف کرتے تھے‘ مگر جاتے جاتے انہوں نے بھی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ یہ وہ دور تھا جب فوج نے کیری لوگر بل پر اعتراضات کئے۔سلالہ واقعے کے بعد نیٹو کی سپلائی بند کر دی۔ امریکہ بھی اڑا رہا اور ہم بھی ڈٹے رہے۔ میمو گیٹ اور ایبٹ آباد کا واقعہ انہی دنوں کی یادگار ہے۔ میں تو صاف کہتا ہوں کہ یہ وہ زمانہ نہ تھا جب پاک فوج نے امریکہ کو پہلی بار آنکھیں دکھائیں اور صاف کہہ دیا ہم طفیلی فوج نہیں ہے۔ خطے کی صورت حال بھی بدل رہی تھی۔ جیو سٹرٹیجک منظر نامے میں فرق آ رہا تھا۔ ہماری دفاعی ضروریات بھی اب امریکہ کی محتاج نہیں رہی تھیں۔ ہم چین کے قریب ہو رہے تھے۔ یہ وہ بات تھی جو امریکہ کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ سی پیک آنکھوں میں کھنکنے لگا تھا۔ اب نئی حکومت کے آتے ہی سی پیک کے مخالف سرکار کی صفوں میں سرگرم عمل ہو گئے۔ سفارت کار‘ اقتصادی ٹیکنو کریٹ اورسیاست کے پردے میں آئے ہوئے نئے چہرے اچانک سی پیک کو دوسری ایسٹ انڈیا کہتے تھے یا کم از کم ایک وزیر ٹائپ مشیر نے تو یہ تک کہہ دیا کہ سی پیک ایک سال کے لئے ملتوی کر دینا چاہیے اور ہم نے کر دیا۔ ہمارے بازو مروڑ کر ہمیں آئی ایم ایف کے سامنے لاکھڑا کیا گیا۔ یہ جو تعلقات اچھے ہوئے ہیں اس پر ہمیں لڈیاں نہیں ڈالنا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا اصل میدان ہمارا اپنا ملک ہے۔ ایوب خاں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس نے دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں جنگ جیت لی تھی۔ مگر اپنے وطن میں ہار گیا تھا۔ اصل جنگ پاکستان کے اندر ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کی غیر ملکی خصوصات امریکی پذیرائی کے نتیجے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا بھی کوئی وطن ہے۔ قومی مقتدرہ(اسٹیبلشمنٹ) کے ساتھ اگر عالمی مقتدرہ بھی آپ کے ساتھ ہو تو لگتا ہے آپ بہت مضبوط ہیں۔ بلکہ گمان ہوتا ہے کہ جواز حکمرانی Legiticmacyحاصل ہو گیا ہے۔ ایوب خاں کا تو مسئلہ تھا مگر ہمارے ہاں بھی جس طرح سلیکٹڈ سلیکٹڈ کی گردان ہو رہی ہے ‘ اس میں بھی اندیشہ ہے کہ کہیں یہ غلط فہمی سر نہ اٹھا لے کہ اب سب ٹھیک ہے۔ پاکستان کی تاریخ بالکل مختلف ہے۔ یہاں جمہوریت ‘ شہری آزادیاں‘ انسانی حقوق‘ غربت‘ مہنگائی ہر چیز اثر کرتی ہے۔ اس قسم کی عالمی پذیرائی اگر حکمرانوں کو ملکی معاملات اور عوامی مسائل سے بے خبر اور بے نیاز کر دے تو یہ نہ ان کے لئے اچھا ہو گا نہ ملک کے لئے۔ یہ تو میں صرف ابتدائیہ لکھ پایا ہوں جو خاصا طویل ہو گیاہے۔ اس دورے کی کامیابی کی مدح سرائی بھی کی ہے تو اس طرح کہ گویا اس کے چنگل سے بچ کر رہو۔ ہم ماضی میں اس کے ڈسے ہوئے ہیں۔ بات تو یہ سچ ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری آنکھوں کے کانٹے چننے کا وقت آ گیا ہے۔ اب اس میں 12برس لگتے ہیں یا کوئی اور آ کر اس کی تکمیل کرتا ہے۔ یہ بات میں صرف تلمیح کے طور پر بیان کر رہا ہوں وگرنہ سچی بات یہ ہے کہ ہم نے ایک بہت اہم منزل طے کی ہے۔ (جاری ہے)