ایسے وقت میں جب عدلیہ ،حکومت ،فوج اورمیڈیا رائے عامہ کے فوکس پر ہے، پاکستان کے 27ویں چیف جسٹس گلزار احمد نے حلف اٹھا لیا ہے۔ چیف جسٹس جن کا تعلق سندھ سے ہے ،یکم فروری2022 ء تک اس منصب پر فائز رہیں گے وہ بڑے اطمینان سے اپنا ایجنڈا طے کرسکتے ہیں جیسا کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں ان کے یہ ریمارکس کہ کرپشن کے ساتھ سختی سے نمٹنا ہو گا اور سوموٹو اختیار کا استعمال بھی آئین کا حصہ ہے ، ان کے ایجنڈے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوموٹو سے سختی سے اجتناب برتا ،غالباً یہ ان کے پیشرو جسٹس ثاقب نثار کے ہتھ چھٹ سوموٹو نوٹس لینے کا فطری ردعمل تھا کیونکہ ثاقب نثار صاحب نے آئین میں دیئے گئے سوموٹو اختیار کا ایسا بے محابہ استعمال کیا کہ جیسے وہ چیف جسٹس نہیں بلکہ حکمران بننا چاہتے ہوں ۔ تعلیمی ادارے ،ہسپتال، تقرریاں وتبادلے حتیٰ کہ ڈیم بنانے اور ان کے فنڈز اکٹھے کرنا ان کاوشوں کا نتیجہ بن گئے۔ اس دور کی ہذیانی کیفیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار ہفتہ اور اتوار کی تعطیلات میں بھی عدالت لگاتے تھے، ان کے مقابلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدلیہ کا توازن بحال کیا وہ اس لحاظ سے ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئے کہ وہ کلمہ حق کہتے رہے لیکن جابر سلطان سے پوچھ کر نہیں ۔ان کے دور میں عدلیہ واقعی آزاد ہو گئی اور ماضی کی طرح حکمرانوں اور طاقتوروں کی مرغ دست آموز نہیں بنی ۔بطور جج وہ ’پاناما گیٹ ‘ کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ تھے جس نے نوازشریف کو کرپشن تو نہیں بلکہ اقامہ کی بنیاد پر نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہٹایا بلکہ جنرل ضیاء الحق کی طرف سے آئین میں شامل کئے گئے آرٹیکل 62اور 63کے تحت صادق اور امین نہ ہونے پر زند گی بھر کے لیے نااہل قرار دیا ۔ انھوں نے اپنے فیصلے میں میاں نوازشریف کو سسلین مافیا سے تعبیر کیا ۔اس کیس میں سپریم کورٹ نے جو ٹائم لائن دی اور انصاف کیا اسے متنازعہ ہی قرار دیا جائے گا لیکن اس فیصلے پر مقتدر قوتیں اور عمران خان بہت خوش تھے۔ اس وقت تحریک انصاف کا بیانیہ یہی تھا کہ عدلیہ آزاد ہو گئی ہے ، بعدازاں ان کے چیف جسٹس بننے کے بعد جس انداز سے سپریم کورٹ بالخصوص اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے صادر کئے وہی حلقے جو اس عدلیہ کے آزاد ہونے کے سرٹیفکیٹ بانٹتے تھے اس پر اپوزیشن بالخصوص نوازشریف کے آلہ کار ہونے کا الزام عائد کرنے لگے۔ ان قباحتوں کے باوجود حکومت اور عدلیہ کی ورکنگ ریلیشن شپ قائم رہی ۔لیکن جب لاہور ہائیکورٹ نے نوازشریف کو بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دی تو حکومت نے سات ارب کا انڈیمنٹی بانڈ مانگ لیا جب عدالت نے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط ختم کر دی تو وزیراعظم خاصے برہم ہو گئے اور انھوں نے اپنی ایک تقریر میں اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور آنے والے چیف جسٹس گلزار احمد سے کہا کہ وہ انصاف کے دوہرے معیار کو ختم کریں کیونکہ یہاں طاقتوراور کمزور کے لیے الگ الگ معیار ہے ۔اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ اسی عدلیہ نے دو وزرائے اعظم کو گھر بھیجا نیز نوازشریف کو بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ عدلیہ نے نہیں حکومت نے کیا تھا ۔عدلیہ نے صرف بانڈ والی( غیر قانونی وآئینی) شرط اڑائی تھی ۔خان صاحب کو تو یہ تاثر دیا گیا تھاکہ نوازشریف بھلے چنگے تھے اور انھیں جُل دے کر نکل گئے ہیںجس کا غصہ انھوں نے عدلیہ پر نکال دیا ۔ اس کے فوراً بعد جب ایک پروفیشنل درخواست گزار نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے درخواست دی تو چیف جسٹس نے اسے آڑے ہاتھوں لے لیا، یہاں سے ہی عدلیہ کے ساتھ حکومت اور فوج کی کھلے عام ناچاقی کی داستان شروع ہوتی ہے ۔