سیانے کہتے ہیں کہ ایک نسل کی جہالت، دوسری نسل کی روایت بن جاتی ہے اور تیسری نسل کا مذہبی عقیدہ! آسمانی احکام کے عَلم بردار نبیوں کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجیے، انھیں سب سے زیادہ دشواری لوگوں کو باپ دادا کی من مرضی اور کم علمی پر مبنی روایات ترک کرانے میں پیش آئیں۔ قرآنِ کریم میں جگہ جگہ اس بات کی وعید ہے کہ ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اگر ان کے باپ دادا اپنی ہٹ دھرمی (ہٹ دھرمی کا مطلب ہی دین و دھرم سے دُور جا پڑنے کے ہیں) کی بنا پر آگ میں جلیں گے تو یہ بھی ان کے پیچھے جائیں گے؟ زمانہ گواہ ہے کہ الوہی احکام میں خرابی پیدا ہی وہاں ہوئی جہاں اولاد آنکھیں بند کر کے یا والدین کے جبر و اصرار کی بنا پر انھی کے غیر تحقیق شدہ راستے پر چل نکلی۔دنیا کے تمام علوم چیخ چیخ کے بتا رہے ہیں کہ تحقیق و درایت کے میدان میں تقلید و روایت گناہِ کبیرہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ دنیا کی دوسری قومیں اسی لیے ہم سے آگے نکل گئیں کہ وہ لکیر کی فقیر نہیں، ایڈیسن کو بلب ایجاد کرنے میں سو بار ناکامی کا سامنے کرنا پڑا، اس نے ایک بار نہیں کہا کہ اس کے اوپر کسی جن بھوت کا سایہ ہے، یا کسی دشمن نے تعویذ ڈالے ہیں، بلکہ ہر بار نئے زاویے سے کوشش کی اور بالآخر کامیاب ٹھہرا، آج یہی ایجاد دنیا جہان کو آسانیاں بانٹنے میں سب سے زیادہ معاون ہے۔ رائٹ برادران کا پورے علاقے نے مذاق اڑایا، انھیں پاگل تک قرار دیا لیکن وہ اپنی دُھن کے پکے نکلے اور آنے والی نسلوں کو سفر کی سہولتوں سے باریاب کر دیا۔ ہم نے اپنے ارد گرد ایسے بے شمار شکی مزاج، محتاط اور اپنی طرف سے اولاد کے خیرخواہ والدین دیکھے ہیں ، جو بیٹے یا بیٹی کو گھریلو ماحول فراہم کرنے کے لیے اپنا شہر چھوڑ، سب کچھ بیچ باچ کے دوسرے شہر میںمنتقل ہو جاتے ہیں یا کرائے کے مکان میں بسرام کرتے ہیں۔ بچے کو ہاسٹل میں گھر جیسا کھانا نہ ملے تو بے چَین ہوجاتے ہیں۔ انھیں اپنے ’شاہین بچوں‘ کا عام بچوں میں گھل مل جانا بہت گراں گزرتا ہے۔ بعض ’ دُود اندیش‘ والدین تو بچے کی ملازمت، گاڑی، گھر، تبادلہ اور لڑائیوں میں باقاعدہ معاونت کرتے ہیں۔ ہم نے ایسے سہولت پسند بچوں کو اپنی آنکھوں سے طوطے، بچے جمورے، نفسیاتی مریض، ماں باپ کے نافرمان، حتیٰ کہ مجرم بنتے دیکھا ہے۔ ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ دین و دنیا کے بارے میں جتنا کچھ ہم نے اچھے برے لوگوں، ہاسٹل کی آوارہ گردیوں، بسوں ویگنوں کے دھکوں ، فٹ پاتھ پہ پڑی کتابوں، تند و تیز دوڑ دھوپ سے سیکھا ہے، اتنا شاید بڑے بڑے اساتذہ اور معتبر بزرگوں کی صحبتوں سے بھی نہیں سیکھا۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ سہولت جہاں آسانیوں کے دَر وا کرتی ہے، وہاں تجربے اور خود اعتمادی کی لذت بھی چھین لیتی ہے۔ ہم نے اپنی ایک میٹرک پاس عزیزہ (کہ جس کا بیٹا لاہور کے کسی بڑے ادارے میں زیرِ تعلیم تھا) کو دورانِ چہل قدمی اپنی سہیلی سے یہ کہتے سنا کہ اُس نے اپنے بیٹے کی مُشکیںکس کے رکھی ہوئی ہیں، اُس کو چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت نہیں۔ اس کی جرابیں ٹائیاں تک ہم خرید کے دیتے ہیں، تھیئٹر، سینما کا تو وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔چھٹی کے فوراً بعد ملازم اسے کالج سے سیدھا والد کے دفتر لے جاتا ہے، دوپہر کا کھانا وہاں ابا جی کی نگرانی میں کھاتا ہے، شام کو والد ہی کے ساتھ واپس آتا ہے۔ مَیں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ہماری والدینی اَغراض یا خاندانی جبر ایک گریجویٹ طالب علم کو میٹرک سے آگے نہ سوچنے دینے پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ خواہ مخواہ کے احتیاط نے تازہ علوم میں بسر کرنے والے کو خواہشات کی کوٹھڑی میں بند کر رکھا ہے… سمندر کے تارُو کو کنویں کا مینڈک بنا دیاہے۔ ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر والدین کی ذاتی سوچ، دین یا رسومِ دنیاوی کے معاملے میں جمود یا جہالت پر مبنی ہے (جس کا یہاں بہت امکان ہے) تو گویا اس گمرہی کا سلسلہ اگلی نسل تک دراز ہو گیا؟ دماغ میںنئی سوچ کے پنپنے، ٹھہرے ہوئے تالاب میں تازہ پانی کے دخول، حبس زدہ ماحول میں شوخ ہوا کے جھونکے کے لیے ہمیں مزید تین دہائیوں تک انتظار کرنا پڑے گا؟ ہمارے نزدیک ایک طالب علم کا کمال یہ نہیں کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ کالج جائے، جب چاہے پیزا آرڈر کر لے۔ اس کا ہنر تو یہ ہے کہ سارا سال دوستوں کے ساتھ ’مجھے زیادہ بھوک نہیں ہے‘ کہہ کے سالن کی سپلی منگائے، ہر روز آنکھ بچا کے روم ایٹ کے صابن سے نہائے، دو منٹ کا کہہ کے ایک ہفتے تک لنگوٹیے یار کی پینٹ پہنے لیکن کسی پہ اپنی غربت ظاہر نہ ہونے دے۔ اسی طرح ہمارے ہاں شادی کو بھی اولاد کی آنکھیں بند قسم کی فرماں برداری و برادری نوازی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ لڑکی لڑکا دنیا جہان کے دریا پھلانگ آئیں گے، انھیں آپس میں ملنے کی اجازت نہیں۔ ہمارے ہاں شادی ایک جُوئے کی طرح کھیلی جاتی ہے، جس کی کامیابی کا انحصار قسمت یا بہت سے سمجھوتوں پر ہوتا ہے۔ فریقین کے دماغوں میں جہیز، جائداد، برات کی غیر شرعی ضرب تقسیم کی کھچڑی پکتی رہتی ہے۔ جہاں پہلی شادی کا یہ حال ہو وہاں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کو باقاعدہ گناہ کے درجے پر فائز ہوتے کتنی دیر لگتی ہے؟ افسوس کہ ہمارے ہاں جتنی مخالفت نہایت شرعی قسم کی دوسری شادی کی، کی جاتی ہے، اتنی تو شاید منافقت، ملاوٹ، شراب نوشی اور گناہِ قبیحہ و کبیرہ کی بھی نہیں کی جاتی۔ سچ بات ہے کہ لوگ یہاں زنا کی اجازت دے دیتے ہیں، دوسری شادی کی نہیں! مَیں ایسے بہت سے بزرگوں کو جانتا ہوں، جن کی چالیس پچاس سال کی عمر میں بیوی فوت ہوئی۔ بہت سے حوالوں سے انھیں کسی ساتھی کی ضرورت تھی لیکن رشتے داروں سے بڑھ کے سگی اولاد اس شرعی ضرورت اور سنتِ رسولؐ کے راستے میں حائل تھی۔ اب بچوں کی شادیوں کی عمر ہے… جائیداد کا کیا بنے گا؟ اب اللہ اللہ کرنے کے دن ہیں… جیسے نکاحِ ثانی کے بعد تو اولاد کی شادی اور عبادت کا در ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ ساحر نے حسِ لطافت کو مٹانے والی جس مفلسی کا ذکر کیا تھا وہ اصل میں ذہنی مفلسی ہے۔ ورنہ روٹی کے فاقے تو اُنلوگوں نے سب نے کاٹے ہیں، جن کے افکارِ عالیہ کی آج ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ غالب آج بھی اسی لیے زندہ ہے کہ اس نے فرہاد جیسے مشہورِ زمانہ عاشق کی روایت پرستی کی بنا پر اسے رَد کر دیاتھا: تیشے بغیر مر نہ سکا کوکن اسد سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا اور خود عمر بھر تجدید اور ترکِ رسوم کا تیشہ اٹھائے رہے، ان کی ساری جدت، انفرادیت، عظمت اور مہارت اُن کے اس شعر سے عیاں ہے: ہر چند سُبک دست ہوئے بُت شکنی میں ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور