یکم اور2 مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں آبی تنازعات پرپاک بھارت مذاکرات ہو رہے تھے لیکن مذاکرات کے دو دور ہونے کے بعد بھی معاملات سلجھ نہ سکے ۔جس کے بعد انڈس واٹر کمشنرز نے31مئی2022ء سے قبل ایک اور مذاکراتی رائونڈ پر اتفاق کرلیا، بھارتی رویہ دیکھ کر رواں سال مئی میں منعقد ہونے والے مذاکرات میں بھی بھارت سے آبی معاملات سلجھنے کی بظاہر کویہ امید دکھائی نہیں دیتی ۔ اسلام آبادمیںپاک بھارت آبی تنازعات پر مذاکرات کا آغاز ہوا تو پاکستان نے دریائے سندھ، چناب اور پونچھ پر 10 بھارتی ڈیموں کے ڈیزائن پر اعتراض کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ بھارت2019ء سے دریائوں میں پانی کے بہائو کا ڈیٹا شیئر نہیںکر رہا جس کی وجہ سے پاکستان کو سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس پر بھارت نے اپنی اکڑ کا مظاہرہ کرتے ہوئے متنازع ڈیمز پر پاکستان کے اعتراضات ماننے سے انکار کر تے ہوئے پانی کے بہائوکا ڈیٹا شیئر کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ سندھ طاس معاہدے میں پانی کا ڈیٹا شیئر کرنے کی کوئی شق شامل نہیں۔دوسری طرف بھارتی آبدوزپاکستان کے سمندری حدود میں در آئی۔ بلاشبہ یہ تمام امور الارمنگ ہیں۔ بھارت کی اکڑ اس کے جارحانہ عزائم کونہ صرف طشت از بام کرتی ہے بلکہ بھارتی رویہ اوراس کا طرزعمل پاکستان کو اپنی تمام خوش فہمیوں سے باہر نکلنے اورجرأت مندی کے ساتھ اینٹ کاجواب پتھر سے دینے کاعملی مطالبہ کر رہا ہے ۔ یکم مارچ عین اس موقع پرجب اسلام آباد میںآبی تنازع پرمذاکرات ہو رہے تھے بھارتی آبدوز پاکستانی سمندرمیں موجود پائی گئی۔ 2مارچ 2022ء کوا فواج پاکستان کے شعبہ تعلقاتِ عامہ(ISPR) کے ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا ہے کہ پاکستانی بحریہ نے ایک اور بھارتی آبدوز کا سراغ لگا کر اس کی پاکستانی حدود میں داخلے کی کوشش ناکام بنا دی۔انہوں نے بتایا ہے کہ پاک بحریہ کے انسدادِ سب میرین یونٹ نے یکم مارچ2022ء منگل کو بھارتی کلاوری کلاس آبدوز کا سراغ لگایا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا ہے کہ پاک بحریہ کا بھارتی آبدوز پکڑنے کا گزشتہ5 سال میں یہ پانچواںواقعہ ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی آبدوز کا سراغ لگایا جانا پاک بحریہ کی مستعدی اور عزم کا عکاس ہے۔ اسے قبل اکتوبر 2021ء میں بھی ایک بھارتی آبدوز نے بحیرہ عرب میں پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جس سے روک دیا گیا تھا۔ ا فواج پاکستان کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھاکہ16 اکتوبر2021 ہفتے کو بھارتی آبدوز کو پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روک دیاگیا۔ بیان میں بتایا گیا تھاکہ جب بھارت کی آبدوز یا سب میرین کی نشاندہی کر لی گئی تو پاک بحریہ نے اس کو بحیرہ عرب میں پاکستان کی سمندر حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس آبدوز کی نشاندہی پاکستانی بحریہ کے لانگ رینج سمندری گشتی یونٹ نے کی تھی۔