مسلم لیگ (ن)کی حکومت جس میں میاں نوازشریف چار برس تک براہ راست اورآخر ی برس بالواسطہ حکمران رہے ،اپنی مدت پوری کر کے گھر چلی گئی لیکن پیچھے مسائل کا انبار چھوڑ گئی ہے ۔ سابق حکومت کا بزعم خود سب سے بڑا طرہ امتیاز یہ تھا کہ ہم نے کئی دہائیوں پرانا پاور شارٹ فال کا مسئلہ حل کر دیا ہے ۔اس ضمن میں برادر خورد میاں شہبازشریف خاص طور پر فعال تھے۔ اپنی سبکدوشی سے چند روز قبل مجھے ان کے ہمراہ حویلی بہادر شاہ جانے کا موقع ملا جہاں وفاقی حکومت کا ایل این جی سے چلنے والا پلانٹ 650میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے ۔اس سے متصل ہی سب سے بڑا پاور ہاؤس 12500میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا ، یہ دسمبر میں گرڈ پر آئے گا ۔ نگران حکومت کے آنے کے بعد اور گرمی میں اضافے کے باعث اچانک لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہوگیا ۔ چند روز قبل پاور ڈویژن نے ایک بڑی دلچسپ روداد سنائی کہ پاور لاسز میں اضافہ اور بجلی کی پیداوار سے ہونے والی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔سیکرٹری پاور یوسف ندیم کھوکھر جو گزشتہ حکومت کے آخری دو ہفتوں میں حکومت کے ایما پر مشکل یا متنازعہ فیصلوں سے بچنے کے لیے رخصت پر چلے گئے ۔ان کے مطابق جون 2015ء سے 2018ء تک آمدن میں 32.25فیصد اضافہ ہوا لیکن گزشتہ سال جولائی میں4503میگاواٹ بجلی کی کمی اور جون کے پہلے ہفتہ میں بھی قریبا ً اتنی ہی کمی آئی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قوم کو غلط اعداد وشمار دے کر بنیادی بات یاحقیقی صورتحال خفیہ رکھی گئی اور سب اچھا کے ڈونگرے برسائے گئے جبکہ سینیٹ کمیٹی کو بتائے گئے اعدادوشمار کے مطابق چندر وز قبل شارٹ فال میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ دوسری طرف اسی عرصے میں بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کے واجب الادا بلوں میں کمی ہونے کے بجائے بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔سرکلر ڈیٹ 2015میں قریبا ً 600 ارب ڈالر تھا ۔ جون میں 780ارب ڈالر تک پہنچ گیا گویا کہ اس میں32.25فیصد ہوا ۔سیکرٹری پاور ڈویژن نے سینیٹ کی کمیٹی کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ پاور سیکٹر میں کرپشن اور ملی بھگت کا کلچر اس حد تک سرایت کر گیا ہے کہ بجلی کے تقسیم کار اداروں کو چلانا ناممکن ہو گیا ہے ۔ یوسف ندیم کھوکھرکا کہنا تھا کہ اس حوالے سے میں نے کئی بار صوبائی حکومتوں سے رابطے بھی کیے ہیں بلکہ سابق وزیر پانی وبجلی نے خط بھی لکھے جن کا صوبوں نے جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا ۔ گزشتہ حکومت کو بجلی کی پیداوار میں اضافے کا کریڈٹ تو جاتا ہے لیکن باقی نظام اور انفراسٹرکچر اتنا فرسودہ ہو چکا ہے کہ بجلی کی بلا تعطل ترسیل ممکن ہی نہیں ۔ دوسری طرف اقتصادی صورتحال اتنی دگرگوں ہے کہ ایک ہفتے کے دوران ڈالر کے مقابلے میں پاکستان روپیہ کی قدر میں دو مرتبہ کمی کرنا پڑی جبکہ اس سے پہلے2017ء میں بھی روپے کی قدر میںچار مر تبہ کمی کے باعث ڈالر مہنگا ہوا تھا ۔ اکثر اقتصادی ماہرین عرصہ دراز سے کہتے چلے آر ہے ہیں کہ ہمارا روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مصنوعی طور پر بہت مہنگا تھا دیگر عوامل کے علاوہ ہماری برآمدات میں مسلسل زوال کی ایک بڑی وجہ بھی یہی تھی ۔خطے میں تقریباً بھارت سمیت دیگر ملکوں نے اپنی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے ڈی ویلیو کی لیکن سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار اور ان کے باس میاں نوازشریف اپنے اقتصادی ماہرین کو ویٹو کرتے ہوئے ٹس سے مس نہیں ہوئے اور روپے کی قیمت کو مصنوعی طور پر زیادہ رکھنے کو ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا ۔ میاں نوازشریف اپنے سمدھی کی جگہ کسی اور شخص کو خزانے کا قلمدان دینے کو تیار ہی نہیں تھے ۔