ایک سال قبل ( 10 اکتوبر 2019) آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمان ہندووں کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ خوش ہیں اور اب ان کا یہ کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خوشحال اور پرمسرت مسلمان صرف ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے صرف خوشی اور خوش ہونے کے بارے میں اظہار خیال نہیں کیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ دنیا کے کسی ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی جہاں ایک بیرونی مذہب نے لوگوں پر حکمرانی کی ہو اور اس ملک میں وہ اب تک موجود ہیں۔ دنیا میں ایسا کوئی ملک ہے تو وہ ہندوستان ہے۔ آر ایس ایس سربراہ کا مزید کہنا ہے کہ ہمارا دستور یہ نہیں کہتا کہ صرف ہندو ہی یہاں رہ سکتے ہیں۔ اس کے بعد صرف ہندووں کی ہی بات سنی جائے گی۔ اگر آپ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو ہندووں کی بالادستی قبول کرنی ہوگی۔ اہم نے ان کے لئے ایک جگہ دی ہے اور یہی ہماری قوم کی فطرت ہے اور اْس موروثی فطرت کو ہندو کہا جاتا ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ موہن بھاگوت نے ایک مورخ کے انداز میں بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ بے شمار مسلمانوں نے اکبر کے خلاف رانا پرتاپ کی جانب سے مقابلہ کیا یا رانا پرتاپ کے حق میں مغل بادشاہ کے خلاف لڑائی کی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی ہندوستانی تہذیب پر کوئی حملہ ہوا تمام مذاہب کے ماننے والوں نے متحد ہوکر اس کا مقابلہ کیا۔ موہن بھاگوت نے رام مندر کو قومی اقدار اور کردار کی علامت قرار دیا۔ ان تمام خوش کن بیانات اور فامولوں کا مقصد اس تنقید کی لہر کو کم سے کم کرنا ہے جس کا آج آر ایس ایس نشانہ بنی ہوئی ہے اور ہندو فرقہ واریت کے سرپرست کی حیثیت سے نہ صرف ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی آر ایس ایس پر شدید تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ پچھلے چند دہوں سے مسلمانوں کی حالت بڑی تیزی کے ساتھ تباہی کی جانب گامزن ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران ان کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے لئے نکالی گئی رتھ یاترا کے دوران بھی مسلمان تشدد کا نشانہ بنے اور اس کے بعد بھی کئی بہانوں سے انہیں ستایا گیا۔ گائے کے گوشت کے نام پر مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لو جہاد کے نام پر انہیں سماجی دھمکیاں دی گئیں اور گھر واپسی کے بہانے مسلمانوں پر حملے کئے گئے اور یہ تمام واقعات چند برسوں سے اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئے ہیں۔ حد تو یہ ہوئی کہ مسلمانوں کو اجتماعی طور پر دھمکایا گیا جس کا جواب ان لوگوں نے انتہائی جمہوری انداز میں شاہین باغ تحریک کی شکل میں دیا۔ اْس وقت اقلیتوں نے غیر معمولی طور پر جمہوری انداز اپنایا لیکن وہ بھی آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں برداشت نہیں کر پائیں اور جب اس تحریک کے بعد دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تب مسلمانوں کو بہت زیادہ جانی و مالی نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ ان کی جائیدادوں کو لوٹا گیا اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ دوسری جانب فرقہ واریت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ سماج کے کمزور طبقات کو طرح طرح سے اذیتیں دی گئیں۔ نتیجہ میں آج فرقہ واریت کا جو امیج ہے وہ کمزور طبقات اور اقلیتوں کو اذیتیں دینے والی طاقت کا امیج ہوگیا ہے اور فرقہ واریت کا یہ امیج دن بہ دن بڑھتاہی جارہا ہے۔ مسٹر بھاگوت نے دستور ہند کا بھی حوالہ دیا اور حیرت و دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کے بیشتر رہنما دستور ہند کو نہیں مانتے۔ اس پر تنقید کرتے ہیں اور اسے ہندوستان کے لئے ناموزوں قرار دیتے ہیں۔ سنگھ پریوار قائدین کے خیال میں یہ دستور دراصل بیرونی اقدار پر مبنی ہے۔ سنگھ پریوار کے اس موقف کے برعکس شاہین باغ تحریک نے سارے ہندوستان اور ساری دنیا کو بتادیا کہ دستور ہند کا وہ کس قدر احترام کرتے ہیں اور شاہین باغ تحریک کا نعرہ اور نظریہ دستور کا دیباچہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دستور ہند کثرت میں وحدت کا حامل اور ملی جلی تہذیب والا ہندوستان چاہتا ہے جبکہ آر ایس ایس پریوار ایک ہندو ملک کا خواہاں ہے۔ ہندوستانی دستور کے لئے مذاہب بیرونی یا دیسی نہیں ہوتے بلکہ وہ عالمی ہوتے ہیں اور ہم تمام کو اپنے ملک میں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ نہ صرف ہندوستانی اپنے متعلقہ مذاہب یا ان کی تعلیمات پر چل سکتے ہیں بلکہ ان کی تبلیغ کرسکتے ہیں اور انہیں پھیلا سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کی بھی آزادی حاصل ہے کہ اپنے مذہب پر چلتے ہوئے کسی بھی مذہب کے خلاف نہ بولیں اور ساتھ ہی دستور نے ہمیں اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی عطا کی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستانی عوام پر کوئی بھی مذہب زبردستی نہیں تھوپا جاسکتا۔ آر ایس ایس سرسنگ چالک شاید یہ نہیں جانتے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی کی اسکیم میں قوم پرستی اور مذہب دو علیحدہ چیزیں تھیں۔ اس تحریک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے یہاں تک کہ دہریوں نے بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا اور برطانوی حکمرانی کو للکارا۔ موہن بھاگوت شاید اس بات سے بھی واقف نہیں ہوں گے کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا سب سے بڑا مذہب بدھ ازم ہے جو سرزمین ہند میں پیدا ہوا اور اس کی جڑیں اسی سرزمین پر پیوست ہیں لیکن جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا یہ سب سے بڑا مذہب بن گیا ہے۔ جہاں تک آر ایس ایس کا سوال ہے اس نے ہمیشہ تاریخ کو فرقہ وارانہ نظروں سے دیکھا ہے اور یہی بات اس کے لئے سب سے اہم ہے جب انہوں نے یہ کہا کہ مسلمانوں نے تک اکبر کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تاکہ ہندوستانی تہذیب کا تحفظ کیا جائے اس وقت موہن بھاگوت شاید یہ بھول گئے تھے انہوں نے تاریخ کو مزید مسخ کیا ہے اور ان کے تعصب کی سطح مزید گر گئی ہے۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ رانا پرتاپ نے ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی کس طرح کی وہ تو میواڑ کا راجہ تھا۔ کس طرح اکبر اور رانا پرتاپ کی جنگ ہندوستانی تہذیب کی بقاء کے لئے تھی؟