اس وقت بھی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھارتی آبدوز کی نشاندہی کو ملکی بحری فوج کی ان تھک نگرانی اور پیشہ ورانہ مہارت کا ایک شاندار نمونہ قرار دیا ۔اس بیان میں یہ بھی واضح کیا گیاتھا کہ دونوں ملکوں کے موجودہ تعلقات اور سمندری سکیورٹی خدشات کے تناظر میں پاکستانی نیوی ملکی سمندری حدود کی نگرانی اور تحفظ کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رکھے ہوئے ہے۔ آبدوزوں کے پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے کے واقعات کو آئی ایس پی آر نے بھارت کا سازشی عمل قرار دیا۔ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان میں یہ بھی بتایا گیا تھاکہ16 اکتوبر 2021ء کا واقعہ پہلا نہیں تھا بلکہ تیسری مرتبہ بھارتی نیوی کی سب میرین نے پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ یہ بھی کہا گیاتھا کہ ہر مرتبہ نشاندہی ہونے پر بھارتی آبدوزوں کا راستہ روک دیا گیا۔ایسا ہی ایک واقعہ مارچ 2019 ء میں رونما ہوا تھا۔ تب پاکستانی نیوی نے اپنے بیان میں ملکی سمندری سرحدوں کے دفاع کا عزم ظاہر کیا تھا۔ پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کسی بھارتی آبدوز کی پہلی کوشش نومبر 2016ء میں کی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ پانچ برسوں کے دوران اتنی بار بھارتی آبدوزپاکستان کے سمندری حدودمیں درکیوں آئی کیاوہ ڈولفن کی طرح اندھی ہے کہ اسے اپنے اورپاکستان کی سمندری حدودنظرنہیں آتیں یایہ کہ بھارت سمندرمیں کوئی ایڈوانچر کرناچاہتاہے ۔لمحے کے لئے سوچیں کہ اگر پاکستانی آبدوزنے اس طرح کی حرکتیں کی ہوتی توبھارت کاردعمل کیاہوتا۔صبراورضبط کی کوئی حد ہوتی ہے لیکن جب باربار آپ بھارت کی اوچھی حرکتیں ملاحظہ کرتے ہیں تواس کاایساردعمل دیا جانا چاہئے کہ ہندو بنیامیںیہ جرات ہی پیدا نہ ہو کہ وہ دوبارہ کبھی ایسی حرکت کرے۔ بھارت کی طرف سے پانچ برسوں کے دوران پانچ بار سمندری حدود میں دراندازی کوئی معمولی بات نہیںبلکہ بھارت کی طرف سے کی جانے والی ان حرکیات نے پاکستان کے تزویراتی استحکام کو متاثر کیا ہے۔بھارتی دراندازی کے یہ جارحانہ اقدامات اس بات کے غماز ہیں کہ بحرِ ہند میں بھارت کی طرف سے جوہری ہتھیاروںکا پھیلائو ہو رہا ہے ۔ بھارتی آبدوزکی دراندازی سے صاف پتاچلتا ہے کہ بھارت زیرِ سمندر جوہری مقابلہ بڑھا رہا ہے حالانکہ ویسے ہی خطے کی سکیورٹی کو ان گنت چیلنجز کا سامناہے۔ جنوبی ایشیائی جوہری عدم توازن کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کا بحری جوہری ڈیٹرنس دراصل بھارتی اقدامات کا رد عمل ہے۔ اب چونکہ دونوں نے جوہری اثاثوں کی سمندر میں تعیناتی کر دی ہے تو ایسے میں بھارت کوہوش کے ناخن لینے چاہییں۔ سمندر پر حادثے کے بچاؤ جس پر پاکستان اور بھارت اعلانِ لاہور میں پہلے ہی رضامندی ظاہر کر چکے ہیں (CBMs) کے ذریعے کشیدگی کو روکنے کیلئے زیر غور لانا چاہیے۔بھارت کو یہ احساس دلانے کے ساتھ ساتھ اس کی حرکتوں سے اسے باز آنے کا دوٹوک پیغام دیناچاہئے اوراگروہ اپنے عزائم بدسے باز نہیں آتاتواسے عملی طورپرسبق سکھا دیناناگزیر ہو چکا ہے ۔