اسحق ڈار جو بنیادی طور پر ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں خود ساختہ ماہر اقتصادیا ت بنے بیٹھے تھے ۔انھوں نے میاںنوازشریف کی معزولی کے بعد کچھ عرصہ لندن میں بیٹھ کر منسٹری چلانا شروع کی لیکن جب بالکل ستیاناس ہو گیا تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنانے پر مجبور ہو گئے ۔ اب معاملہ اتنا سنگین تھا کہ سٹیٹ بینک کے پاس اتنے ڈالر ہی نہیں رہے جنہیں مارکیٹ میں پھینک کر روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھا جا سکے ۔اسی بنا پر روپے کی فری فال کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ظاہر ہے کہ اگر خطے میں دیگر کر نسیوں کی طرح روپیہ بھی آہستہ آہستہ مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق نیچے آتا تو صارفین پر یکدم اتنا بوجھ نہ پڑتا ۔سستے روپے یا مہنگے ڈالر کا بم نہ گرتا ۔اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ دو ماہ سے زیادہ کی برآمدات کے لیے ڈالر نہیں ہیں ۔دوسری طرف درآمدات میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے اور برآمدات تھوڑی بہتری کے باوجود اب بھی جمود کا شکار ہیں ۔ سابق حکومت صرف اس بات پر داد وصول کرنا چاہتی ہے کہ اس نے سڑکوں ،پلوں ،انڈر پاسز،موٹر ویز ،میٹرو ٹرین اور بسوں کا جال بچھا دیا ہے ۔ یقیناً انفراسٹرکچر کے ان پراجیکٹس کی بہت ضرورت تھی لیکن یہاں چادر دیکھ کر پاؤں نہیں پھیلائے گئے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ میاںشہبازشریف نے ہسپتالوںاور جدید میڈیکل انسٹی ٹیوٹس کی تعمیر پر بھی توجہ دی ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ انھوں نے قریبا ً 35بیوروکریٹس کو مارکیٹ ریٹ پر تنخواہیں کیونکر دیں لیکن شاید شہبازشریف جن ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے تھے وہ ایسا کئے بغیر ممکن نہیں تھا ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ضمن میں انھوں نے قانون شکنی نہیں کی ہے ۔ دوسری طرف پر رونق شاپنگ مالز کی بھرمار،نت نئی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور دیگر سامان تعیش کی مانگ میں اضافے کو ترقی کی معراج قرار دیاجا رہا ہے ،بات کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن اگر ریکارڈ جی ڈی پی شرح میں اضافے کنزیومر ازم اور مہنگے پراجیکٹس کی مد میں خزانہ خالی ہو جائے تو اسے اچھی حکمت عملی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔قلاش ہونے کے باوجود ہماری ناقص درآمدی پالیسیوں کی بنا پر فرنچ فرائز french fries بھی ہالینڈ سے امپورٹ کی جا رہی ہیں۔گویا کہ ہم آلو کے قتلے تلنے سے بھی قاصر ہو چکے ہیں۔موجودہ نگران حکومت نے آتے ہی یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم اوگرا کی سمری کے مطابق پٹرول کی قیمت میں اضافہ نہیں کریں گے ۔ لیکن خزانہ خالی ہونے کی بنا پر جلد ہی اس کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا ۔گویا کہ عید پر لوڈ شیڈنگ کے علاوہ پٹرول بم بھی عوام پر گرا دیا گیا ۔’ مرتا کیا نہ کرتا‘ اب تو برملا یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ پاکستان کو اپنی زوال پذیر اقتصادی صورتحال کی روشنی میں جلد ہی آئی ایم ایف کا سہارا لینا ہو گا ۔اب سوال یہ نہیں ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کا سہارا لینا پڑے گا یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ کام نگران حکومت کے جانے کے بعد آنے والی حکومت کو کرنا ہی پڑے گا۔اس ضمن میں نگران وزیرخزانہ کو اگلی حکومت آنے سے قبل کم از کم ہوم ورک کر لینا چاہئے۔اسحق ڈار اس بات پر بڑا فخر کرتے تھے کہ ہم نے قوم کوآئی ایم ایف کے شکنجے سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دی اور ان کے قرضے ادا کر دیئے ہیں لیکن وہ اپنی پالیسیوں کے باعث قوم کے لئے شکنجہ کے بجائے پھندا پیچھے چھوڑ گئے ہیں ۔معیشت کی ناگفتہ بہ صورتحال میں بھی آپ سب کو عید مبارک!