بھائی تو یہ دو سے زیادہ تھے، مگر ان کے کنبے کا، بْرا بھلا، جو بھی نام ہوا، وہ ان دو سے ہوا۔ یعنی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف! مدت العمر، ان کے کھانے اور دکھانے کے دانت، کم و بیش ایک جیسے تھے۔ لیکن ادھر پچھلے دس، اور خصوصا ایک سال سے، دیکھنے میں ع ایک سب آگ، ایک سب پانی بڑے میاں کا دعوٰی ہے کہ وہ اب ایک نظریاتی آدمی ہیں۔ ان کے نظریات کا سَت، اس ایک نکتے میں کھنچ آیا ہے کہ پاکستان کے جملہ مسائل کی ذمہ دار، اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اسی کی سیاست میں مداخلت نے، ملک کی حالت ابتر کر دی ہے۔ ہاں! مسائل کے حل بھی ہیں، مگر وہ سدا سے، سیاستدانوں کے پاس تھے۔ اب کوئی یہ نہ پوچھے کہ سیاست کی اس کہکشاں کے ستارے ہیں کون! آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی۔ یعنی، ایک سے بڑھ کر ایک! اور یہ تو بالکل نہ پوچھیے کہ ان میں سے ہر ایک، کتنے سال اقتدار میں رہا۔ دوسری طرف چھوٹے میاں ہیں۔ یہ حسن ِاتفاق یا سوئِ اتفاق سے، سنا ہے کہ بے خوابی کے شکار ہیں۔ سو ان کی اکثر وارداتیں، رات کی تاریکی میں ہی ہوتی ہیں۔ اس میں نج کے واقعات سے لے کر، جن کا ذکر قصدا اور مصلحتا چھوڑا جا رہا ہے، پنڈی والوں سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ انہی شبینہ وارداتوں کا ثمرہ ہے کہ اَور تو اَور، ان کے دور میں، انتظامیہ سر ِعام بے گناہوں کی لاشیں گرا دیتی ہے، مگر ان پر آنچ نہیں آتی۔ بڑے میاں جیل یاترا کر آتے ہیں، لیکن چھوٹے میاں، پھر لالوں کے لال ہو جاتے ہیں! نفی اور اثبات کا یا کھیل، کہا جاتا ہے کہ بڑی مہارت سے کھیلا جا رہا ہے۔ اور درحقیقت، ہِرپھِر کر، دونوں ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ اس دنیا میں آدمی کی شخصیت کم اور اس کی شہرت زیادہ چلتی ہے! آصف زرداری، اگر اپنی یہ شہرت بڑھاتے ہیں کہ میں یاروں کا یار ہوں، تو اس میں حقیقت شاید اتنی ہی ہو، جتنی ان کی اور باتوں میں ہوتی ہے۔ مگر اس پیدا کردہ شہرت سے، فائدے کتنے ملتے ہیں؟ اسی طرح، چھوٹے میاں کی یہ شہرت کہ وہ اسٹیبلشمینٹ کے حق میں، اپنے بھائی سے بھی اختلاف کرتے رہتے ہیں، انہیں، کیا کچھ نہیں دلا دیتی؟ ماڈل ٹائون کیس کا ذکر اوپر گزر چکا۔ ابھی چند روز پہلے، لاہور میں ایک عمارت جلا کر خاکستر کر دی گئی۔ پتا چلا کہ وہ عمارت داماد شریف کی تھی۔ اس پر بھی، مجال ہے کہ چھوٹے میاں کا بال تک بیکا ہوا ہو! یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی تگڈم ہے کہ ایک بھائی جیل میں اور دوسرا، برابر کا شریک ہونے کے باوجود، اتنا آزاد کہ ع ناشتہ ’’لاہور‘‘ میں کھائے تو لندن میں ٹفن فرض کیجیے کہ دونوں کا ظاہری موقف بھی ایک ہوتا تو کیا ہوتا؟ قومی اسمبلی ایک نہیں، دونوں سے خالی رہ جاتی۔ معافی تلافی اور وعد و وعید کا راستہ بند ہو چکا ہوتا۔ اڈیالہ جیل، ایک کے بجاے دونوں سے آباد ہوتی اور سب سے بڑھ کر، بڑے میاں سے اختلاف رکھنے والے، اپنا دل، چھوٹے میاں کے سامنے کھول کر نہ رکھ دیتے! یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان بھائیوں میں اَور کوئی کمال نہ ہو، یہ ایک کمال ہی بہت کچھ ہے کہ یک جان ہونے کے باوجود، دنیا کو یہ دو نظر آتے ہیں! یعنی، ہرچند کہ بظاہر ع ایک ہیں خفیہ پولس میں، ایک پھانسی پا گئے لیکن درحقیقت ع شیخ جی کے دونوں بیٹے، باہْنر پیدا ہوئے! ٭٭٭٭٭ ابوالکلام اور ابوالکلامیت چند روز پہلے، انہی سطور میں دو جید علماء کا ذکر ہوا تھا۔ لْب ِلْباب اس عبارت کا یہ تھا کہ ابوالکلام کی تحریر بھی تقریر ہی ہوتی ہے۔ اس کی دلکشی اور علمیت مسلم سہی، اسے دلیل یا سند کے طور پر نہیں پیش کیا جا سکتا۔ اسکے برعکس، ابوالاعلٰی کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی، اس کا زبردست استدلال ہے۔ چنانچہ، یہ تحریریں عقل کی کسوٹی پر پرکھی جا سکتی ہیں۔ ابوالکلام کی تحریریں جلسہ گاہوں کی رونق بڑھاتی ہیں اور ابوالاعلٰی کی تحریریں اتنی منطقی ہیں کہ ان پر کسی زبردست وکیل کا گمان ہوتا ہے۔ آج ابوالکلام کی شخصیت کے اسی خطیبانہ پہلو کا ذکر ہو جائے، جس نے خصوصا سیاست اور صحافت کو، بہت نقصان پہنچایا۔ مولانا کی انشاء پردازی کے ڈنکے پِٹے ہوئے ہیں۔ ادب میں جس چیز کو ممتنع کہا گیا ہے، وہ مولانا کے یہاں ناپید ہے۔ بلکہ ذرا سی بات کو اتنا طول دینا کہ وہ الف لیلوی داستان بن جائے، مولانا کا طرۂ امتیاز ہے۔ تحریر میں شعر یا مصرع کا برمحل استعمال، بسا اوقات، مضمون کو کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اس کی چند مثالیں دیکھتے چلیے۔ کسی زمانے میں مولانا محمد علی جوہر اور خواجہ حسن نظامی کے درمیان، زبردست قلمی جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کے دونوں، رہنما بھی تھے اور مخدوم بھی۔ ان کی آپسی لڑائی سے غیرقومیں، ظاہر ہے کہ خوش تھیں۔ اس پر مولانا عبدالماجد دریابادی نے مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا ع آپس میں گالیاں ہیں، غیروںکی تالیاں ہیں پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپنے کسی خط میں، کسی دوست سے جدائی کی شکایت کرتے، صرف یہ مصرع لکھ بھیجا ع مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے مولانا ماہر القادری کو اس واقعہ پر مضمون لکھنا تھا کہ وائسراے ہند نے، غالبا کسی قدرتی آفت سے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ہے۔ مولانا نے نظیری کے اس شعر کو، سْرخی بنا دیا۔ ہیبت ِحْسنش، کسی را رخصت ِآہی نہ داد گرچہ ہر سْو داد خواہی بود، اْو تنہا گْذشت میرے والد اظہر سہیل مرحوم نے 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کی تیاریوں پر کالم لکھا تو اس کا خاتمہ، مصطفی زیدی کے مصرع میں، ذرا سے تصرف کے ساتھ، یوں کیا ع مال" جیتے گا کہ شاعر کی غزل جیتے گی؟ ان مثالوں میں، ایک مصرع کے بھی برمحل اور برجستہ استعمال نے، مضمون کو پَر لگا دیے ہیں! ابوالکلام کے یہاں، اول تو شعروں کی اتنی بھرمار ہوتی ہے کہ کسی بسیارگو شاعر کا گمان ہوتا ہے! پھر بیشتر شعر، یا تو بے محل ہوتے ہیں اور یا جو بات مولانا اوپر نثر میںلکھ آتے ہیں، نظم میں بھی لکھ کر رہتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر، اکثر یہ ظلم ہوا ہے کہ صرف کسی لفظ کے لکھنے پر، انہیں شعر یاد آ گیا۔ یہ کہنا کافی ہو گا کہ شعر یاد آنے پر، کسی بھی بہانے، اسے ٹانکے بغیر، مولانا کی طبیعت ہلکی نہیں! اس ایک پہلو سے، ان کی خودنمائی کھْل کر سامنے آ جاتی ہے۔