دالیں مزید مہنگی ہو گئی ہیں۔تین سال سے یہ مزید کا لفظ اتنی بار استعمال ہوا ہے کہ ماضی بعید کے سارے مزید مل کر بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ میڈیا کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ ’’مزید‘‘ کے ساتھ نمبر بھی لگایا کرے۔ مثال کے طور پر اسی ہفتے بجلی کے نرخ مزید ڈیڑھ روپیہ مہنگے ہو گئے ہیں ،چنانچہ اس خبر کی سرخی یوں ہونا چاہیے کہ بجلی مزید نمبر 40مہنگی۔یعنی اس سے پہلے‘ان تین برسوں میں 39بار مہنگی ہوئی اب یہ چالیسواں مزید ہے۔خدا جانے اس مزید کا چالیسواں کب ہو گا۔ ہاں تو بات دال کی تھی۔جو دال پچھلے کرپٹ دو میں ڈیڑھ دو سو کی تھی ‘اب ساڑھے تین سو کا ہندسہ ٹاپ چکی ہے کہ یہ ایک اور مزید آ گیا۔اس خبر کے مطابق دالیں مزید 10سے 16روپے فی کلو مہنگی کر دی گئی ہیں۔ بس یوں سمجھیے کہ انقلاب ہی آ گیا ہے۔ایسے کہ ماضی میں امیر سب کچھ کھاتا تھا‘غریب دال چپاتی سے دل دہلاتا تھا اور اب وہ دور گیا۔دال اور چپاتی غریب کے ہاتھ سے پھسل رہی ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت غریبوں سے بہ بانگ دہل گویا کہہ رہی ہے کہ یہ منہ اور مسور ماش کی دال‘جائو میاں غربے‘ہوا کھائو۔ ٭٭٭٭ دال کی قیمت میں یہ ’’مزید‘‘ اضافہ ان بہت سے مزید اضافوں میں سے محض ایک ہے،جو گزرے مہینے یعنی جولائی کے ’’ریلیف نواز‘‘ بجٹ کے بعد سے نازل ہوئے ہیں۔چند دن پہلے گیس کے نرخ 14فیصد بڑھے تھے۔ اس سے پہلے بجلی دو بار اور تیل تین یا چار بار مہنگا ہو چکا ہے‘موٹر وے پر چڑھنے کے جرم کا جرمانہ بھی بڑھا دیا گیا ہے۔خیر‘اس پر تو کوئی شکوہ ہیں۔نواز شریف کو ہٹانے کی فرد جرم میں ایک جرم موٹروے بنانا بھی تھا‘موٹر وے بنانا جرم ہے تو اس پر آنا جانا بھی سدا بہار جرم ہے‘اس جرمانے میں سدا بہار اضافہ عین انصاف ہے۔ہاںیاد آیا۔ باقی سڑکیں تو موٹر وے نہیں‘انہیں کیوں تباہ کیا جا رہا یا تباہ ہونے دیا جا رہا ہے۔شاید انہیں موٹروے کی بیٹیاں سمجھا جا رہا ہے۔ ٭٭٭٭ سٹیٹ بنک کے مطابق جولائی میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 70کروڑ 73لاکھ ڈالر رہا۔جس کی وجوہات درآمدات میںاضافہ اور برآمدات میں کمی نیز بیرون ملک سے ترسیل زر کا حجم کم ہو جانا۔خبر کے مطابق معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ یہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بہت زیادہ ہے۔ پی ٹی آئی کے وزرائ‘مشیر اور ترجمان بلکہ خود وزیر اعظم ایک زمانے سے یہ بتاتے آ رہے ہیں کہ ہم نے کرنٹ اکائونٹ خسارہ ختم کر دیا ہے۔ اب اس نے پھر سے سر اٹھایا ہے تو گورنر سٹیٹ بنک نے یہ کہہ کر عوام کو تسلی دی کہ یہ خسارہ بڑھنا دراصل ترقی کی نشانی ہے۔ چلیے جناب ہماری تسلی ہو گئی لیکن پھر یہ بتا دیجیے کہ 18اگست کو وزیر اعظم نے اپنی معاشی ٹیم کو یہ انتباہ کیوں کیا کہ وہ غیر ضروری سامان کی درآمدات کم کریں ورنہ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافہ بے قابو ہو سکتا ہے۔یعنی یہ جو مہیب خسارہ ہوا ہے‘محض ابتدا ہے‘بے قابو ہونے والا مرحلہ بس آیا ہی چاہتا ہے۔ معاشی ٹیم کے ذرائع نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی کم ہوئی ہے اور برآمدات بھی جبکہ درآمدات بے تحاشا بڑھ گئی ہیں۔ان معاملات پر سیر حاصل‘بامعنے اور پرمغز تبصرہ کرنا تو ہماری فہم و استطاعت سے باہر ہے لیکن ہم اتنا سوال ضرور کریں گے کہ اتنی بے تحاشا درآمدات(خبر کے مطابق 48فیصد اضافہ ہوا) ہو رہی ہیں، تو غریب دال کا کیا قصور ہے کہ اسے غریب اور مڈل کلاس(لوئر درجے والی) کے منہ سے چھینا جا رہا ہے۔اب جو عرصے سے وہ بیک گرائونڈ دھند بھی نہیں سنائی دے رہی یا بہت کم سننے کو ملتی ہے کہ ’’کسی کو نہیں چھوڑونگا‘‘ ٭٭٭٭ آٹا 13سو روپے کے ہدف کو چھو رہا ہے۔کرپٹ حکومت تھی تو یہ 650کا تھا۔ہم آئے‘کرپشن ختم کی اور بڑی محنت سے اسے 900کا کیا۔ہمارے قائد نے کہا مزید محنت کرو‘ہم نے مزید محنت کی اور ماشاء اللہ یہ 13سو کا ہو گیا۔ عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ انہیں ریلیف دینے کے لئے اپنے قائد محترم کے حکم کے مطابق محنت‘محنت اور مزید محنت کا سلسلہ اسی طرح جاری رکھیں گے اور عوام کو ریلیف میں اضافے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔ ٭٭٭٭ یہ شادی نہیں ہونے دوں گا۔پی ٹی آئی کا ایک حامی تقریب ہال کے باہر نعرے لگا رہا تھا۔نکاح کی تقریب بہرحال ہو گئی۔شادیاں رکوانے کا سیاسی کلچر نیا ہے اور انوکھا بھی۔خیر‘اس سے زیادہ انوکھا وہ طرز عمل ہے جس کے تحت سیاسی مخالفین کی بیماری پر اظہار مسرت کیا جانے لگا ہے۔ ماضی میں یہ کلچر بالکل نہیں تھا۔خوشی پر مبارک کا پیغام دشمنوں کو بھی دیا جاتا تھا اور ان کے دکھ میں ہمدردی کا۔لیکن اب دور بدل گیا ع شہر میں ’’کسی‘‘ نے کھولی ہے دکاں سب سے الگ۔سب سے نئی!