سید عطاء اللہ شاہ بخاری خطابت کے بادشاہ تھے۔ اس فن پر ان کی گرفت بے مثال تھی۔ خوش گفتاری کے ساتھ ساتھ، ان کی خوش گلوئی اور خوش شکلی، یعنی نورْْ علٰی نور! ان کی تقریر ایسی سحر انگیز ہوتی کہ بے شمار لوگوں کے دل، گویا ان کی مٹھی میں رہتے۔ جب چاہتے ہنسا دیتے، جب چاہتے رْلا دیتے۔ اس سِحر انگیزی کے دیکھنے والوں کے مطابق، ایک جادوگر تھا، جو مجمع پر افسْون پھونکتا جاتا تھا۔ تقریر کے ساتھ، یہ سِحر بھی رات بھر چلتا رہتا۔ صبح، دِل اس جادو سے باہر آتا اور دماغ اپنے ٹھکانے، تو مسلمانوں کا ووٹ، ایک بار پھر مسلم لیگ کے حق میں ہوتا! پھر شاہ جی کی زبان سے جو شکایت نکلتی، وہ کسی استاد کے اس شعر سے ملتی جلتی تھی یہ لوگ بھی ’’عجب‘‘ ہیں کہ دل پر یہ اختیار شب موم کر لیا، سحر آہن بنا لیا بخاری مرحوم کی بے مثال خطابت نے ایک حاضر سروس تھانے دار کی زندگی ایسی بدلی کہ بیلٹ اتار، استعفٰی دے، یہ صاحب احرار میں آ مِلے۔ یہ چودھری افضل حق تھے، جنہیں آگے چل کر، اس مجلس کا شہ دماغ ہونا تھا۔ شاعرانہ مبالغے کے ساتھ، کہا جا سکتا ہے کہ وہی ریاض، جو تھے بْت پرست و بادہ پرست خْدا کی یاد میں، بیٹھے تھے سَر جھْکائے ہوئے انہی چودھری صاحب نے، کسی تقریر میں احرار کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ دیکھو! پاکستان کی مخالفت نہ کرنا، یہ دْکھی دِلوں کی آواز ہے! تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی مخالفت کرنے والا ہر لیڈر، مسلمانوں کے سواد ِاعظم کی نظر سے اْتر کر رہا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی مثال بالکل سامنے کی ہے۔ جب وہ تازہ تازہ اْٹھے تھے ، تو اپنی ساری علمیت اور ذہانت، وہ مسلمانوں کو جگانے اور "اسلام کا پیغام" سنانے میں صَرف کیا کرتے۔ رفتہ رفتہ، کچھ تو مسلم لیگیوں کی ناقدری ، اور کچھ مولانا کی انانیت نے، انہیں ہم مذہبوں سے چھڑا کر، ہم وطنوں کا کر دیا۔ صرف ابوالکلام پر موقوف نہیں، بڑے بڑوں کو سوٹ پہنے ہوئے بے ریش و بروت ہم مذہبوں, اور دھوتی پوش ہم وطنوں کے درمیان، انتخاب کرنا تھا۔ ابوالاعلٰی مودودی نے طنز کیا تھا کہ جب مسلمان سو رہے تھے تو مولانا ابوالکلام نے انہیں جگایا۔ اور جب مسلمان جاگ گئے، تو مولانا خود سو گئے۔ سید الطائفہ جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ مومن کی حالت ہر پل متغیر رہتی ہے۔ کافر البتہ جما ہوا, ٹھہرا ہوا رہتا ہے۔ اس تغیر کی مثال میں، کانگرس کے رکن محمد علی جناح کا قائد ِاعظم تک کا سفر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خاں اور حسرت موہانی کی بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہ سب، اول اول کانگریسی تھے۔ لیکن آخر ِکار، مسلم لیگ میں آ کر رہے۔ دوسری طرف، طبیعت کی ضِد اور شخصیت پرستی، ہر دو کو سمجھنے کے لیے، یہ ایک لطیفہ نما واقعہ سنیے۔ ایک معروف کانگریسی مولانا کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ استفسار پر، انہوں نے بڑے فخر سے کہا کہ کل رات، میں پانی پینے کے لیے بستر سے اٹھا تو یہ حادثہ پیش آیا۔ ہوا یہ کہ میں نے جب قدم اٹھایا تو فرش کے بجاے، خلا سامنے تھا۔ لیکن اٹھا ہوا قدم، واپس لینا، میرا شیوہ نہیں! مولانا کی "عزیمت" اور "اولوالعزمی" سے بھی زیادہ طْرفہ تماشا یہ ہے کہ ان کے مداح، آج بھی اس واقعے کو یاد کر کے سَر دْھنتے ہیں۔ آزادی کے بعد، انہی مولانا نے کہا تھا کہ ہندوستان بہرحال ایک ملک ہے اور پاکستان تجربہ۔ آپ اس تجربے کو کامیاب بنائیے ! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تجربہ پاکستان تھا یا بھارت؟ مسلمانوں کی آمد سے پہلے، ہندوستان کبھی ایک مْلک نہیں رہا۔ بیسیوں، بلکہ سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹا ہوا یہ خطہ، مسلمان بادشاہوں کی بدولت، ایک ملک بنا۔ صدیوں یہاں حکمرانی مسلمانوں کی رہی۔ پھر مختصر مدت کے لیے، باگ ڈور انگریزوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ نہ تو ہندوئوں کی متحدہ ہندوستان پر کبھی حکومت رہی اور نہ مسلمان ہی کبھی ہندوئوں کی رعایا ہو کر رہے۔ مسلمانوں اور انگریزوں کی حکومتوں کے بعد، سن سینتالیس میں پہلی مرتبہ، ہندوئوں کو اقتدار ملنے والا تھا۔ کانگریسی علماء کا موقف تھا کہ آزادی سے پہلے بھی تو مسلمان اور ہندو، سات آٹھ سو سال سے بھائی چارے کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ حالانکہ اصل نکتہ یہ تھا کہ اس بھائی چارے کو "یقینی" بنانے کے لیے، حکمران مسلمان موجود تھے۔ آزادی سے سال دو سال پہلے، مولانا حسین احمد مدنی سمیت، چوٹی کے کانگریسی علماء ، مولانا شبیر احمد عثمانی کو وطنیت پر قائل کرنے کے لیے، ان کے گھر آئے تھے۔ جوابا مولانا شبیر احمد عثمانی نے جو سوال اٹھائے، ان کے جواب کسی کے پاس نہیں تھے! مولانا کہا کرتے تھے کہ انگریزوں سے چھٹکارا پانے میں، مسلمانوں اور ہندوئوں کا ساتھ، ایسے ہی ہے، جیسے سیلاب میں جان بچانے کے لیے، انسان اور سانپ، ایک ہی تختے پر سوار ہو جاتے ہیں۔ یہ کیا ضرور ہے کہ کنارے پر پہنچ کر بھی، یہ دونوں ساتھ رہیں؟ ایک اور بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ اْس وقت مسلمانوں اور ہندوئوں کا تناسب، ایک اور تین کا تھا۔ جمہوریت کا کوئی قاعدہ، اسے دو اور دو میں تبدیل نہیں کرتا! تقسیم نے مسلمانوں کو بانٹا ضرور، مگر دو تہائی مسلمان، اب ہندوئوں کے دست نگر نہ رہے۔ پاکستان کا جو نقشہ، قائد ِاعظم کے ذہن میں تھا، اس میں نئی چیز صرف یہ تھی کہ پہلی دفعہ مسلمان، اکثریت میں ہوتے۔ مگر جو تجربہ کانگریسی کرنا چاہتے تھے، اس میں معاملات، پہلی دفعہ ہندو اکثریت کے ہاتھ میں آ رہے تھے۔ اس اکثریت نے جو گْل کھِلائے، وہ ہمارے سامنے ہیں! جنگ، اور وہ بھی بے وجہ جنگ، نہایت مہلک چیز ہے۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کِس ملک کے عوام نفرت سے زیادہ بھرے ہوئے ہیں! اس ملک کے لوگ، جو "تنگ نظروں" اور "انتہا پسندوں" کا وطن ہے یا اس دیش کے باسی، جو سیکولرازم کا علمبردار ہے؟ ننانوے فیصد پاکستانیوں کو، ہندوئوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن ہندوئوں میں کم از کم نوے فیصد لوگ ایسے ہوں گے، جنہیں ہر روز مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ہو گا۔ بھارت میں بیس کروڑ سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ قدم قدم پر، ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان معاملہ ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ اس روزانہ ’’بھائی چارے‘‘ کے باوجود، تعصب کی جو کیفیت بھارتیوں میں پائی جاتی ہے، اس کی مثال کہیں اَور نہیں ملتی۔ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کا سیکولر ازم کھرا نہیں ہے، مگر اس کی وجہ شہید ہونے والے کشمیریوں کے کِس کام کی؟ بھارتی میڈیا کی بدتمیزی اور بدتہذیبی، دراصل سیکولرازم کے بھی پرخچے اڑا رہی ہے۔ کیوں نہ ہو؟ عاقبت، گْرگ زادہ گْرگ شود گرچہ با آدَمی، بزرگ شود بھیڑیے کا جنا ہوا، بھیڑیا ہی نکلتا ہے۔ خواہ اس کی ساری عْمر، انسانوں کے درمیان ہی کیوں نہ گزرے!