یہ مقدر کا کھیل ہے‘ ستاروں کی خرابی یا کرموں کا پھل‘ موجودہ حکومت کے لیے جوں جوں بیرونی خطرہ کم ہوتا ہے اندرونی انتشار بڑھ جاتا ہے‘ سینٹ انتخابات میں وفاقی نشست سے اپوزیشن کے امیدوار مخدوم یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے وقتی طورپر حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں‘ تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں اکثریت اقلیت میں بدل گئی اور اسمبلیوں کی تحلیل کی اطلاعات گشت کرنے لگیں‘ عمران خان نے پارلیمنٹ کے اعتماد کا ووٹ لے کر مخالفین کی خواہشات پر پانی پھیرا اور سینٹ میں صادق سنجرانی کی بطور چیئرمین کامیابی سے قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوا۔ سینٹ انتخابات کے بعد لانگ مارچ کا التوا‘ اے این پی اور پیپلزپارٹی کو شوکاز کا اجرا (جو بالآخر دونوں جماعتوں کے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا پیش خیمہ ثابت ہوا) حکومت کو ملنے والا وہ ریلیف تھا جس سے حکمران جماعت کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا‘ اپوزیشن کی صفوں میں مایوسی‘ بے یقینی اور بے اعتمادی کو فروغ ملا مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘ عمران خان اور اس کے قریبی ساتھی پی ڈی ایم کی شکست و ریخت پر بھرپور جشن منا بھی نہ پائے تھے کہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن اور جہانگیر ترین کے عشائیے نے ان کے رنگ میں بھنگ ڈال دی‘ قدرت کو شاید یہی منظور ہے کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں اپنی ناکردہ کاری کی سزا بھگتیں۔ ڈسکہ الیکشن کے نتائج سے سبق سیکھنے کے بجائے حکمران جماعت نے دھیمے انداز میںسارا ملبہ ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن پر ڈال کر اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کی جو ہماری سیاسی اشرافیہ کا پرانا وطیرہ ہے۔ بجا کہ این اے 75 صاحبزادہ افتخارالحسن خاندان اور مسلم لیگ ن کی ناقابل شکست نشست ہے اور بیشتر تجزیہ کاروں کی یہی رائے تھی کہ سیدہ نوشین افتخار بآسانی یہ الیکشن جیت جائیں گی لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے شکست میں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ مسلم لیگی امیدوار کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور پولیس و رینجرز کی طرف سے بہترین حفاظتی انتظامات کے سبب پرامن ماحول میں الیکشن کے انعقاد سے پھیلائے گئے اس تاثر کی نفی ہوئی کہ مسلم لیگ یہ نشست ہمیشہ سرکاری وسائل‘ غنڈہ گردی اور دھونس دھاندلی سے جیتی۔ اڑھائی پونے تین سال تک پنجاب میں مسلم لیگ کے قائدین کے علاوہ اہم رہنمائوں کے ساتھ سرکاری اداروں نے جو سلوک کیا۔ قیدوبند اور دیگر صعوبتوں سے گھبرا کر میاں نوازشریف بیرون ملک چلے گئے جبکہ برادر خورد میاں شہبازشریف نظربند ہیں۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے رہنما خواجہ آصف بھی اسیری کے باعث فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں‘ اس کے باوجود ڈسکہ اور وزیر آباد کے انتخابات جیت کر مسلم لیگ نے یہ ثابت کیا کہ وہ وسطی پنجاب میں بدستور مقبول اور منظم ہے اور حکمران ان کے کارکنوں کے حوصلے پست کر سکے نہ نامساعدہ حالات ووٹروں کو بد دل و متنفر‘ حتیٰ کہ کرپشن کے الزامات اور احتساب کے نعروں سے بھی معتوب جماعت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ نوشین افتخار کی جیت میں محض یہی ایک فیصلہ کن عنصر نہیں‘ مہنگائی نے عوام کے ہوش گم کر دیئے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ترجمانوں کے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود بجلی‘ پٹرول‘ گیس‘ چینی‘ گھی‘ آٹا اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں پر قابو پایا جا سکا نہ دیہی علاقوں میں کھاد‘ زرعی ادویات اور ڈیزل کے نرخوں میں روز افزوں اضافے کو بریک لگی۔ خان صاحب بضد ہیں کہ پنجاب کی پگ عثمان خان بزدار کے سر پر سجی رہے گی‘ جو اڑھائی پونے تین سال کے دوران اچھی حکمرانی کی مثال قائم کر سکے نہ مسلم لیگ ن کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہوئے اور نہ تحریک انصاف کے بے یارومددگار کارکنوں کی اشک شوئی کے قابل۔ خان صاحب بھی عملاً تحریک انصاف کو ایوان اقتدار کی راہداریوں میں دفن کر کے خورسند ہیں ورنہ کبھی حکمران جماعت کی جنرل کونسل کا کوئی اجلاس ہوتا‘ مجلس عاملہ سے مشاورت کی خبر آتی اور این اے 75 میں مسلم لیگی کارکنوں کی طرح تحریک انصاف کی تنظیم فعال نظر آتی‘ منتخب ارکان کی بے چینی حفیظ شیخ کی ناکامی کا سبب بنی مگر اس کے اسباب پر کسی نے سنجیدگی سے غور کیا نہ آئندہ کے لیے سدباب کی دانشمندانہ کوشش ہوئی۔ جنوبی پنجاب نے تحریک انصاف کو تخت لاہور اور تخت اسلام آباد پر متمکن کیا جبکہ وسطی پنجاب بدستور مسلم لیگ کے قبضے میں ہے مگر جہانگیر ترین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے تیس ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ( دو وزیروں‘ پانچ مشیروں سمیت) میں سے نوے فیصد کا تعلق اس علاقے سے ہے جس کی نمائندگی کے دعویدار ’’وسیم اکرم پلس‘‘ ہیں‘ یہ وزیراعلیٰ کی پارلیمانی پارٹی پر کمزور سیاسی گرفت کا بین ثبوت ہے اور حکمران جماعت کے لیے چشم کشا مگر لاہور و اسلام آباد میں راوی چین لکھتا ہے‘ اپنے ہی ارکان اسمبلی پر گرفت یا اثرورسوخ سے محروم قیادت سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ منہ زور‘ پولیس‘ کائیاں بیوروکریسی‘ لالچی ذخیرہ اندوز‘ گراں فروش مافیا اور تجربہ کار اپوزیشن کی باریک چالوں کا مقابلہ کر پائے گی اور اگلے بلدیاتی و عام انتخابات میں پانچ سالہ کارکردگی کے ثمرات سمیٹنے کے قابل ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ اگلے سالانہ بجٹ کے موقع پر اپوزیشن نے آصف علی زرداری کے مشورے پر کان دھرے‘ جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی سے ربط ضبط بڑھایا اور تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں اضطراب کا فائدہ اٹھانا چاہا تو کٹوتی تحریک کے ذریعے حکومت کا دھڑن تخت کر دے گی کہ ارکان اسمبلی کو حکومت کی کم مائیگی کا احساس ہو چکا ہے اور یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے ان کے حوصلے بلند کردیئے ہیں۔ حکومت کی طرح اپوزیشن بھی مگر داخلی انتظار کا شکار اور باہمی توتکار میں مگن ہے‘ اے این پی کی طرف سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد حضرت مولانا اور مریم بی بی نے جلتی پر پانی ڈالنے کے بجائے تیل ڈالا اور پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ یوں نظر آتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ایک دوسرے کو گرانے سے زیادہ یہ مقابلہ چل رہا ہے کہ داخلی انتشار کا مقابلہ حسن کارکردگی کون جیتے گا۔ نفسانفسی کے اس عالم میں عوام‘ جمہوریت اور پارلیمانی اداروں کا حال پتلا ہے اور ریاست کے مسائل میں روزافزوں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ دعویٰ تو سننے کو ملتا ہے کہ برا وقت گزر چکا اور طلوع سحر قریب ہے مگر یقین کسی کو نہیں کہ مہنگائی‘ بیروزگاری اور بدامنی کا طوفان تھمنے میں نہیں آرہا اور بدانتظامی عروج پر ہے ع اگر یہ آپ کہتے ہیں کہ راتیں ہو گئیں رخصت تو مجھ کو پوچھنے دیجئے سویرا کیوں نہیں ہوتا