کیا کسی کو عبدالحمید کا نام یاد ہے؟ کم ہی لوگوں کو آج معلوم ہو گا کہ راولپنڈی پشاور روڈ پر آج جہاں ای ایم ای کالج ہے وہاں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ ہوتا تھا ۔پشاور روڈ راولپنڈی ہی کی نہیں پورے ملک کی لائف لائن ہے۔ یہ لائف لائن پولی ٹیکنیک کے طلبہ کے رحم و کرم پر تھی۔ جب چاہتے شاہراہ پر قبضہ کر کے آمدو رفت معطل کر دیتے۔ بھٹو صاحب کا ایوب خان کے ساتھ عہد عقیدت ختم ہوا تو عہد بغاوت شروع ہوا۔ انہیں دنوں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ نے شاہراہ پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ حکومت کو گولی چلانا پڑی عبدالحمید نامی طالب علم شہید ہو گیا۔ بھٹو صاحب اسی کی تعزیت کے لئے اس کے آبائی قصبے پنڈی گھیپ گئے یہ وہ زمانہ تھا جب بھٹو صاحب کو اپنی سیاسی اٹھان کے لئے ایسی لاشوں اور ان کی تعزیتوں کی ضرورت تھی۔ یہ الگ بات کہ بعدمیں دلائی کیمپ بھی بنا۔ لیاقت باغ میں گولیوں کی بارش بھی ہوئی اور ڈاکٹر نذیر سے لے کر نواب محمد احمد قصوری تک متعدد قتل بھی ہوئے۔ جنرل ضیاء کا زمانہ آ گیا۔ شاہراہ پر قبضہ وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔ یہ قبضہ پشاور سے لاہور تک کی ٹریفک کو متاثر کرتا تھا۔ جنرل صاحب نے بانسری کی روز روز کی آواز سے جان چھڑانے کے لئے بانس ہی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ کالج کو وہاں سے 1979ء میں کہیں اور ’’منتقل ‘‘کرنے کا حکم دیا اور وہاں عسکری انتظام کے تحت چلنے والا ای ایم ای کالج بنا دیا جو اب نسٹ یونیورسٹی کا حصہ ہے۔ ہاں! پولی ٹیکنیک کو ’’منتقل‘‘ ہونے میں تین عشرے لگ گئے! کسی بھی مہذب ملک میں شاہراہ‘ چھوٹی ہو یا بڑی مسدود کرنے کا کوئی تصور نہیں! اسلام میں بھی یہ پہلو از حد اہمیت کا حامل ہے۔ ہر مسلمان کو علم ہے کہ راستے سے کانٹے یا کوئی رکاوٹ ہٹانا نیکی کا عمل ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر راستہ بند کرنا کتنا بڑا گناہ ہو گا! فقہا نے شاہراہوں کے کنارے بول و براز ڈالنے سے بھی منع کیا ہے۔ تاہم پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنا ہے اس لئے ایسی کسی بھی پابندی سے مبرا ہے۔ یہاں سڑکیں ‘ شاہراہیں، گلی کوچے‘ غریب کی جورو ہیں! جس کا بس چلتا ہے‘ انہیں بند کر دیتا ہے۔ گائوں کے کلچر میں مخالفین کا راستہ بند کر دینا عام ہے۔ اس سے مقدمہ بازی کا آغاز ہوتا ہے جو برسوں نہیں‘ دہائیوں تک چلتی ہے۔ چند مربع فٹ کی پگڈنڈی دو خاندانوں کو قلاش کر کے رکھ دیتی ہے۔ قصبوں اور شہروں میں شادی ہو یا موت‘ سب سے پہلے راستہ ہدف بنتا ہے۔ ٹینٹ اور سائبان یوں نصب ہوتے ہیں کہ پوری گلی بند ہو جاتی ہے اردگرد کے مکین کچھ مروت کے مارے اور کچھ مجہول ہونے کے سبب‘ خاموش رہتے ہیں اگرچہ خون کے گھونٹ پیتے ہیں! رہیں بڑی شاہراہیں‘ تو ان کی حرمت اتنی بھی نہیں جتنی جنگل کے کچے دھندلے راستے کی ہوتی ہے۔تحریک انصاف نے ’’بڑا‘‘ دھرنا دیا تو مہینوں شاہراہیں بند رہیں۔ پھر مولانا نے دونوں شہر مفلوج کر کے رکھ دیے آئے روز شاہراہیں مسدود کر دی جاتی ہیں۔ کوئی اپنی غلطی سے گاڑی کے نیچے آ کر کچلا گیا تو لواحقین نے اس کی لاش چارپائی پر ڈالی اور چارپائی شاہراہ کے درمیان رکھ دی۔ احتجاج جس کے خلاف بھی ہو‘ نشانہ شاہراہ بنتی ہے۔ جلوس مذہبی ہو یا سیاسی‘ شاہراہ کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے! راستے بند کر کے خلق خدا کو بے پناہ اذیت میں مبتلا کرنے کی ’’نیکی‘‘ عیدالضحیٰ کے دنوں میں عروج پر رہی! سڑکیں ‘ گلیاں‘ کوچے‘ شاہراہیں‘ مویشیوں کی منڈیوں میں تبدیل ہو گئے۔ شہریت اورشہری شعور کا جنازہ نکل گیا۔ وحشت اور بے حسی عروج پر رہی! ایئر پورٹوں ‘ ہسپتالوں‘ قبرستانوں میں پہنچنے والے بے یارومددگار‘ گھنٹوں بلکہ پہروں مسدود راستوں کے کناروں پر کھڑے رہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی طور پر پولیس کو ہدایت کی کہ راستے منڈیوں میں تبدیل نہ ہوں ۔ راولپنڈی میونسپل کارپوریشن نے تین مقامات مخصوص کر کے جیسے فرض کفایہ ادا کر دیا۔ دونوں احکامات ہوا میں اڑا دیے گئے۔ دارالحکومت پورے کا پورا مویشی منڈی میں تبدیل ہو گیا۔ زینب کو لاہور چھوڑ کر واپسی ہو رہی تھی۔ موٹر وے پر ہم چکری پہنچ گئے۔ چکری سے ایک بڑی شاہراہ سیدھی روات کو جاتی ہے۔ شاید اسے چک بیلی خان روڈ کہتے ہیں۔ عام طور پر اسلام آباد جانے کے لئے موٹر وے کے مسافر‘ چکری سے نکل کر اس سڑک پر ہو لیتے ہیں۔ نئی بنی ہوئی یہ سڑک کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ بچا دیتی ہے مگر افسوس!جب روات یعنی جی ٹی روڈ صرف دس منٹ رہ گئی تو مسافر محصور ہو کر رہ گئے۔ آگے قربانی کے جانوروں کی منڈی لگی تھی گاڑی تو کیا‘ کیڑی تک نہیں گزر سکتی تھی۔ عین شاہراہ کے اوپر‘ جانور فروخت کرنے والے ’’جانور‘‘ کھڑے تھے وہ اس حقیقت سے مکمل بے نیاز تھے کہ سینکڑوں گاڑیاں دونوں طرف رکی ہوئی ہیں۔ ایک ہاتھ سے بکرا یا بیگ پکڑے‘ دوسرے ہاتھ سے موبائل کا فون استعمال کرتے یہ بیوپاری‘ آسمان سے اُترا عذاب لگ رہے تھے۔ ایک خاتون نے اپنی بھینس کے ساتھ سیلفی بنا کر کسی دوست کو بھیجی۔ دوست نے پوچھا دونوں میں سے بھینس کون سی ہے؟ یہاں بھی یہی سوال تھا کہ جانور کون ہے؟ چار ٹانگوں والا؟ یا وہ دو پایہ جو جانور کو پکڑے‘ فون کانوں سے لگائے‘ سڑک کے درمیان کھڑا ہے؟ پولیس کو یقینا اس صورت حال کا علم ہو گا مگر پولیس بیچاری خود دوپایہ ہے۔ جانے کہاں کہاں عیدی اکٹھا کر رہی ہو گی! شاعر نے کہا تھا ع آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا ثابت ہوا کہ ہر دوپایہ انسان نہیں ہو سکتا! شاہراہوں کو منڈیاں بنانے والے دوپائے بیوپاری تو ہو سکتے ہیں‘ انسان نہیں کہلائے جا سکتے! ہم پاکستانیوں کی قسمت عجیب و غریب ہے۔ جو شے بھی ملی‘ ادھوری‘ نقص والی ملی ! امرود میں کیڑا نکلا! خشک خوبانی میں ڈھیروں لحمیات ! سیاسی پارٹیاں ملیں تو ایسی جن میں جمہوریت ضرور ہے مگر خاندانی ! پارٹی کی ملکیت خاندان سے باہر نہیں جا سکتی! مذہبی رہنما ملے تو ایسے جن کے نزدیک اسلام صرف حقوق اللہ کا نام ہے! حقوق العباد سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ خلق خدا کو تلقین کریں گے کہ حجامہ سے بیماری کا علاج کرائو‘ خود بیمار ہوں گے تو ٹاپ کے ہسپتال میں بہترین ڈاکٹروں سے سٹنٹ ڈلوائیں گے! تاجر ملے تو اکثریت مجرموں کی شکل میں! رہنما ملے تو ایسے جن کا ’’وطن اصلی‘‘ پاکستان سے باہر ہے! روحانیت کے علمبردار ہیں تو وہ جن کی روحانیت فقط مستقبل کا حال بتانے پر موقوف ہے! کسی زمانے میں روحانیت‘ باطن کی صفائی کا نام تھا۔ روحانی پیشوا نظر نہ آنے والے رذائل سے چھٹکارا دلواتے تھے! غیبت‘ حسد‘ حب جاہ‘ تکبر‘ بغض ‘ سے نجات دیتے تھے۔ تزکیہ نفس سکھاتے تھے۔ جھوٹ اور وعدہ خلافی کی جڑ کاٹتے تھے۔ اب پہروں گفتگو اس پر ہوتی ہے کہ فلاں ماضی میں جھانک سکتا ہے اور فلاں مستقبل سے آگاہ ہے! مانا یہ ایک علم ہے۔ فرض کیجیے کوئی واقعی اللہ والا ہے۔ مگر آپ کی عاقبت اس کے کشف و کرامات سے کیسے سنورے گی؟ آپ کا اپنا رویہ کیا ہے؟ دوسروں کے کمالات پر یقین کرنے اور ان کی تشہیر کرنے سے آپ کی اپنی آخرت کیسے فلاح پائے گی؟ ایک زمانے میں حفیظ جالندھری اور ضمیر جعفری کسی ایک جگہ ملازمت کرتے تھے۔ پھر یہ زمینی قربت ختم ہو گئی۔ مدت بعد ملے۔ ضمیر جعفری نے اشعار سنائے۔حاضرین نے خوب تحسین کی! حفیظ صاحب کو شاید یہ تحسین اچھی نہ لگی۔ کہنے لگے‘ ضمیر! تم ہمارے ساتھ تھے تو اتنے اچھے شعر نہیں کہتے تھے! ضمیر جعفری نے جواب دیا’’حضورْ سارا فیض آپ سے دوری کا ہے!‘‘ جو ہماری حالت ہے‘ وہ کتاب الٰہی سے دوری کی نحوست کے سبب ہے! دنیا بھر کی کتابیں چاٹ ڈالیں گے‘ قرآن سمجھ کر نہیں پڑھیں گے۔ پانچ وقت پڑھی جانے والی نماز کا مطلب کتنوں کو معلوم ہے؟ آئیے! اگلی عیدالضحیٰ تک یہ سوچیں کہ بکنے والا چوپایہ اشرف ہے یا فروخت کرنے والا دوپایہ؟