حکومتی لیگل ٹیم کی نالائقی اور قانون میں سقم ہونے کی بنا پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کو چھ ماہ کی توسیع دی اور ہدایت کی اس مدت میں پارلیمنٹ قانون سازی کرے گویا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بیک جنبش قلم آرمی چیف کا عہدہ جو اس ملک میں سب سے طاقتور سمجھا جاتا ہے کو بھی قواعد اور قانون کے تابع کر دیا لیکن اس کے ساتھ ہی نہلے پر دہلا سابق آمر پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کے الزام میں سزائے موت دینے کا فیصلہ اور اس سے بھی بڑھ کر تفصیلی فیصلے میںجسٹس وقار سیٹھ کے یہ ریمارکس کہ سزا پر عملدآمد کے لیے پرویز مشرف کو لایا جائے اور اگر عملدرآمد سے پہلے ان کا انتقال ہوجاتا ہے تو نعش کو گھسیٹ کر لایا جائے اور تین روز تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر لٹکایا جائے ۔ عدلیہ کے فیصلے اور تفصیلی فیصلے کے بعد دونوں مواقع پر فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے دو بیانات سامنے آئے جن میں ان فیصلوں پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان سے تفصیلی بات چیت کی جس کے بعد اب فیصلہ کیا گیا ہے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میںریفرنس دائر کیا جائے گا ۔ اس تناظر میں چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہو گا کس طرح ایک طرف تو عدلیہ کی آزادی کے نئے بینچ مارک جو جسٹس آصف سعید کھوسہ مقرر کر گئے ہیں کو جاری وساری رکھا جائے اور دوسری طرف اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی طرف جیسا کہ وزیراعظم عمران خان نے اشارہ کیا ہے یعنی عدلیہ ایک طرف حکومت اور فوج دوسری طرف کا مداوا کیا جائے ۔ویسے تو عدلیہ کی آزادی کو ٹکراؤ سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے لیکن وطن عزیز میں جہاں عدلیہ قر یباً ہر دور میں فوج اور سول حکمرانوں کی تابع مہمل رہی ہے موجودہ صورتحال سے فطری طور پر تصادم کی بو آتی ہے۔ابھی یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ نئے چیف جسٹس کے دور میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن واضح رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے کیس میں جسٹس گلزار بھی فیصلہ دینے والے بینچ کے رکن تھے ۔ سپریم کورٹ کے ہر سربراہ کے طریقہ کار کی اپنی چھا پ ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر جسٹس افتخار محمد چودھری اگرچہ وکلا تحریک کے نتیجے میں بحال ہوئے لیکن ان کا دور بطور چیف جسٹس مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا وہ لٹھ لے کر پیپلزپارٹی کی حکومت کے پیچھے پڑ گئے اور جیسا کہ اعتزاز احسن نے جو ان کے دست راست تھے لیکن بعدازاں ان کے طریقہ کار سے متنفر ہوکر پیچھے ہٹ گئے تھے ‘نے حال ہی میں 92نیوز پر میرے پر وگرام ’ہوکیا رہا ہے ‘میں کہا کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت لگا کر فارغ کرنا مبنی برانصاف نہیں تھا ۔وزیراعظم گیلانی پر الزام تھا کہ انھوں نے صدر آصف زرداری کے خلاف سوئس حکام کو خط کیوں نہیں لکھا ۔ اسی طرح جسٹس ثاقب نثار کا اپنا انداز تھا ۔جسٹس گلزار احمد کے پیشرو جسٹس کھوسہ سال سے بھی کچھ کم عرصہ کے لیے چیف جسٹس رہے لیکن انھوں نے اپنا لوہا منوا لیا ۔ اب جسٹس گلزار احمد 2سال سے کچھ زائد عرصے تک اپنے منصب پر فائز رہیں گے ان کے پاس وقت ہے کہ وہ عدلیہ کے لیے کیا روڈ میپ بناتے ہیں ۔ حکومت کو بھی عدلیہ کو اپوزیشن تصور نہیںکرنا چاہیے ۔ لا افسر بھی عدلیہ کا حصہ ہوتے ہیں اس لحاظ سے موجودہ اٹارنی جنرل انور منصور کا سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر کیچڑ اچھالنا اور فل کورٹ ریفرنس کا بائیکاٹ کرنا صرف ان کی نہیں پوری عدلیہ کی توہین کے زمرے میں ہی آئے گا ۔