سچ یہ ہے کہ باقی بلتستان دیکھنے کی خواہش ایک طرف اور دیوسائی کا حسن دیکھنے کی آرزو دوسری طرف۔پلڑا دیوسائی ہی کا بھاری رہتا تھا۔ تصور نے کچھ تصویریں بنا لی تھیں اور انہیں محفوظ بھی کرلیا تھا۔اورآپ جانتے ہیں کہ اکثر خیال اور تصور کی تصویریں زیادہ دل کش ہوتی ہیں۔ دیوسائی نیشنل پارک 14500فٹ کی بلندی پر ایک بڑا،لمبا چوڑا میدان ہے۔کتنا بڑا؟ بس یہ سمجھ لیجیے کہ3ہزار مربع کلومیٹر لمبا چوڑا ایک بہت بڑا پلیٹو۔اس اونچائی اور رقبے میں اگر کوئی دوسرا میدان اس کی ہمسری کرتا ہے تو وہ تبت کا’ ’ چینگ ٹینگ ‘ ‘ پلیٹو ہے۔دیوسائی کا مطلب ہے جنّوں کی سرزمین۔ جولائی کے وسط سے اگست کے شروع تک ایسے رنگ برنگ جنگلی پھول اور بوٹیاں کھل اٹھتے ہیں کہ بس یہاں سے وہاں تک حد نظر میدان بھر جاتے ہیں۔اقبال کے کوہ و دمن چراغ لالہ سے روشن ہوتے ہیں اور یہاں صرف لالہ نہیں ان گنت رنگوں اور قسموں کے پھول یہاں روشن ہوجاتے ہیں۔رنگوں اور قسموں کی گنتی بھی ممکن نہیں۔ دیوسائی کے تین راستے ہیں۔شمال کی طرف سے سکردو سے، جنوب مشرق میں گلتری سیکٹر سے اور مغرب میں استور کی طرف سے دیوسائی پہنچا جاسکتا ہے۔قریب ترین راستہ سکردو سے ہے ۔ دیوسائی میں جنگلی حیات بھی بڑی نایاب ہے۔بھورے ریچھ (جن کی تعداد 1993ء میں دیوسائی کو نیشنل پارک قرار دینے کے وقت خطرے سے دوچار تھی لیکن اب تعداد بہتر ہورہی ہے)،ہمالین آئی بیکس(پہاڑی بکرا)،سرخ لومڑی،سنہرا مرموٹ(خرگوش کی نسل کا جانور جسے فیا بھی کہتے ہیں)،سرمئی بھیڑیا،لداخ اڑیال اور برفانی چیتا شامل ہیں۔اسی طرح سنہرا عقاب،باز،شکرا وغیرہ بھی یہاں کی خصوصیت ہیں۔ 28 جولائی2019 ء اتوار کی صبح آٹھ بجے ہم روانگی کے لیے تیار تھے۔میزبانوں نے پراڈو کا ٹینک فل کروالیا تھا کیوں کہ راستے میں پٹرول کہیں نہیں مل سکتا تھا۔گھٹاؤں بھرے موسم میں دوپہر تین بجے کے بعد بارش کی پیش گوئی تھی۔سد پارہ جھیل کے سبز پانیوں سے سد پارہ گاؤںتک سڑک دریا اور نالے سے ذرا ہی بلندی پر ساتھ ساتھ چلتی ہے۔یہ دیوسائی سے پہلے آخری آبادی ہے اس کے بعد سڑک پہاڑ کے ساتھ ساتھ بلند ہوتی جاتی ہے۔ذرا ہی دیر کے بعد وہ بیرئر چوکی آجاتی ہے جہاں سے دیوسائی نیشنل پارک شروع ہوتا ہے۔نیشنل پارک میں کسی بھی قسم کی رہائشی تجارتی تعمیر یاراستے بنانا ممنوع ہے۔یہاں سے مسلسل چڑھائی شروع ہوتی ہے۔