ایوان انصاف سے یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ عوام کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک معاصر کے صفحہ اول پر تین کالمی سرخی کے ساتھ یہ خبر چھپی ہے کہ سڑکوں پر فاقہ زدہ چہروں کے ڈیرے، امداد ملی نہ کام۔ راشن لینے کے لئے لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں‘ حکومت کا ریلیف پیکیج مستحق افراد کی پہنچ سے دور۔ اور پھر یہ خبر ملاحظہ فرمائیے کہ پنجاب حکومت نے دوسرے اداروں کی طرف سے امدادی کاموں پر اجازت لینے کی شرط لگا دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے پابندی کہا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ حکومت نے اعلان کر دیا‘ نہ خود کسی کی مدد کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ یعنی الخدمت فائونڈیشن جو اس وقت سب سے بڑھ کر امدادی کام کر رہی ہے‘ لوگوں کو گھروں میں امداد پہنچا رہی ہے اور اس کی تصویریں بھی اپ لوڈ کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ اس کا دائرہ خدمت اب صرف سندھ کے صوبے تک محدود ہو جائے گا۔ چلئے یہ تو سب چلتا رہے گا‘ فی الحال ایک تصویر پر کچھ کہنا ہے۔ الخدمت کے کچھ لوگ ایک بھوکے ہجوم کو کھانا کھلا رہے ہیں۔ تصویر میں الخدمت کے کارکنوں کے چہرے نظر نہیں آ رہے‘ یعنی یہ فوٹو سیشن نہیں ہے اور سچ مچ امداد کی جا رہی ہے اور یہ ہجوم کن بھوکوں کا ہے؟ جی انسانوں کا نہیں‘ کتوں کا، یعنی صرف انسانوں ہی کی نہیں جانوروں کو بھی مدد دی جا رہی ہے‘ ریاست مدینہ کی بات یاد آئی جب فاروق اعظمؓ نے کہا تھا کہ بھوک پیاس کی وجہ سے کوئی کتا بھی مرتا ہے تو ذمہ دار میں ہوں گا۔ ٭٭٭٭٭ کرونا نے انسانیت کو دکھی کر دیا ہے اور یہ دکھ نظر آ رہا ہے لیکن انسانیت سے زیادہ ’’حیوانیت‘‘ دکھی ہے اور اس کے دکھ کسی کو نظر بھی نہیں آ رہے۔ کتے اور بلیاں اپنی خوراک کے لئے انسانی مسافروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ انہیں کھلانے والے سخی تو آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ جو کچرا انسان پھینکتا ہے‘ اسی میں ان کا رزق چھپا ہوتا ہے۔ ہوٹلوں کے باہر‘ ڈھابوں کے آس پاس‘ شادی ہالوں کے سامنے قصاب کی دکانوں پر تختوں کے نیچے ان کتے بلیوں کے ہجوم ہوتے ہیں۔ یہ ساری جگہیں اجڑ گئیں‘ انہیں ٹھوڑا بہت دینے والے لاک ڈائون میں محصور ہو گئے۔ کسی اخبار میں ان کی خبر نہیں چھپتی۔ ٹی وی پر ان کے لئے کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔ ایسے میں الخدمت کے کارکنوں کی یہ تصویر بے یقینی سے دیکھی پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں خیر‘ خیرات کے کام بہت کم اور جانوروں کی رفاہ کا کام صفر کے درجے میں شامل ہے۔ الخدمت کے علاوہ کراچی کی ایک فائونڈیشن اے اسی ایف کے نام سے سرگرم ہے۔ بنیادی طور پر یہ جانوروں کو ریسکیو کرنے کا کام کرتا ہے۔ یعنی سڑکوں پر پڑے بیمار اور زخمی جانوروں کو اٹھا کر اپنے شیلٹر میں لے جاتا ہے‘ ان کا علاج کرتا ہے اور خوراک دیتا ہے، ان جانوروں میں کتے‘ بلیاں‘گدھے اور اونٹ شامل ہیں۔ آج کل یہ فائونڈیشن سڑکوں پر حیرت اور وحشت کے عالم میں مارے مارے پھرنے والے جانوروں کی مدد بھی کر رہا ہے لیکن اس کا دائرہ صرف کراچی تک محدود ہے۔ ملک کی سطح پر جانوروں کی دیکھ بھال کا ایک بھی ادارہ نہیں۔ ٭٭٭٭٭ لاک ڈائون میں انسان محصور ہو گئے‘ اس کی بڑی دہائی ہے لیکن یہ محصوری دیکھیے‘ آدمی اپنے گھر میں پوری آزادی کے ساتھ چل پھر سکتا ہے‘ چھت پر جا سکتا ہے‘ گلی اور سڑک میں بھی گھوم سکتا ہے‘ وہ ٹی وی دیکھ سکتا ہے‘ فون کر سکتا ہے‘ چائے پی سکتا ہے‘ پھل کھا سکتا ہے ان ڈور گیم کھیل سکتا ہے۔ سب کچھ کر سکتا ہے‘ پھر بھی کہتا ہے کہ اس محصوری نے دکھی کر دیا۔ ذرا ان اربوں جانوروں کی محصوری کا سوچئے جو میٹ انڈسٹری میں، چڑیا گھروں میں، سرسکوں میں محصور ہیں۔ وہ چند فٹ کے پنجروں میں رہتے ہیں۔محصوری کے عالم میں پیدا ہوتے ہیں‘ مختصر سی زندگی اسی اندھیرے پنجرے میں گزر جاتی ہے۔ وہ سورج کی روشنی نہیں دیکھ سکتے‘ انہیں نہیں پتہ کہ آسمان کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے پنجرے میں بھی حرکت نہیں کر سکتے‘ ایک ہی جگہ کھڑے رہتے ہیں اور وہیں بیٹھ سکتے ہیں۔ میٹ انڈسٹری میں ہر وقت اربوں جانور قید رہتے ہیں اربوں ذبح کر دیے جاتے ہیں۔گائے‘ بھینس‘ بکریاں‘ بھیڑیں‘ مرغیاں‘ٹرکی مرغ اور دوسری انواع۔ اور اتنا ہی برا حال ڈیری کی صنعت کا ہے۔ گائے بھینسں اپنی مختصر سی عمر چھوٹی سی تنگ جگہ پر قید میں گزار دیتی ہے اور جب دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی تو اسے بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے۔ بوچڑ خانے جس روز جاتی ہے‘ وہ اس کی زندگی کا پہلا اور آخری دن ہوتا ہے جب وہ دھوپ دیکھتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ میٹ انڈسٹری کے علاوہ ایک ظالمانہ صنعت ’’کافی‘‘ کی بھی ہے۔ جنوبی امریکہ اور ایشیا میں اس کے کارخانے ہیں۔ اوسولوٹ OCELOTبلی کی ایک قسم ہے۔ ہوبہو گھریلو بلی کی طرح لیکن کچھ زیادہ لمبی۔ کافی کے کارخانوں میں ہزاروں بلیاں دو دو فٹ کے پنجروں میں قید کر دی جاتی ہیں اور بھوکا رکھا جاتا ہے۔ کافی کے بیج ان کی خوراک نہیں لیکن جب انہیں کھانے کو کچھ نہیں ملتا تو بھوک سے بے تاب ہو کر یہ کافی کے بیج ہی کھا جاتی ہیں جو ان کے پنجرے میں رکھ دیے جاتے ہیں۔ یہ بیج ان کی خوراک کی کمی پوری کرتے ہیں نہ پوری طرح ہضم ہوتے ہیں چنانچہ کچھ عرصہ بعد یہ بلیاں بھوک اور کمزوری سے مر جاتی ہیں اور ان کی جگہ نئی بلیاں قید کر دی جاتی ہیں۔ ان بلیوں کا فضلہ پیس کر دنیا کی مہنگی ترین کافی بنائی جاتی ہے۔ پینے والے نہیں جانتے کہ جس کافی سے وہ لذت کشید کر رہے ہیں‘ اس کی تیاری میں کتنے بے زباں معصوم بے بس جانوروں کی اذیت ناک موت شامل ہے۔انسانیت نہیں‘ حیوانیت دکھی ہے۔ انسانیت دکھی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ اس کا تو کہیں وجود بھی نہیں ہے۔