افغان طالبان کے حوالے سے میرا معاملہ بہت دلچسپ رہا۔ جب یہ 1994ء میں سامنے آئے تو میں ان کا 3 سال تک مخالف رہا۔ مجھے پتہ تھا کہ راتوں رات بڑی لہر بن کر اٹھنے والوں کے پیچھے لازماً کوئی ریاستی طاقت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر ایسی لہریں صرف انقلاب میں نظر آتی ہیں اور انقلاب میں پوری قوم اٹھتی ہے جبکہ افغانستان میں قوم نہیں ایک گروپ اٹھا تھا لہٰذا ان کے پیچھے کسی ریاستی قوت کا ہونا تو سو فیصد طے تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ میں اس زمانے میں حرکت الانصار کا ناظم اطلاعات و نشریات تھا اور یہ عسکری تنظیم افغان طالبان کی مکمل حامی تھی۔ صرف یہ تنظیم ہی نہیں بلکہ پورا مکتب فکر ان کی بھرپور حمایت کر رہا تھا مگر میں اپنی سوچ ہجوم دیکھ کر قائم نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا مسلک دیکھ کر حمایت یا مخالفت کرتا ہوں۔ مجھ سے اس زمانے میں جو بھی میری طالبان مخالفت کی وجہ پوچھتا میں یہی بتاتا کہ میرے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ان کے پیچھے کون ہے، اگر یہ جانے بغیر میں ان کی حمایت کردوں اور کل کو ان کے پیچھے امریکہ نکل آیا تو یہ میرے لئے رسوائی کا باعث ہوگا۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ میرا شک بھی یہی تھا کہ ان کے پیچھے امریکہ ہے۔ تین سال بعد ٹھوس معلومات ملیں کہ واقعی ان کے پیچھے ایک ریاستی قوت موجود ہے اور وہ قوت پاکستان ہے۔ یہ علم ہوتے ہی میں ان کا حامی ہو گیا۔ آج بھی طالبان کا مکتبہ فکرمیرے لئے کوئی فیصلہ کن اہمیت نہیں رکھتا، اگر وہ پاکستان کے خلاف پالیسی اختیار کرلیں تو یہ حمایت ختم ہو جائے گی۔ میری افغان طالبان کی حمایت صرف ایک ہی پوائنٹ پر کھڑی ہے اور وہ پوائنٹ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے دوست ہیں۔ دنیا نے ہمیں بہت باور کرانا چاہا کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی دودھ کے دھلے ہیں اور یہ بھی پاکستان کے بہت اچھے دوست اور خیر خواہ ہیں لیکن ان دونوں نے قدم قدم پر ثابت کیا ہے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں، دوست صرف بھارت کے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ صرف گولہ بارود سے نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کے لئے پروپیگنڈے کا محاذ بھی گرم کیا جاتا ہے۔ وار آن ٹیرر کے دوران مسلسل یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا گیا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا اثر یہ ہے کہ ہماری جو نسل نائین الیون کے بعد بالغ ہوئی ہے وہ اسی کو درست مانتی ہے۔ بہت اچھا کیا فضل اللہ نے کہ فرار ہو کر افغانستان گیا کیونکہ اس کے اس قدم نے ثابت کیا کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کی نہیں بلکہ افغان حکومت کی آلہ کار ہے۔ کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ افغان حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی آئی ہے کہ وہ افغان طالبان کے خلاف ایکشن لے اور پاکستان افغان حکومت سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لے ؟ یہ دو مطالبے ہی یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ کون کس کے کنٹرول میں ہے۔ اگر ٹی ٹی پی افغان طالبان کا حصہ ہوتی تو افغان حکومت کے کنٹرول میں ہوتی ؟ پھر تو وہ افغان طالبان کی طرح پاکستان کے ہی کنٹرول میں ہوتی۔ جو بچے نائین الیون کے بعد بالغ ہو کر فیس بک پر دانشور لگے ہیں ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ طالبان دور میں ہماری مغربی سرحد پر ہمارا ایک بھی فوجی تعینات نہیں ہوتا تھا۔ یہ ہماری سب سے محفوظ سرحد تھی۔ جب سے افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہوئی ہے ہمیں سارے مہلک زخم اسی سرحد سے لگتے آ رہے ہیں اور اب ہم نے اس سرحد پر کئی ڈویژن فوج بھی لگا رکھی ہے جس کا خرچہ الگ ہے۔ ہماری سڑکوں سے گزر کر لاکھوں ٹن بارود افغانستان گیا جو صرف اور صرف افغان طالبان کے خلاف استعمال ہوا اور ہمارے ایئربیسز سے امریکہ کے جنگی طیاروں نے اڑان بھر کر طالبان پر بمباریاں کیں لیکن طالبان نے کبھی پاکستان میں کوئی جوابی حملہ کرنا تو دور کی بات پاکستان کے خلاف کوئی مذمتی یا تنقیدی بیان بھی جاری نہیں کیا۔ کیا آپ جانتے ہیں افغان طالبان کا اس حوالے سے موقف کیا ہے ؟ ان کا موقف بہت ہی سادہ رہا ہے، اتنا سادہ کہ قربان جانے کو جی کرتا ہے۔ وہ کہتے آئے ہیں ’’کوئی بات نہیں پاکستان مجبور ہے ورنہ ایسا کبھی نہ کرتا‘‘ یہ سادہ سی بات کرکے وہ پاکستان میں کوئی کار روائی نہ کرنے کی وجہ بھی بہت سادی سی بتاتے ہیں لیکن یہ ہے بہت بڑی بات، وہ کہتے ہیں "ہمارا ایک گھر افغانستان ہے اور دوسرا گھر پاکستان۔ افغانستان کو امریکہ نے آگ لگا رکھی ہے تو ایسے میں ہمارے اس دوسرے گھر کا محفوظ رہنا خود ہمارے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ ہم اپنے اس دوسرے گھر کو خود کیسے آگ لگا دیں ؟" سمجھنے کی بات یہ ہے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کے نتیجے میں آج پاکستان کی سرزمین پر این ڈی ایس ٹی ٹی پی جیسے دست قاتل سے محروم ہوچکی ہے۔ چنانچہ جس وزیرستان میں ان دہشت گردوں کا ہیڈکوارٹر واقع تھا وہاں اب وہ ہماری فوج کو پی ٹی ایم کے ذریعے الجھانے کی کوشش میں ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ کیا فرق ہے محسن داوڑ اور بیت اللہ محسود کے لب و لہجے میں ؟ اور کیا فرق ہے حکیم اللہ محسود اور علی وزیر کی حرکتوں میں ؟ لے دے کر ایک فرق غیر مسلح ہونے کا ہی تھا، وہ بھی خڑ کمر چیک پوسٹ پر حملے کی صورت ختم ہوگیا۔ یہ فقط ایک حادثاتی واقعہ نہ تھا بلکہ پری پلان منصوبہ ہے۔ میں کئی ماہ قبل انہی صفحات پر عرض کرچکا ہوں کہ این ڈی ایس پی ٹی ایم کو بالآخر اسی کام کی جانب لے کر جائے گی جو وہ ٹی ٹی پی سے لیتی رہی ہے۔ پی ٹی ایم کا آغاز بلاشبہ اے این پی کے متبادل کے طور پر ہوا ہے لیکن اپنے حتمی مرحلے میں این ڈی ایس اسے ٹی ٹی پی کے متبادل کے طور پر ہی کنورٹ کرے گی اور یہ کام وہ محسن داوڑ اور علی وزیر سے ہی لے گی۔ جو آج رہنماء دکھتے ہیں یہ کل "کمانڈر" نظر آئیں گے۔ پی ٹی ایم میں نہ سب ہمارے دوست ہیں اور نہ ہی سب دشمن۔ ایسے میں دوست دشمن کی پہچان بہت ضروری ہے۔ علی وزیر اور محسن داوڑ جیسوں کو دوست سمجھنا ایک مہلک غلطی ہوگی۔