اس کچے پکے پتھریلے اور ناہموار راستے کو بہت مبالغے کے ساتھ ہی سڑک کہنا ممکن ہے ۔ سرمئی سڑک تو کافی پہلے ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ دیوسائی میدان حیرت انگیز حد تک خوب صورت ہے۔ایک بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ چونکہ14500فٹ بلند یہ سطح مرتفع درختوں کی آخری حدسے اوپر ہے اس لیے کہیں کوئی درخت تو کیا جھاڑی بھی نہیں ۔اس لیے نظر کے سامنے کوئی رکاوٹ بھی نہیں بنتی۔ میدان کے لفظ سے کہیں آپ کے ذہن میں ایک مسطح چپٹا ہموار میدان نہ آجائے ۔یہ اونچی نیچی بہت کھلی چراگاہیں ہیں جس میں بہت سی پہاڑیاں موجود ہیں۔یہ الگ بات کہ یہ پہاڑیاں بہت حسین مدوّر پہاڑی ڈھلانیں ہیں۔جگہ جگہ پہاڑیوں سے چشمے جھرنے پھوٹ رہے ہیں اور پگھلتی برف کا پانی درمیان کی اونچی نیچی بلندیوں اور میدانوں میں کہیں آبشار، کہیں آب جواور کہیں دریا کی صورت میں بہہ رہا ہے۔یہ دریا کہیں کہیں تین چار شاخوں میں بٹ کر گھاس اور پھولوں بھرے میدانوں کو مزید شاداب کرتا ہے۔ جہاں جہاں اس پگھلتے، اترتے اور بہتے پانی کو نشیب کا ایک پیالہ مل گیا وہاں اس نے جھیل بنا لی۔دائیں بائیں رنگ رنگ کے لاکھوں جنگلی پھول ہیں۔دور اور نزدیک برف پوش پہاڑ،ہر موڑ پر بدلتے منظر اور ڈھلوانوں اور میدانوں کے درمیان وہ کچا راستہ جس پر آپ کی گاڑی چل رہی ہے۔ پورے راستے میں نہ ہوٹل ،نہ عمارت ،نہ چوکی۔بس حد نظر تک سیراب ،امنڈتی چراگاہیں۔ہر جگہ دل فریب چنانچہ تصویروں کے لیے موزوں۔کالا پانی،شتونگ نالہ،چھوٹا پانی اور بڑا پانی۔ بڑا پانی پر رسوں کا وہ متروک پل ابھی موجود ہے جو دیوسائی کے حوالے سے ہمیشہ کیلنڈرز اور نمائندہ البم کی زینت بنتا تھا۔پختہ پل نے اس کی جگہ لے لی ہے اور یہیں ایک ٹینٹ ہوٹل بھی موجود ہے جہاں کچھ کھانے پینے کی چیزیں مل جاتی ہیں۔لیکن ہمیں تو شیوسر جھیل پہنچنا تھا جو یہاں سے لگ بھگ 40 منٹ کے فاصلے پر تھی ۔ہم چلتے رہے۔سنہرے مرموٹ ہمارے سامنے سے سڑک پار کرکے گزرتے رہے۔موسم خوب صورت تھا، ہلکی بوندا باندی نے اس جگہ کے حسن میں اضافہ کردیا تھا۔ شیوسر جھیل کی پہلی جھلک دیکھنے کی بے تابی تھی لیکن حسن آسانی سے رسائی کہاں دیتا ہے۔یہ شعر اسی وقت، اسی راستے اور اسی انتظار کی دین ہے جرأت آزمائی بھی ، صبر آزمائی بھی سہل تو نہیں ہوتی حسن تک رسائی بھی بالآخر ایک ٹیلہ چڑھتے ہی نیلے پانی کی ایک جھلک دکھائی دی اور رفتہ رفتہ یہ حسن بے حجاب سامنے آتا گیا۔