ملیے اس شخص سے، جو آدم ہووے ناز اس کو کمال پر، بہت کم ہووے ہو گرم ِسخن، تو گِرد آووے اک خلق خاموش رہے، تو ایک عالَم ہووے آدمی کی جو تعریف، میر نے کی ہے، اس پر پورا اترنا، کارے دارد! حال یہ ہے کہ صاحب کمالوں کو چھوڑ، بے کمال بھی دماغ دار ہیں! مولانا حالی فرماتے ہیں۔ جانور، آدمی، فرشتہ، خْدا آدمی کی ہیں سینکڑوں قسمیں واقعی، انسان اپنی طرز کی واحد مخلوق ہے! اسے اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے۔ مگر انہی میں، ایسے بھی لوگ پائے گئے ہیں، جو اس کا سارا شرف، کھو دینے والے نکلے! کسی اْستاد نے کہا ہے آدمی زادہ طْرفہ معجونیست کز فرشتہ سرشتہ وز حیوان یعنی، آدمی کے خمیر میں، شعور اور بے شعوری کی، دو انتہائیں گْوندھ دی گئی ہیں! یہ بات بھی صحیح ہے۔ ایک ہی شخص میں، بھلائی اور بْرائی کے جذبے، برسر ِپیکار رہتے ہیں! جو سراپا نیکی ہو گیا، وہ ولی کا درجہ پا گیا۔ جس نے صرف بْرائی شعار کی، وہ اسفل السافلین میں جا اْترا! بنانے اور سنوارنے کے ساتھ ساتھ، بگاڑنے اور بھٹکانے کا بھی سارا سامان، آدمی کے ساتھ لگا ہوا ہے! ایک طرف روک ہے تو دوسری طرف کھینچ! اور نفس سے بچنے کی، کوئی چارہ جوئی کیا کرے فطرتی رہبر یہی ہے، اس کو کوئی کیا کرے مجبوری کا عْذر اور مختاری کا دعویٰ، یہ دونوں ہی رَد کیے گئے ہیں! خوب کہا ہے غالب نے۔ نقل کرتا ہوں اسے نامہ ء اعمال میں مَیں کچھ نہ کچھ، روز ِازل، تم نے، لکھا ہے تو سہی بیشتر شارحین ِغالب، اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ ورنہ اس ’’کچھ نہ کچھ‘‘ کی تعریف ممکن نہیں! اس ’’کچھ نہ کچھ‘‘ نے اختیار اور جبر کے تصور کو، اس خوبی سے ادا کیا ہے کہ باید و شاید! ذکر تھا انسان کی طْرفگی کا۔ عام توقع ہے کہ کسی کی جو شبیہ دماغ میں پہلی دفعہ اْترے، پھر اس میں فرق نہ آئے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ شخصیت کے نت نئے پہلو، ساری عْمر سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ شبیہ اْبھرتی جائے، تو خیر، بدلتی جائے تو حیرت! مثلاً، ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے، لوگوں کے ذہنوں میں ان کا خاکہ، تیار تھا۔ ایک ایسا کامیاب تاجر، جو انٹرٹینر بھی ہے! لیکن صدر بننے کے بعد، بزنس مین ٹرمپ پیچھے چلا گیا اور اس کی ’’شو مین شپ‘‘کو پَر لگ گئے! اس ’’شو مین شپ‘‘کی تاب، نہ ریپبلکن جماعت میں کوئی لا سکا اور ایک آدھ کے سوا، نہ ڈیموکریٹس میں ہی کوئی لا پائے گا۔ ٹرمپ کو جو موقع، رئیلٹی ٹی وی پر کام کرنے کا ملا، اس نے ان کے اصل فطری جوہر کو صَیقل کر دیا۔ یہ جوہر تھا عوام کی نبض آشنائی۔ ٹرمپ روایتی معنوں میں، اچھے مقرِر ہرگز نہیں ہیں۔ لیکن اچھی تقریر یا گفتگو اگر وہ قرار دی جائے، جسے عوام میںپذیرائی ملتی ہے، خواہ وہ مضرت رساں ہو، تو پھر یہ اس عہد کے بہترین مقررین میں شامل ہیں! اب آئیے عمران خان کی طرف۔ ایک عمران خان وہ تھے، جنہیں پانچ منٹ بھی گفت گو کرنا، ہفت خواں طے کرنے کے برابر ہوا کرتا تھا۔ اور ایک یہ ہیں، جو امریکن دارالحکومت میں آتے ہیں۔ ایک بہت بڑے مجمع سے، خطاب کر کے، جلسہ گاہ اْڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ امریکن صدر سے ملاقات، کانگرس ممبروں کے بیچ چھوٹا سا خطاب، تھنک ٹینک میں سوالوں کے جواب، عمران خان کا اسلوب تینوں جگہ نپا تْلا رہتا ہے۔ ان سے پہلے، زرداری صدر بن کر تشریف لائے تھے اور نائب صدر کی امیدوار سارا پیلن پر ریجھ گئے تھے۔ اتنا پگھلے کہ کیمرے کے سامنے ہی بے قابو ہو رہے تھے! پھر ان سے ڈھنگ کے چند فقرے بھی، موزوں نہیں ہو سکے تھے۔ چند سال پہلے، نواز شریف بھی وزیر ِاعظم کی حیثیت سے آئے تھے۔ مگر کاغذ کی بیساکھی کے بغیر، ان کی زبان موٹی پڑ گئی تھی۔ یہ دونوں، سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں تقریریں یا خطاب کر چکے ہیں۔ لیکن امریکا پہنچ کر ٹھْس ہو گئے۔ ان کے برعکس، عمران خان نے خطابت اور فن ِگفت گو، پَکّی عْمر کو پہنچ کر سیکھے ہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ دونوں سے آگے نکل گئے ہیں۔ عمران خان کے دورہ ء امریکا اور ٹرمپ سے ملاقات نے، ’’کیا پایا کیا کھویا‘‘ کی بحث بھی، چھیڑ دی ہے۔ اس کے تین پہلو، یا تین حیثیتیں ہیں۔ شخصی، حکومتی اور مْلکی۔ شخصی حیثییت سے، عمران خان کامیاب ہوئے ہیں۔ صاف نظر آیا کہ ٹرمپ ان سے مِل کر، نہ صرف خوش ہوئے بلکہ دوبارہ بھی جلد ملنا چاہیں گے۔ کہنا چاہیے کہ ان کی شخصیات ’’کلِک‘‘کر گئیں۔ حکومتی پہلو سے، گو آغاز گوارا نہیں تھا، اختتام تک، اس میں خوشگواری آتی رہی۔ کانگرس میں کسی پاکستانی وزیر ِاعظم کی ایسی پذیرائی، ماضی ِقریب میں تو نہیں ہوئی۔ مْلکی سطح پر، تین اہم چیزیں سامنے آئیں۔ مسئلہ کشمیر، ٹرمپ کے سامنے اْٹھایا گیا۔ اس سے پہلے، ہماری حکومتیں کتنی سنجیدہ ہوتی تھیں، اس کا اندازہ کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمٰن کو سونپنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ کمیٹی دس سال گونگے کا گْڑ کھائے بیٹھی رہی۔ ٹرمپ جو اپنی سیاسی ’’سوجھ بوجھ‘‘ اور ’’تدبر‘‘ کے جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں، انہیں یہ موقع خوب ہاتھ آیا۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں، انہوں نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ بلکہ نریندر مودی کے حوالے سے، جو کچھ انہوں نے کہا، اس نے بھارتی میڈیا کو آگ لگا دی ہے۔ اب اگر بھارت یونہی تردید کرتا رہا تو ممکن ہے کہ ٹرمپ کی نظر سے اْترتا جائے۔ یاد رہے کہ تجارتی محصول کے معاملے میں، امریکا اور بھارت میں پہلے ہی نا تنی ہے۔ اسی طرح، افغانستان کے مسئلے میں پاکستانی کردار کی اہمیت، اَور واضح ہو گئی ہے۔ بلکہ امریکن صدر نے، یہ بھی کہا کہ ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی امداد کی بحالی پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ کی ’’ہَٹ‘‘ہے کہ ہر امریکی جنگ، اگلے صدارتی انتخاب سے پہلے، ختم کر دی جائے۔ تیسری چیز، مثبت بھی ثابت ہو سکتی ہے اور منفی بھی۔ اور یہ ہے خطے میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت! پاکستان بیک وقت چین، ایران اور بھارت کا ہمسایہ ہے۔ روس بھی اسی خطے کے بارہ پتھر میں آتا ہے۔ پاکستان سے امریکا کے تعلقات کی بحالی، اگر ہوتی ہے تو اس کی قیمت کیا ہو گی؟ پاکستان کا معاشی استحکام، اسی کے جواب سے وابستہ ہے! یہ فیصلوں کا وقت ہے۔ دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور جو ہچکچا کے رہ گیا، وہ رِہ گیا اِدھر جس نے لگائی ایڑ، وہ خندق کے پار ہے