جھیل اتنی خوب صورت ہے کہ اسے بجا طور پر دیوسائی کا دل کہتے ہیں۔ شیوسر جھیل بے حد حسین ہے۔کتنی حسین؟ یہ لفظوں میں بتانا مشکل ہے۔دراصل ارد گرد کا منظر جھیل کے اپنے منظر میں شامل ہوکر اسے ایک بے مثال نظارہ بنا دیتا ہے۔نیل گوں پانی میں پڑتے برف پوش اور سبز پوش پہاڑوں کے جھلملاتے عکس،پہاڑی ڈھلوانوں کی وسعت جس میں ہیبت اور خوب صورتی یکجا ہوجاتی ہیں۔پیالہ نما جھیل کی ایک ہی نظارے میںمکمل سمائی،جھیل کے ایک طرف لمبائی کے رخ گزرتا کچا راستہ،مختلف سمتوں سے آکر جھیل میں ضم ہوتے چاندی جیسے پانی کے دھارے ۔ اس جگہ کا سکون اور سکوت سب مل کر اس کو لازوال بنا دیتے ہیں۔ ہم یہاں اس وقت پہنچے جب بارش تیز ہوچکی تھی اور سردی بھی بہت بڑھ گئی تھی۔موجود جیکٹوں نے ان دونوں سے بچاؤ کا زبردست کام کیا۔بارش میں جھیل کا منظر بہت خوب صورت تھا اور بارش اور ہلکی دھند کے جھالے شیوسر کے طلسم میں اضافہ کر رہے تھے۔جھیل سے کچھ دور گاڑی روکی اور پیدل اس کے قرب کو محسوس کرنے روانہ ہوئے۔جھیل کی طرف ڈھلوان اترائی تھی۔بارش سے بچنے کی نہ کوئی آڑ تھی نہ کوئی رکاوٹ۔جو بچنا چاہے اس کے لیے یہی ممکن تھا کہ وہ گاڑی میں بیٹھا رہے۔اور اتنی دور آکر یہ گوارا نہیں تھا۔ ہم نے جھیل کے ساتھ کافی وقت گزارا۔تصویریں بنائیں اور اس طلسمی فضا کو محسوس کیا۔ایک سیاح لڑکی بھی وہیں موجود تھی جس نے مجھے پہچانا کیوں کہ اس نے مجھے سڈنی آسٹریلیا کے مشاعرے میں سن رکھا تھا۔جھیل کو ہر زاویے سے دیکھنے کا شوق ہمیں آگے اس راستے پر لے گیا جو چلم اور منی مرگ کی طرف جاتا ہے۔واپسی کو دل نہیں چاہتا تھا لیکن وہ کوچہ رُوکشِ جنت ہو، گھر ہے گھر پھر بھی تویاد رکھیں جب آپ کو بھوک لگ چکی ہو، گاڑی کے باہر بارش ہو،رکنے کی کوئی جگہ نہ ہو،بڑا پانی کے ٹینٹ ہوٹل پہنچنے کا انتظار ہواور بڑا پانی آ ہی نہ رہا ہو تو ایسے میں آلو بھرے پراٹھے اور چٹنیاں ،اچار نکال کرچلتی گاڑی میںکچھ کھالینے میںکچھ بھی حرج نہیں ہے ۔ بڑا پانی کے ٹینٹ ہوٹل میں آپ پراٹھوں کے باقی نصف سے شکم سیر خطاب کرسکتے ہیں اور قہوے سے بجھتا بدن روشن کرسکتے ہیں۔ اس دن واپسی پر اک ذرا گردن جھکائی اور دل کے آئینے میں تصویرِ یار دیکھی تو پتہ چلا کہ تصور کی تمام تصویریں غائب ہوچکی تھیں اور ان کی جگہ ان سے زیادہ حسین تصویروں نے لے لی تھی۔